Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جہانگیر ترین نااہل ہیں تو کابینہ کے اجلاس میں شرکت کیوں؟

وسیم عباسی
پاکستان کی وفاقی کابینہ کے اجلاس میں سپریم کورٹ سے عوامی عہدے کےلئے ناہل قرار پانے والے جہانگیر ترین کی شرکت کے بعد قانونی اور سیاسی حلقوں میں اجلاس کی حثییت کے حوالے سے بحث چھڑ گئی ہے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کے سابق سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین نے خصوصی شرکت کی تھی۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اجلاس کے بعد میڈیا کو بتایا کہ جہانگیر ترین نے کابینہ اجلاس کو زرعی شعبے میں اصلاحات سے متعلق بریفننگ دی۔ کابینہ نے اجلاس میں اگلے5سال کیلئے 290 ارب روپے کے زرعی پروگرام کی منظوری دی تھی۔
اپوزیشن نے سپریم کورٹ سے نااہل ہونے والے شخص کی کابینہ اجلاس میں شرکت پر شدید تنقید کی۔
 مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ عدالتی سزا پر جہانگیر ترین کو پارٹی سے نکال دیں گے تاہم اب یوٹرن لے کر کابینہ میں بٹھا دیا گیا ہے۔ 
انہوں نے سوال کیا کہ وزیراعظم عمران خان بتائیں کس حیثیت میں منی لانڈرنگ میں عدالتی سزا یافتہ شخص کو آئینی فورم میں بٹھایا؟
یاد رہے کہ سابق وزیراعظم نوازشریف کو نااہل قرار دیے جانے کے فوراً بعد تحریک انصاف نے ان کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے اجلاسوں کی صدارت کرنے پر اعتراضات اٹھائے تھے اور ایک اعلیٰ اخلاقی معیار کا مطالبہ کیا تھا۔
دسمبر 2017 میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جہانگیر ترین کو کاغذات نامزدگی میں اثاثے چھپانے پر آئین کی دفعہ 62 ون ایف کے تحت کسی بھی سرکاری عہدے کے لئے تاحیات نااہل قرار دیا تھا۔ 
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے معروف قانون دان سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ جہانگیر ترین کی شرکت سے کابینہ کی اخلاقی حثیت متاثر ہو گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دو لحاظ سے یہ شرکت قابل اعتراض ہے۔ ایک تو کوئی بھی ’اجنبی‘ کابینہ اجلاس میں شریک نہیں ہو سکتا کیوں کہ اجلاس کابینہ کے ممبران کا ہوتا ہے۔ دوسرا جہانگیر ترین جیسے سزا یافتہ شخص کا شرکت کرنا اور بھی قابل اعتراض ہے کیوں کہ سپریم کورٹ طے کر چکی ہے کہ ترین غیر صادق اور غیر جانبدار شخص ہیں۔
تاہم ان سے پوچھا گیا کہ کیا اجلاس سے قانون کی کوئی خلاف وزری ہوئی ہے تو انہوں نے کہا کہ قانون تو اس پر واضح نہیں ہے مگر ماہر کے طور پر بھی جہانگیر ترین کی شرکت ناقابل فہم ہے کیوں کہ وہ زرعی ماہر یا ٹیکنو کریٹ نہیں بلکہ صرف زمینوں کے مالک ہیں۔ اگر مالکان کو ہی کابینہ نے بلانا تھا تو اس طرح کے دیگر مالکان کو بھی بلا کر متنوع رائے لینا چاہیے تھی۔
تاہم پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اور سپریم کورٹ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر حامد خان کا کہنا تھا کہ کابینہ ایک ماہر کو اجلاس میں بلا کر اس سے رائے لے سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جہانگیر ترین سزا یافتہ کی اصطلاح میں نہیں آتے کیوں کہ وہ صرف نااہل ہوئے ہیں۔ ان کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے ان کو کوئی سزا نہیں سنائی تھی صرف یہ کہا تھا کہ وہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت صادق اور امین نہیں رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ناہلی اور سزا یافتگی دو علیحدہ چیزیں ہیں۔عہدے کے لیے ناہل شخص زندگی کے دوسرے کام جاری رکھ سکتا ہے۔‘ 
 
 

شیئر: