Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”داعش“ کا خاتمہ... ”داعش “ زندہ سلامت

عبدالرحمن الراشد ۔ الشرق الاوسط
شام میں دہشتگردی کے خلاف جنگ سے دلچسپی رکھنے والے ہر فرد و بشر کی زبان پر ہر جگہ فتح یابی کا نعرہ ہے۔ میرے خیال سے داعش پر یہ عارضی فتح ہے۔ سارا معاملہ وقت کا ہے۔ جلد ہی کوئی اور داعش تنظیم سر ابھار کر سامنے آجائیگی۔ گزشتہ ہفتے شام میں جس داعش تنظیم کے خاتمے کا اعلان کیا گیا وہ دہشتگرد تنظیم القاعدہ کے خاتمے کے اعلان کے بعد 2011ءمیں قائم ہوئی تھی۔القاعدہ کو بغداد اور مغربی عراق میں پوری طرح سے کچل دیا گیا تھا۔
شام میں گزشتہ ایام کے دوران جن 30ہزار افراد کی گرفتاری کا اعلان کیا گیا کہا جارہا ہے کہ یہ سب کے سب داعشی ہیں۔شامی جنگ کے دوران 60ہزار سے زیادہ افرا د داعش تنظیم سے منسلک ہوئے۔ یہ اعدادوشمار ان قیدیوں کی تعداد پر مبنی ہیں جو گزشتہ موسم گرما کے دوران عالمی اتحاد کے حملے شروع ہونے کے بعد شام کے مختلف علاقوں سے نکلے تھے۔
داعش القاعدہ کی طرح ایک تنظیم ہے۔ ہمارے علاقے کے موجودہ ماحول میں داعش یا القاعدہ کے افکار آسانی سے اپنی موت مرنے والے نہیں۔ یہ انارکی اور بیکاری کا ماحول ہے۔ القاعدہ نے سب سے پہلے افغانستان میں حکومت کا دھڑن تختہ ہونے کے بعد سر ابھارا۔ نویں عشرے کے شروع میں امریکی افواج کے انخلاءکے بعد پیدا ہونے والے خلا کے نتیجے میں القاعدہ تنظیم قائم ہوئی۔ طالبان اس پر حاوی ہوگئے۔ وہاں سے مسلح انتہا پسندی کے افکار میڈیا ، مساجد اور دیگر ادارو ںکے توسط سے خطے کے ممالک میں پھیل گئے۔القاعدہ نے صدام حسین کے سقوط اور بغداد میں امریکی حکومت کے ماتحت کمزورعارضی اقتدار کے قیام کے بعد عراق میں زور پکڑا ۔ بالاخر ہزاروں افراد کی ہلاکت کے بعد عراق میں اسے شکست ہوگئی۔الانبار کوالقاعدہ کا آخری قبرستان تسلیم کرلیا گیا۔ پھرنئے پرچم اور نئے نام سے یہ تنظیم ابھر کر سامنے آئی۔2011ءکے دوران شام میں پرامن انقلاب برپا ہوا۔ ابو بکر البغدادی نے موقع غنیمت شمار کیا۔ انہوں نے ”اسلامی عراق ریاست تنظیم“کے قیام کا اعلان کردیا۔ پھر انہوں نے اپنے نظام خلافت کا دائرہ وسیع کرکے شام تک پھیلا دیا۔انہوں نے شام میں القاعدہ قائم کردی۔ انہوں نے ابو محمد الجولانی کو اسکی مہم تفویض کردی۔ ابومحمد نے اپنے قائد سے اختلاف کے بعد النصرہ محاذ قائم کرلیا۔ اسے القاعدہ سے جوڑ لیا۔ الجولانی نے 2016ءمیں النصرہ محاذ کو تحلیل کرکے اسے فتح شام محاذ کا نام دیدیا۔ الجولانی نے اپنے اس فیصلے کا جواز اس وقت یہ کہہ کر پیش کیا کہ انہوں نے یہ فیصلہ عالمی برادری کی حجت بازیوں کے سدباب کیلئے کیا ہے۔ امریکہ اور روس شام میں مسلمانوں پر بمباری النصرہ محاذ کے عنوان سے کررہے ہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ انکی یہ حجت ختم ہوجائے۔حقیقت یہ ہے کہ انکا یہ اقدام ترکی اور شام کے متعدد گروپوں کے ساتھ جوڑ توڑ کا نتیجہ تھا۔ مزید دہشتگرد تحریکوں نے سر ابھارا۔ ان میں ”نور الدین زنگی “ تحریک ”لواءالحق“، ” جیش السنہ“ اور ”انصار الدین محاذ“ قابل ذکر ہیں۔ ”فتح شام محاذ“ نے اپنا نام تیسری بار تبدیل کرکے ”تحریر الشام“ادارہ رکھ لیا۔ شام تنہا ملک نہیں جس پر القاعدہ نے یلغار کی ہو۔ القاعدہ کی شاخیں متعدد علاقوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر جزیرہ نمائے عرب القاعدہ ، برصغیر القاعدہ، المغرب الاسلامی القاعدہ اور تنظیم الشباب کے نام لئے جاسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں عراق وغیرہ میں اس کے خاموش گروہ بھی موجود ہیں۔ 
مذکورہ تناظر میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ داعش پر فتح یابی اور اس کی بیخ کنی کا اعلان زمان و مکان ہر دو لحاظ سے وقت اور جگہ کی بات ہے۔ دہشتگردی ایک نظریے کے طورپر موجود ہے اور رہیگی لہذا میری نظر میں دہشتگردی کے خلاف جنگ سے کہیں زیادہ اہم انتہا پسندی کے خلا ف جنگ ہے۔ دہشتگردی کا دائرہ اسلحہ برداری تک محدود ہے۔ انتہا پسندی کا دائرہ اس سے زیادہ وسیع و عریض ہے۔ الاخوان المسلمین جیسی تنظیم میں امن پسند جماعتیں اور امن پسند افراد بھی موجود ہیں۔ ان میں وہ بھی ہیں جو القاعدہ سے اختلاف رکھتے ہیں تاہم یہ بھی حق اور سچ ہے کہ الاخوان المسلمون خطرناک افکار جنم دینے والا عظیم اسکول ہے۔ انتہا پسندی کا کوئی دین نہیں البتہ یہ بھی درست ہے کہ انتہا پسندی ، دہشتگردی کی طرف لیجاتی ہے۔دائیں بازو کے نسل پرست اسکا پختہ ثبوت ہیں۔ جسکا نتیجہ نیوزی لینڈ کی دو مساجد میں دہشتگردانہ حملے اور قتل و خونریزی کی صورت میں سامنے آیا۔ انتہا پسندی ایک الگ ملت ہے۔ اس ملت کا ہر فرد دوسرے کو سیراب کررہا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: