Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مہربانی ہمیشہ پلٹ کر آتی ہے

وسعت اللہ خان

مسلمانوں کی تاریخ میں مباحث کو بھی ہتھیار بنانے کی روایت بہت پرانی ہے مگر چند عشرے قبل تک اس کش مکش میں الفاظ و دلائل کے ہتھیار استعمال کئے جاتے تھے۔
 پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جب مقامی طالبان نے زور پکڑا اور افغان سوویت جنگ کے زمانے میں بالخصوص خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے مدارس سے نئی نسل برآمد ہوئی تو وہ اپنے ہم عقیدہ پیشروں سے زیادہ شدت پسند اور دلیل کے بجائے گولی پر یقین رکھنے والی نکلی۔چنانچہ نائن الیون کے بعد پاکستان میں ریڈیکلائزیشن کا عمل جتنا تیز ہوا اور اس کے توڑ کی کوششیں جتنی فرسودہ اور سست ہوتی گئیں اس کے نتیجے میں زندہ مخالفین کے ساتھ ساتھ قبروں کے مکین بھی لپیٹ میں آتے چلے گئے۔
پہلے طالبان اور القاعدہ سے نظریاتی طور پر قریب نوجوانوں نے یہ کام شروع کیا اور پھر متشدد انداز میں نظریے کو حلق سے اتارنے والی جدید مشین داعش اور اس کی حلیف مقامی تنظیموں کی شکل میں متحرک ہوئی ۔
مطلب یہ ہوا کہ اب گفتگو کا دور ختم ہوا۔ بات گالی سے شروع اور گولی پر ختم ہوگی۔اب دلیل میں نہیں بم میں دم ہونا چاہئے۔آخر مہنگے مہنگے ماہرینِ نفسیات کے پاس بھی تو لوگ دکھڑا سنانے ہی جاتے ہیں ۔اگر میں کسی کو کھانا نہیں کھلا پارہا اور ہزاروں بھوکوں کا ان مقامات پر صبح شام پیٹ بھر رہا ہے تو میں کیوں جلوں ؟ اگر کوئی چند لمحے کیلئے اس دنیا سے کسی اور دنیا میں جانا چاہتا ہے تو میں کون ہوں اس کے قدم روکنے والا ؟ جس کے صحن میں دیوانہ ناچ رہا ہے اسی کو برا نہیں لگ رہا تو میں اتنا برا کیوں مانوں گویا میرے صحن میں ناچ رہا ہو۔
بعض ہستیاں اپنے لاکھوں کروڑوں چاہنے والوں کے دلوں میںشائد اس لئے بھی بستی ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی میں کسی عقیدے سے نفرت نہیں کی ، کسی کے فنڈز سے کلاشنکوف خرید کر کسی کے سر پر رکھ کے اسے مسلمان نہیں کیا۔ان کے دستر خوان پر جو بھی آجائے آجائے ، جو بھی دعا کیلئے ہاتھ اٹھانے کو کہے تو اٹھا لیے، مسلمان ہوگیا تو سو بسم اللہ نہ بھی ہوا تو مخلوقِ خدا تو ہے اور اسی سبب احترام ِ انسانیت کا حقدار بھی۔
تعجب ہے جب لشکرِ اسلام حجاز سے نکلا اور اسپین تا ہندوستان و وسطِ ایشیا تک پھیل گیا تو کسی فاتح صحابی یا سپاہ سالار کا خیال اس جانب کیوں نہ گیا کہ راہ میں آنے والی کسی عبادت گاہ ، مجسمے کو نہیں بچنا چاہئے۔اگر واقعی یہ رواج ہوتا تو طالبان کو ہزاروں برس پرانا بدھا کا مجسمہ اڑانے کیلئے کہاں نصیب ہوتا ؟ یا داعش اور اس کے علاقائی اتحادیوں کو کوئی بھی مزار تباہ کرنے کیلئے کہاں سے ملتے؟ قاہرہ کے مضافات میں ابوالہول کا مجسمہ اب تک کیوں سلامت ہے ؟ تو کیا اسلاف کا ایمان آج کے مسلمانوں کے ایمان سے کم تھا؟
یہ لائبریریاں تو منگول نذرِ آتش کیا کرتے تھے مگر چند برس پہلے ٹمبکٹو کے اسلامی کتابی خزانے کس نے نذرِ آتش کر دئیے ؟ اور پھر بھی دعویدار ہیں اس نبی کے کہ جس نے تو پورا زور ہی حصولِ علم پر دیا بھلے تم عورت ہو کہ مرد ۔بھلے حصولِ علم کیلئے کہیں بھی جانا پڑے ، کسی سے بھی حاصل کرنا پڑے۔اس نبی نے تو جنگی قیدی بننے والے مشرکینِ مکہ کو بھی اس شرط پر رہائی دی کہ اس کے عوض مسلمان بچوں کو پڑھائیں گے اور تم کہتے ہو کہ عورت کی تعلیم حرام ہے اور لائبریری حرام ہے ۔
ہاں اگر کسی کو یہ ضعیف الاعتقادی محسوس ہوتی ہے تو اسے ختم کرنے کیلئے دل جیتنا اور مرحلہ وار دلیل و منطق کے سامان کے ساتھ حسنِ سلوک کی چادر بچھانا ہی دیرپا اثر چھوڑ سکتا ہے ۔ڈر اور خوف مزید ڈر اور نفرت تو جنم دے سکتا ہے مگر ضعیف الاعتقادی ختم نہیں کر سکتا۔زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ لوگ چپ ہو جائیں ، اپنے عقائد پر خفیہ طور پر عمل پیرا ہونے لگیں۔بظاہر مجھ سے اتفاق کریں مگر اندر سے نفرت کریں۔جسم  فتح کرنا احساسِ برتری تو بخش سکتا ہے مگر مفتوح کو اندر سے نہیں بدل سکتا۔ظاہر فانی ہے مگر باطن لافانی ہے  اور زمان و مکان کی قید سے آزاد بھی۔ظلم و رحم کی داستانیں سینہ بہ سینہ زینہ بہ زینہ صدی در صدی آخر یونہی تو ہم تک پہنچیں ۔رحم و نیکی خوشبو کی طرح سفر کرتے ہیں اور جبر کی داستان ایف آئی آر کے طور پر ایک نسل سے دوسری کو منتقل ہوتی ہے ۔اگر یہ سامنے کی بات سمجھ میں آ جائے تو پھر بات ہی کیا ہے !

مزید پڑھیں:- - -  --  --عام انتخابات کی ہلچل

شیئر: