Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسرور انور پاکستانی فلم انڈسٹری کے گوہرِ نایاب

مسرور انور کی وفات کے بعد حکومت پاکستان کی جانب سے انھیں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا (فائل فوٹو)
پاکستان کی فلمی دنیا کے معروف نغمہ نگار مسرور انور کے تحریر کردہ گیت ’اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر‘ اور ’کوکوکورینا‘ آج بھی مقبول ترین گیت مانے جاتے ہیں تو’وطن کی مٹی گواہ رہنا‘ اور’اپنی جان نذر کروں‘ جیسے لازوال ملی نغمات کے خالق بھی ہیں۔
مسرور انور نے پاکستانی فلم انڈسٹری کی اہم ترین شخصیات وحید مراد، سہیل رانا اور پرویز ملک کے ساتھ لازوال خدمات پیش کیں۔
کراچی کے علاقے جیکب لائن کے انور علی ’مسرور انور‘ کے نام سے ریڈیو اور فلم انڈسٹری کی مقبول ترین شخصیت مانے جاتے ہیں۔
لالی وڈ فلموں کے معروف نغمہ نگار نے ریڈیو پاکستان سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ معروف پاکستانی صداکار اور اداکار قاضی واجد، مقبول علی اور  مسرور انور نے مل کر ریڈیو پر کئی ڈرامے پیش کیے۔

معروف نغمہ نگار نے ریڈیو پاکستان سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا (فائل فوٹو)

فلم انڈسٹری میں قدم رکھنے کے بعد مسرور انور انڈسٹری کے لیے ’گوہر نایاب‘ ثابت ہوئے۔ ان کے قلم سے لکھے گئے گیتوں نے بڑے بڑے اداکاروں کی شہرت میں بے پناہ اضافہ کیا۔
 مسرور انور کا تحریر کردہ فلم ارمان کا گیت ’اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر‘ اور ’کوکوکورینا‘ آج بھی مقبول ترین گیت مانے جاتے ہیں۔
 مسرور انور کے گیتوں کی شہرت نے فلم کو بے پناہ شہرت دلوائی۔ فلم ’ارمان‘ پاکستانی سنیما انڈسٹری کی ‘پہلی اردو پلاٹینم جوبلی‘ فلم تھی جو 48 برس تک مقبول ترین فلم رہی۔
ریڈیو پاکستان کی معروف براڈکاسٹر اور مصنفہ عارفہ شمسہ کا مسرور انور کے ریڈیو سے کیریئر کے آغاز سے لے کر زندگی کے آخری برس تک ایک بے لوث دوست کی حیثیت سے ساتھ رہا ہے۔

’اداکار وحید مراد مسرور انور کو اپنا بہترین دوست مانتے تھے‘ (فائل فوٹو)

عارفہ شمسہ نے مسرور انور کی ذاتی و فنی زندگی پر اردو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’مسرور انور کے پاس خیالات کا خزانہ تھا وہ آگے سے آگے بڑھنا چاہتے تھے۔‘
 ’ہم بہت اچھے دوست تھے، میری بڑی بہن نجم آرا اور مسرور انور اور دیگر ایک ساتھ شام کی چائے پر ساتھ بیٹھک لگاتے۔ مسرور اکثر اپنے نئے گیتوں کے بارے میں بات کرتے، وہ  بہت لکھتے تھے جب تک کہ بہترین گیت تیار نہیں ہوجاتے۔‘

مسرور انور ایک محب وطن شاعر

عارفہ شمسہ نے مزید بتایا کہ ’مسرور کو ملی نغمات لکھنے اور ملک کے لیے خدمات انجام دینے کا بے حد شوق تھا۔ جب بھی بیٹھا کرتے تو کہتے کہ میں پاکستان کے لیے ایسا نغمہ لکھوں گا، مسرور انور کو پاکستان سے عشق تھا۔‘
’سوہنی دھرتی‘ جیسے لازوال ملی نغمات کے خالق مسرور انور کے اس گیت سے نہ صرف پاکستانیوں میں حب الوطنی کا جذبہ اجاگر ہوا بلکہ کئی گلوکاروں جیسے شہناز بیگم، حبیب ولی محمد اور صبیحہ رضا کی وجہ شہرت بھی بنا۔
مسرور انور کے قلم نے اس گیت میں وہ تاثیر رکھی اور الفاظ کا ایسا خوب صورت چناؤ کیا کہ یہ گیت ملی نغموں میں سرفہرست آگیا۔ انہوں ںے اپنی جاں نذر کروں، وطن کی مٹی گواہ رہنا،جگ جگ جئے میرا پیارا وطن، لب پہ دعا ہے دل میں لگن جیسے مشہور گیت بھی تحریر کیے۔

’مسرور کو ملک کے لیے خدمات انجام دینے کا بے حد شوق تھا‘ (فائل فوٹو)

  • مسرور انور ایک برجستہ گو شخصیت

عارفہ شمسہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’مسرور انور کی شخصیت کا اہم پہلو ان کی برجستہ گوئی تھی۔ دوستوں میں بیٹھ کر ایسے شاندار اور حاضر جوابات پیش کرتے کہ سب دنگ رہ جاتے اور ایک خاص بات یہ تھی کہ ہر وقت کچھ نا کچھ لکھنے کی جستجو میں لگے رہتے تھے۔‘
ان کا کمال یہ تھا کہ وہ کیفیت میں ڈھل جانے والے شاعر تھے، مسرور انور پہلے دھن بناتے، پھر اس پر شاعری لکھتے، باریک اور گہرے لفظوں کے انتخاب نے ان کی شاعری سے گیتوں کو شہرت دلوائی۔
 سہیل رانا، وحید مراد، پرویز ملک اور مسرور انور کی ٹیم نے مل کر فلموں پر کام شروع کیا اور ہیرا اور پتھر سمیت کئی فلموں کے لیے گیت لکھے اور پچاس سے زائد فلموں کی کہانیاں لکھیں۔

 مسرور انور کا تحریر کردہ گیت ’کوکوکورینا‘ مقبول ترین گیت مانا جاتا ہے (فائل فوٹو)

  • فلمی دنیا سے جڑے مسرور انور کے رشتے

عارفہ شمسہ، مسرور انور کی فلمی شخصیات سے جڑے رشتوں پر بتاتی ہیں کہ پرویز ملک مسرور انور کو بہت چاہتے تھے، اداکار وحید مراد مسرور انور کو اپنا بہترین دوست مانتے تھے۔‘
’مسرور انور مجھ سے پوچھتے تھے کہ لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تم بہت باصلاحیت ہو، لوگ میری بہت تعریف کرتے ہیں۔ کیا میں واقعی ایسا ہوں؟ اتنے اہم فنی خدمات پیش کرنے والے فنکار نے کبھی اپنے آپ پر غرور نہیں کیا۔ اتنے بڑے منصب پر پہنچ جانے کے بعد بھی انھوں نے سب دوستوں کو یاد رکھا۔‘
  • معروف شاعر احمد فراز سے لگاؤ

براڈکاسٹر عارفہ شمسہ نے بتایا کہ ’لولی وڈ فلموں کے نامور شاعر اور مصنف، مسرور انور پاکستان کے معروف شاعر احمد فراز کو بے حد پسند کرتے تھے۔ ان کی شاعری سے انھیں بہت لگاؤ تھا۔ انہوں ںے احمد فراز کی شاعری سے متاثر ہوکر کئی گیت لکھے، نا صرف یہ بلکہ اپنے بیٹے کا نام بھی احمد فراز یعنی اپنے پسندیدہ شاعر کے نام پر رکھا۔‘

دوستوں کے نام مسرور کا خصوصی پیغام

عارفہ شمسہ مسرور انور کے آخری ایام کے بارے میں بتاتے ہوئے رنجیدہ ہوگئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ان کی وفات سے ایک دن قبل میں نے مسرور سے ملاقات کے لیے لاہور جانے کا پروگرام بنایا۔ مسرور انور کو شوگر کا اٹیک ہوا اور وہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔
عارفہ شمسہ نے اردو نیوز کو مسرور انور کا تحریر کردہ ایک پیغام بھیجا جو انھوں نے اپنے کراچی کے دوستوں کے لیے اپنی وفات سے ایک برس قبل کراچی آمد پر تحریر کیا تھا۔

مسرور انور پاکستان کے معروف شاعر احمد فراز کو بے حد پسند کرتے تھے (فائل فوٹو)

ریڈیو پاکستان کراچی کے سٹیشن ڈائریکٹر نوراللہ بگھیو نے اردو نیوز سے مسرور انور کی فنی خدمات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’مسرور انور کی فلمی دنیا اور ریڈیو کے لیے بے پناہ خدمات رہی ہیں، ان کے تحریر کردہ گیتوں کی شاعری نے فلموں کی کہانی سے ایسا جوڑ پیدا کیا کہ فلموں کی وجہ شہرت مسرور انور کے گیت بنے۔‘
مسرور انور نے فلموں کی موسیقی کو بہتر بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔
نامور پاکستانی گلوکار نعیم عباس روفی نے اردو نیوز سے خصوصی گفتگو میں مسرورانور کی فلمی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے لیجنڈز کی خدمات کا آج کے دور سے موازنہ کرنا مشکل ہے۔ ماضی کے دور کی ہر فلم میں سب ایک ساتھ مل کر کام کرتے، فیملی فلمیں بنا کرتی تھیں، پھر نتائج بھی بہترین ملتے تھے۔‘
’اب فلمیں صرف آئٹم گیت پر منحصر کرتی ہیں، گیتوں کو ہٹ کرنے کے لیے گلیمر اور جاذب نظر چہروں اور رقص کا سہارا لیا جاتا ہے۔‘
’اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کرتم‘ جیسے مقبول ترین گیتوں کے خالق مسرور انور یکم اپریل 1996 کو حرکت قلب بند ہوجانے کے باعث دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔
25 برس بعد بھی ان کی خدمات کو سنہرے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے۔ مسرور انور کو کئی نگار ایوارڈز ملے۔ ان کی وفات کے بعد حکومت پاکستان کی جانب سے انھیں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ ان کے گیت آج بھی سننے والوں میں مقبول ہیں۔

شیئر: