Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نفرت کے بھنور سے نکلنے کیلئے مغرب پر اسلام فوبیا کو جرم قرار دینا لازم

عاصم حمدان ۔ المدینہ
یہ بات کہنی ضروری ہے کہ مشرق وسطیٰ میں مذہبی ریاست کے قیام نے دہشتگردی کے تصورات کی داغ بیل ڈالی۔ میری مراد 1948ء کے دوران مختلف مغربی ممالک کے تعاون و سرپرستی سے قائم ہونے والی صہیونی ریاست سے ہے۔دہشتگردی کا دائرہ خود مغربی ممالک تک پہنچا۔ صہیونی ریاست کے قیام سے کچھ عرصے قبل بیت المقدس کے کنگ داود ہوٹل میں دھماکہ ہوا تھا۔ اس میں برطانیہ سمیت متعدد ممالک کے فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ دھماکہ صہیونیوں نے کیاتھا۔ انہوں نے دھماکہ کرکے انگریزوں کو پیغام دیا تھا کہ اب آپ لوگ یہاں سے اپنا بوریا بستر باندھ لیں۔ یہاں آپ غیر محفوظ ہیں۔یہ واقعہ برطانیہ اور اسرائیل کے تعلقات پر کافی عرصے تک منفی اثرات ڈالے رہا۔ وجہ یہ تھی کہ کنگ داود ہوٹل کے دھماکے میں صہیونی تحریک کے متعدد رہنما مثال کے طور پر مناہم بیکن او راسحاق شامر وغیرہ شامل تھے۔ یہ بین الاقوامی عدالت کو مطلوب دہشتگردوں کی فہرست کا حصہ تھے۔
مغربی ممالک نے روزگار کے متلاشی تارکین کو کثیر تعداد میں اپنے یہاں خوش آمدید کہا۔اس عمل نے تارکین اور مغربی ممالک کی شدت پسند قومی تحریکوں کے درمیان اختلافات کا آتش فشاں بھڑکا دیا۔ علاوہ ازیں ستمبر 2011کے طیارہ حملوں ، نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے دھماکوں نے مسلم عرب کمیونٹی کو متاثر کیا۔ مسلم عربوں پر ناحق دہشتگردی کے الزامات چسپاں کئے گئے۔ اکثر مسلمان دیگر مذاہب کو تسلیم کرتے ہیں اور انکے پیرو کاروں کے ساتھ روا داری، محبت اور اخوت کے جذبے سے پیش آتے ہیں۔ مسلمان یہ بات مانتے ہیں کہ آسمانی مذاہب توحید کے علمبردار ہیں اور یہ بنی نوع انساں کو شرک کے بھنور اور فاسد عقائد کی جہالت کی تارکیوں سے نکالنے، اللہ، اسکے پیغمبروں اور اسکی کتابوں پر ایمان کی دعوت دینے کیلئے نازل کئے گئے۔ وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ آسمانی مذاہب دنیا کی تعمیر کیلئے نازل کئے گئے نہ کہ دنیا کو تباہ و برباد کرنے کیلئے۔
مغربی ممالک میں قیام پذیر مسلمانوں نے شدت پسندی کے الزامات سے لاتعلقی کا ہمیشہ اظہار کیا۔ القاعدہ یا داعش سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔ اسکے باوجود مسلمانوں کی بابت شکوک و شبہات کا سلسلہ جاری و ساری رہا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ انتہا پسند دائیں بازو کی مغربی تحریکوں نے درپردہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول برقرار رکھنے کی مہم جاری رکھی۔ یہ تحریکیں اعتدال پسند اسلامی بیانیے کے خلاف رائے عامہ کو گرمانے میں لگی رہیں۔توجہ طلب امر یہ ہے کہ مغربی دنیا میں بعض اعتدال پسند جماعتیں بھی انتخابی مقاصد کے تحت دائیں بازو کے شدت پسند عناصر سے فائدہ اٹھاتی رہیں۔ مثال کے طور پر برطانیہ کی قومی پارٹی ہی کو لے لیجئے جس نے اپنے یہاں مسلم کمیونٹی کے خلاف نفرت کا بازار گرم کررکھا ہے اور اپنے یہاں اسلام فوبیا کے تصور کو بڑھاوا دینے میں بڑے پیمانے پر حصہ لیا ہے۔اس عمل نے خونریز واقعات کی فضا سازگار کی۔مسلمانوں کے خلاف نفرت و عداوت کے بیانیے کو مختلف شکل و صورت میں اجاگر کیا۔ نیوزی لینڈ کی مساجد میں قتل عام کا واقعہ اسکا تازہ ترین ثبوت ہے۔ یہ واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا ہے لیکن آخری نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ مغرب میں اسلام اور اسکے پیرو کاروں کے خلاف نفرت و عداوت کا جذبہ موجود ہے۔مختلف سیاستدان اور باوزن پارٹیا ںاپنے ماننے والوں کو اسلام او راسکے پیرو کاروں کے خلاف بھڑ رہی ہیں۔
میں اپنے ایک کالم میں اس بات کا ذکر کرچکا ہوں کہ برطانیہ کی حکومت ملک میں موجود مسلم کمیونٹی کے خلاف نفرت و عداوت پر اکسانے والے بیانات کے تناظر میں کئی ممبران پارلیمنٹ کی رکنیت معلق کرچکی ہے۔ اصولی بات یہ ہے کہ مغربی ممالک کی سیاست کی زبان دہشتگردی، شدت پسندی اور انتہا پسندی کے حوالے سے بہت واضح او ردو ٹوک ہونی چاہئے۔
نیوزی لینڈکی2مساجد میں مسلمانو ںکے قتل عام او راس سے پہلے کے واقعات کا تقاضا ہے کہ مغربی ممالک اسلام فوبیا کو جرم قرار دیں۔ اس حوالے سے دو ٹوک قوانین جاری کریں۔ اگر یہ ممالک نفرت کے مرض سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اسلام فوبیا کو جرم قرار دینا ہوگا۔مغربی ممالک صہیونیو ںکے دباؤ سے’’ سامیت دشمنی‘‘ کو جرم قرار دے چکے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس حوالے سے انتہائی وسعت سے کام لیا گیا ہے۔اس سلسلے میں تنقید اور اصولی بحث تک پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ مسلم اور عرب ممالک کا فرض ہے کہ وہ مہیا وسائل استعمال کرکے مغربی ممالک کے یہاں اپنا اثر و نفوذ استعمال کریں اور انہیں اسلام اور مسلم مخالف لہر کو توڑنے کیلئے اسلام فوبیا کو جرم قرار دینے والے قوانین بنوائیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 
 

شیئر: