Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب اور ماقبل از اسلام کے آثار قدیمہ

ڈاکٹرزاہی حواس۔الشرق الاوسط
    کبھی کسی نے نہ سوچا تھا کہ ایک دن وہ بھی آسکتا ہے کہ جب ہم لوگ سعودی عرب میں ماقبل از اسلام کے آثار قدیمہ سے دلچسپی کے مناظر دیکھ سکیں گے۔سعودی شہریوں میں یہ سوچ گھر کئے ہوئے تھی کہ ماقبل از اسلام کے آثار قدیمہ کی سیر نہیں کی جاسکتی ۔ یہ تو زمانہ جاہلیت کے نشانات ہیں۔انہیں دیکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔افسوسناک بات یہ ہے کہ متعددعرب ممالک میں بہت سارے مسلمانوں کی بھی یہی سوچ رہی ہے۔ 2011ء کے واقعات کے بعد مصر میں کچھ لوگوں نے یہ نعرہ بلند کیا کہ اہرامات اور ابوالہول کو صف ہستی سے مٹا دیا جائے، بعض لوگ تو یہ تک کہہ بیٹھے کہ سیدنا عمرو بن العاصؓ جب مصر آئے تھے توان کے پاس عصر حاضر والے بلڈوزر اور بم نہیں تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ اہرامات کو صفحہ ہستی سے اسی وقت مٹا چکے ہوتے۔ مٹانے کے وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ہی انہوں نے اہرامات کو ہاتھ نہیں لگایا۔نہ جانے کیوں اس طرح کی سوچ رکھنے والے یہ بات بھولے بیٹھے ہیں کہ خود قرآن کریم نے تاریخ اور اس کے واقعات کوجاننے اور آثار قدیمہ کو دیکھنے کی ترغیب دی ہے ۔ شہزادہ سلطان بن سلمان نے سعودی عرب میں محکمہ سیاحت و قومی آثار کے سربراہ کی حیثیت سے ایک بڑا اچھا کام یہ کیا کہ انہوں نے ماقبل از اسلام کے آثار قدیمہ کی اہمیت عوام الناس کے ذہنوں میں اجاگر کی۔انہوں نے سعودی شہریوں میں آثار قدیمہ کی سیر کا جذبہ بیدار کیا۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ حال ہی میں مصر کے وزیر آثار قدیمہ ڈاکٹر خالد العنانی کے ہمراہ مجھے سعودی عرب میں آثار قدیمہ فورم میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ سیکڑوں سعودی فورم میں شریک ہیں۔ یہ وہ شہری ہیں جنہوں نے سیکڑوں نوادر اپنی مرضی سے سعودی محکمہ آثار قدیمہ کے حوالے کئے۔ سعودی فورم میں ان سب کا اعزاز کیا گیا ۔ ایک اور اچھی بات یہ ہوئی کہ سیکڑوں سعودی آثار قدیمہ سے متعلق لیکچرز سننے کیلئے پہنچے۔ وہ سعودی عرب کی عظیم تاریخ پر اظہار فخر کرتے ہوئے سنے گئے۔ شہزادہ سلطان بن سلمان نے خواب دیکھا تھا کہ وہ ماقبل از اسلام کے آثار قدیمہ سے متعلق سعودی معاشرے کا نقطہ نظر تبدیل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ انہوںنے جب یہ خواب دیکھا تھا تو وہ پر اعتماد تھے۔ یہ ایسا خواب تھا جسے شرمندہ تعبیر کرنا ممکن تھا۔ ایک اور اچھی بات یہ بھی ہوئی کہ خبررساں ادارے بلکہ عالمی برادری آثار قدیمہ کے حوالے سے سعودی عرب کے کردار کے مداحوں میں شامل ہوگئے ہیں۔سچی بات یہ ہے کہ ان دنوں سعودی عرب میں ماقبل از اسلام کے آثار قدیمہ سے غیر معمولی دلچسپی لی جارہی ہے جبکہ ماضی میں انہیں بہت ہی زیادہ نظر انداز کیا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ کوئی شخص بھی آثار قدیمہ کے علاقوں کے نام تک لینا گوارا نہیں کرتا تھا۔ اب سعودی عوام کا نقطہ نظر بدل رہا ہے ۔ وہی سعودی جو آثار قدیمہ کو مجسمے کہتے اور بتوں کے نام سے یاد کرتے ، ان پر ادنیٰ توجہ نہ دیتے تھے ،اب وہی سعودی ان آثار قدیمہ کو اپنی تاریخ کا معتبر نشان ماننے لگے ہیں۔ اپنے وطن سے ان کی نسبت کو اپنی تاریخ کی عظمت کی علامت قراردینے لگے ہیں۔ شہزادہ سلطان بن سلمان نے آثار قدیمہ کی حفاظت ، اصلاح و مرمت ، عجائب گھروں کی تعمیر ،نیز امریکہ ، جاپان اور یورپی ممالک میں نوادر کی نمائشوںپر کروڑوں ڈالر خرچ کئے۔
     میں سمجھتا ہوں کہ سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان ان دنوں اس حوالے سے جو ٹھوس اقدامات کررہے ہیں وہ بیحد اہم ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ الاحسا کے علاقے کا ایک اہم تاریخی مقام یونیسکو کے عالمی ورثے میں شامل کرلیا گیا ہے ۔ اس سے پہلے بھی سعودی عرب کے کئی تاریخی مقامات عالمی ورثے کا حصہ بن چکے ہیں۔ مملکت میں ان دنوں آثار قدیمہ کے حوالے سے جو کچھ ہورہا ہے اور شہزادہ سلطان نے ماقبل از اسلام کے آثار قدیمہ ، اسلام کی آمد کے بعد سے تعلق رکھنے والے آثار کے تحفظ کی بابت جتنا کچھ کیا ہے  پوری دنیا کے نام یہ پیغام ہے کہ سعودی عرب کے آثار قدیمہ کا تعلق صرف مملکت سے نہیں بلکہ پورے جہاں سے ہے۔
    سعودی عرب کی روشن تصویر اور متمدن اسلام کی شکل کو اجاگر کرنے والی یہ مخلصانہ مساعی قابل قدر ہیں۔ان سے بہت ساری امیدوں اور آرزوؤں کی شمعیں روشن ہورہی ہیں۔مجھے یقین ہے کہ ابتک سعودی آثار قدیمہ کے تحفظ اور ترمیم کے حوالے سے جو کچھ ہوا ہے اس کا صحیح تعارف عرب دنیا میں نہیں ہوسکا ۔ اس موقع پر بس یہ کہہ کر میں اپنی بات ختم کرنا چاہونگا کہ اس عظیم الشان کام میں معاون ہر انسان تمغہ احترام اور سلام تعظیم کا بجا طور پر حقدارہے۔
مزید پڑھیں:-  - - - -نیوزی لینڈ: مسلم خواتین سے اظہار یکجہتی، ’نیشنل سکارف ڈے‘ کی مہم

شیئر: