Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امن عمل کا خون

بدھ 27مارچ 2019ءکو سعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبار ” الریاض“ کا اداریہ نذر قارئین ہے
امریکہ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت اور گولا ن کی شامی پہاڑیوں پر اسرائیل کی بالادستی تسلیم کرنے کے بعد مشرق وسطیٰ امن عمل کے حوالے سے کیا بچ گیا؟مشرق و سطیٰ امن عمل امریکہ کی یکطرفہ کارروائی کے بعد بے عنوان بن کر رہ گیا۔ امریکہ نے ان بین الاقوامی قراردادوں کو غیر معتبر بنادیاجو1967ءکے مقبوضہ عرب علاقوں پر اسرائیل کے قبضے کو ناجائز قرار دیئے ہوئے ہیں۔ اب امن کاررواں کا کوئی راستہ نہیں رہ گیا ۔ اب امریکی حکومت کے پاس امن منصوبہ پیش کرنے کا کوئی موقع نہیں رہ گیا کیونکہ اس نے اسرائیل کی مکمل جانبداری کا بے نظیر شکل میں مظاہرہ کردیا ہے۔ مذکورہ اقدامات کے بعد کون اس بات کو مانے گا کہ امریکہ امن عمل میں غیر جانبدار فریق کا کردارادا کرسکتا ہے۔
امریکی انتظامیہ کے ا قدامات اور اسرائیل کیلئے اسکی مکمل جانبداری کا مطلب یہ ہے کہ اب ہمارے سامنے زمینی حقائق کو تھوپنے والے کردار کے سوا اب کوئی کردار نہیں۔اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ انتہا پسند تنظیمیںان واقعات سے بھرپور فائدہ اٹھائیں گی۔ جیسا کہ ماضی میں القاعدہ اور داعش تنظیموں نے اپنے اہداف کے پرچار کیلئے خطے کے واقعات کو بنیاد بنایا تھا۔ وہ جھوٹے دعوے زیادہ زور و شور سے کریں گی۔ مقبوضہ عرب علاقوں کی بازیابی کے نعرے بلند کریں گی۔ امریکی اقدامات نے سال رواں کے اختتام سے قبل اپنے امن فارمولے کے حوالے سے مشترکہ نکات تک رسائی کا ہر موقع ختم کردیا۔امریکی حکومت پروپیگنڈہ کررہی تھی کہ اس کا امن فارمولا تاریخی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کیلئے اس سے بہتر کوئی اور موقع نہیں ہوگا۔ امریکی حکومت کا یہ سارا پرچار ہوا میں تحلیل ہوگیا۔ امریکہ نے اسرائیل کے سوا کسی کے بھی مفادات کا پاس نہیں کیا۔
امریکی اقدامات نے مشرق وسطیٰ کے بحران کے ہر حل کی امید پر پانی ڈال دیا۔ امریکہ نے امن کے تمام مواقع کا خون کردیا۔ ہماری آرزو تھی کہ امن کے مواقع حقیقی ہوں۔ کچھ تو ہوں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: