Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آ ٹزم کے متعلق آپ کیا جانتے ہیں

جاسرہ علی
 
 عثمان ہمیشہ خاموش ، اپنی عمر کے بچوں سے الگ اور تنہا رہتا تھا اسکی والدہ کو یہ خوف تھا کہ انکا بیٹا کبھی بھی  عام بچوں کی طرح  ایک نارمل زندگی نہیں گزار سکے گا ۔
آج6 سالہ عثمان اس وقت  ایک  آٹزم  بحالی مرکز میں اپنے دوستوں کے ساتھ گپ شپ لگا رہا ہے، اس کے قہقہے  گونج رہے ہیں اور اس کی شرارتوں سے سب محظوظ ہو رہے ہیں۔ا ٓج سے  دو سال قبل جب وہ یہاں ا ٓیا تھا تو بالکل نہیں بولتا تھا،  گم صم اور خاموش رہتا  تھا۔ 
اس کی والدہ کو  یہ خوف تھا کہ شاید اس میں بولنے کی صلاحیت نہیں اور وہ زندگی بھر بول نہیں سکے گا۔  لیکن ایک دن وہ امید کا سہارا لے کر  عثمان کو ماہر نفسیات ڈاکٹر شازیہ ملک  کے پاس لے گئیں جنہوں نے  اس میں آٹزم کی شناخت کی اور دو سال کی محنت کے بعد اس کو زندگی  کا وہ رخ دیکھا یا جس سے وہ  اب تک محروم تھا ۔

کسی کے سوال کا جواب دینے کے  بجائے سرجھکائے اپنے ہی خیالوں میں گم صم رہنے کو ترجیح دینا اور اگر کوئی بار بار سوالات پوچھے تو غصے کی آگ میں جلنے  لگ جانا آٹزم کی عام نشانیوں میں سے ایک ہے۔  
آٹزم ایک ایسی بیماری ہے جس میں بچوں کی ذہنی نشوونما کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور یہ متاثرہ شخص کی زندگی کا عمر بھر احاطہ کرتی ہے۔ اس بیماری میں مبتلا لوگ خیالی دنیا میں رہتے ہیں، بول چال میں دقت محسوس کرتے ہیں اوراپنے خیالات کو بیان نہیں کر سکتے۔
 عثمان سمیت دنیا کے لاکھوں بچے اس بیماری کا شکار ہیں ۔ پاکستان آٹزم ریسورس سینٹر کے مطابق ساڑھے تین لاکھ کے  قریب بچے اس بیماری میں مبتلا  ہیں۔ لیکن عام طور پر لوگاس  کے  بارے میں کم جانتے  ہیں ، اس بیما ری سے متعلق آگاہی کے لیے  ہرسال دواپریل کو دنیا بھرمیں آٹزم کا دن منایا جاتا ہے ۔
  •  آٹزم کی علامات
 آٹزم  یونانی لفظ     Autoسےماخوذ  ہے  جس کا مطلب ہے خود ،  یعنی آٹزم کے  معنی خود فکری ، خیال پرستی ،  تنہائی ،اپنے تصورات میں ڈوبے رہنے کے ہیں۔
یہ ایک پیدائشی ذہنی بیماری ہے جسکی  علامات میں سماجی رابطے قائم کرنے میں مشکلات ، زبان اور الفاظ یاد نہ  رکھ پانا   ، معاشرے  میں عام افراد کی طرح گھلنے ملنے سے  پرہیز کرنا اور الگ رہنے کو ترجیح دینا، اور کچھ خاص حرکات کو  بار با ر دھرانا وغیرہ ۔ اس بیماری کی پہلی علامت یہ ہے کہ بارہ مہینے کے اندر اندر ایک بچہ جو  اپنی زبان سے غوں غاں ، با ، پا ، ٹا کے الفاظ بولنا شروع کر دیتا ہے، وہ ا ٓٹزم کا شکار بچہ نہیں بولتا۔ اس میں بولنے کی اہلیت محدود ہوتی ہے۔
آٹزم کو شکار بچوں میں سے تقریبا 40 فیصد بچے  بول نہیں پاتے ۔
آٹزم  کا شکار ہر مریض مختلف علامات  رکھتا ہے ۔25سے 30 فیصد  آٹسٹک بچوں کے پاس الفا ظ کا ذخیرہ موجود ہوتا ہے  مگر 12سے 18 ماہ کی عمر میں  وہ الفاظ کے ذخیرے سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ 
دوسری بڑی علامت یہ ہے کہ بچہ پہلے سال یا دو سال تک گھر میں رہنے والوں کے ساتھ اور حتیٰ کہ اپنی ماں سے بھی بظاہر بے تعلق رہتا ہے‘ وہ کسی سے بھی آنکھیں نہیں ملاتا‘ بلائیں تو جواب نہیں دیتا‘ وہ دنیا میں اکیلا ہوتا ہے‘ اس کے لئے کسی اور کا وجود نہیں ہوتا۔
آٹزم میں مبتلا بچے کسی کو اپنے کھیل میں شریک نہیں کرتے، تاہم ہجوم کی جگہوں پر ان کا رویہ بگڑجاتا ہے۔ ایسے بچے انگلیوں یا کسی گھومنے والی چیز سے کھیلتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے کام خود کرسکتے ہیں نہ ہی کسی کی مدد مانگتے ہیں ۔
  •  آٹزم کی تشخیص
 آٹزم کی تشخیص کے لیے کوئی میڈیکل ٹیسٹ مخصوص نہیں ۔ما ہر نفسیات مختلف قسم کے رویے اور حرکات کا جائزہ لے کر اس بیماری کے تشخیص کرسکتے ہیں۔ آٹزم کی چند خصوصیات عمر بھر ساتھ رہتی ہیں، ان میں سے بعض علامات کے لیے ادویات کا سہارا لیا جاتا ہے۔ آٹزم لڑکیوں کی نسبت لڑکوں میں چارگناہ زیادہ پایا جا تا ہے۔
  •   ایک لا علاج بیماری
ماہرین کے مطابق آٹزم کا ابھی تک کوئی مکمل طبی علاج دریافت نہیں ہو سکا۔ تاہم ماہرنفسیات ، اساتذہ ، والدین اور دوسرے رشتے دارمتاثرہ بچے کی مدد کرسکتے ہیں اوراپنی توجہ ، اچھے برتاو اور سپیچ تھراپی سے اسے سماجی زندگی کے دائرے میں لا سکتے ہیں۔
  •  بہادر آٹسٹک افراد  
 آٹسٹک بچے عام بچوں کی نسبت زیادہ بہادر اور نڈر ہو تے ہیں ۔ وہ بلا خوف پانی اور دریا کے قریب  چلے جاتے ہیں جہا ں عام بچے جاتے ہو ئے ڈرتے ہیں۔
  •  ذہین آٹسٹک افراد
آٹزم سے متاثر فراد بعض غیر معمولی صلاحیتوں  کے حامل بھی ہو سکتے ہیں۔مثلا ان کی یاداشت بہت تیز ہو سکتی ہے اور وہ ریاضی جیسے مشکل مضامین میں مہارت رکھ سکتے ہیں یا گانے بجانے اور موسیقی کے آ لات استعمال  میں عام افراد سے زیادہ با صلا حیت ہو سکتے ہیں۔ اکثرسائنسدانوں کا خیال ہے کہ  مشہور سائنسدان نیوٹن اور آئن سٹائن بھی آ ٹز م کا شکار تھے ۔
  •  آٹزم  کی دیگر وجوہ
اس بیما ری کی تشخیص کو ثابت کرنے کے لئے آٹزم کی تقریباً 12 علامات میں سے 6 کا پایا جانا ضروری ہے اور ان علامات کا کم عمری سے ہونا ضروری ہے، ہوسکتا ہے کہ پیدائش کے وقت بچہ بالکل دوسرے بچوں کی طرح نظر آئے لیکن اس کی علامتوں کا ظہور بتدریج وقت کے ساتھ ساتھ ہوتا رہتا ہے۔ یہ علامتیں اگر بچہ پہلا ہو تو واضح طور پر نوٹ نہیں کی جاتیں لیکن جس وقت دوسرا بچہ ہوتا ہے تو دونوں کے رویوں میں فرق سے آٹزم واضح ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ بیما ری عا م طور پر ایسے  افراد میں پائی جا تی ہے جن کی پیدائش کے وقت ان کے والدین کی عمر 30 سال سے زیادہ ہو  اس   وجہ سے یہ بیما ری جینز کے ذریعے بھی منتقل ہو  تی ہے ۔
 عثمان کو زندگی کی رونقوں کے قریب لانے والی ڈاکٹر شازیہ کا کہنا ہے کہ آٹزم کے شکار بچوں کی ذہنی کیفیت کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ان کا بچہ اگرکچھ رویوں میں پیچھے ہے تو اس کی کیا وجہ ہے۔
ایک اور ماہر نفسیات روبینہ شکیل  کے خیال میں آٹزم کے شکار بچوں کی تربیت اور تعلیم کے لیے ماہر نفسیات کو ہی بطور استاد تعینات کیا جانا چاہیے۔
کراچی میں جنزل آف آٹزم ڈویلپنمٹ   کی طرف سے2011 میں کیے گئے  ایک  سروے رپورٹ  کے مطابق 348 میں سےصرف 148ڈاکڑز   کو ہی اس بیماری  سے متعلق  مکمل آگاہی ہے
 
 
 

شیئر: