Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’فلپائن‘‘ کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ کیوں؟

ناموں کی تبدیلی کا انحصار افراد پر ہی نہیں بلکہ ممالک بھی اپنا نام تبدیل کردیتے ہیں۔ تاریخ میں اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں جب کئی ممالک نے استعمار سے آزادی حاصل کرنے کے بعد اپنا نام تبدیل کردیا مگر حال میں بھی یہ روایت ہمیں متعدد جگہوں پر ملتی ہے ۔ آج بھی کئی ممالک ایسے ہیں جو اپنا نام تبدیل کرنے کا سوچ رہے ہیں۔
1542ئ میں ہسپانوی مہم جو لوپیز نے بحر الکاہل میں نئے جزائر دریافت کئے تھے۔انہوں نے انوینٹی فلپ کے نام پر نئے جزائر کا نام ’’فلپائن‘‘ رکھ دیا۔ انوینٹی فلپ بعد ازاں ہسپانیہ کے بادشاہ فلپ دوم کے نام سے جانے گئے۔ گوکہ جزائر دریافت کرنے والے مہم جو چند مہینوں کے بعدانڈونیشیا کے ایک جزیرہ میں واقع جیل میں قید ہوگئے اور وہیں کسی بیماری کے باعث ہلاک ہوگئے مگر اس وقت سے لے کر آج تک ان کے دریافت کردہ جزائر کا نام ’’فلپائن‘‘ ہی رہا۔ اب اس بات کو 500سال ہوگئے ہیں۔ 
الاقتصادیہ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق فلپائن کے صدر روڈریگودوتیرے کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ملک کا نام ’’فلپائن‘‘ سے تبدیل کرکے ’’جمہوریہ ماہارلیکا‘‘ رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ’’ فلپائن‘‘ استعماری قوتوں کے سیاہ دور کی یاد تازہ کرتا ہے جو ان کے ملک پر صدیوں تک قابض رہے۔ تاریخ کے اس سیاہ دور کی یاد ذہنوں سے کھرچنے کے لئے ضروری ہے کہ ملک کا متبادل نام رکھا جائے۔ 
فلپائن کا نام تبدیل کرنے کی تجویزمحض صدر روڈریگو کی ہی بلکہ ان سے پہلے صدر مارکس نے بھی ملک کا نام تبدیل کرنے کی تجویز پارلیمنٹ میں رکھی تھی مگر ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور بل منظور ہونے سے قبل ان کی 1989ئ میں وفات ہوگئی۔ 
اب فلپائن کا نام تبدیل کرنے کی تجویز محض حکومتی ایوانوں تک محدود نہیں رہی بلکہ یہ رائے عامہ بنتی جارہی ہے۔
  • سوشل میڈیا میں لے دے:
العربیہ نیوز چینل اور الاقتصادیہ میں شائع ہونے والے کالم میں سعودی تجزیہ نگار ڈاکٹر عبد اللہ المدنی کا کہنا ہے کہ مندناؤ میں صدر روڈریگو نے اپنے خطاب میں تجویز دی تھی کہ فلپائن کا نام جمہوریہ مہارلیکا رکھا جائے۔ اس کے بعد سوشل میڈیا میں اس پر بحث شروع ہوگئی۔کسی نے تجویز کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ سیاہ دور کی یاد ختم کرکے نئے عہد کا آغاز کرنا ضروری ہے جبکہ مخالفت کرنے والوں کا کہنا تھا کہ فلپائن 500سے معروف نام ہے جسے سرکاری دستاویزات میں تبدیل کرنا آسان ہے مگر دنیا کے ذہنوں سے مٹایا نہیں جاسکتا۔
گوکہ ملک کا نام تبدیل کرنا اتنا آسان بھی نہیں۔ اس کے لئے پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد عوامی استصواب رائے کی ضرورت ہے ۔
  • ’’مہارلیکا‘‘ کا مطلب کیا ہے؟
صدر روڈریگو نے ملک کے لئے جو نیا نام تجویز کیا ہے وہ ’’مہارلیکاMaharlika‘‘ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ خالص مالایو زبان کا لفظ ہے جس میں امن اور آتشی کا مفہوم بنتا ہے۔ ہسپانوی استعمال سے پہلے ملک کے حکمران طبقے کے ساتھ جو مسلح افواج تھی انہیں مقامی زبان میں مہارلیکا کہا جاتا تھا۔ ان سے قبل صدر مارکس نے بھی یہی نام تجویز کیا تھا بلکہ انہوں نے صدارتی محل کے ایک ہال کا نام بھی مہارلیکا رکھ دیا تھا۔ 
نام کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ مہارلیکا نے استعمار سے قبل خانہ جنگی کے دوران بے شمار شہریوں کا قتل عام کیا تھا۔ ان کا موقف ہے کہ انسانیت کے دشمن طبقے کے نام پر ملک کا نام نہیں رکھا جاسکتا۔ 
  • نام تبدیل کرنے کی مثالیں:
بیسویں صدی کے وسط میں کئی آزاد ہونے والی ریاستوں نے اپنا نام تبدیل کیا تھا۔ اس کی کئی مثالیں جدید دور میں بھی ملتی ہیں۔ آزادی کے بعد ’’سیلان‘‘ کا نام سری لنکا سے تبدیل کردیاگیا۔ اسی طرح روڈیسیا کا نام زمبابوئی پڑ گیا۔ انڈونشیا آزادی سے پہلے جزائر مشرقی ہند کہلایا جاتا تھا۔ برطانوی ہندوراس اب بیلز بن گیا ہے۔ 
تازہ مثال شمالی مقدونیا ہے جو سابق یوگوسلاویہ کا حصہ تھا۔ اسی طرح فلپائن کی طرح کئی ممالک ہیں جو اپنا نام تبدیل کرنے پر غور کر رہے ہیں جن میں کازقستان بھی شامل ہے۔اس نام سے ’’ستان‘‘ کا لفظ خذف کرنے کا سوچا جارہا ہے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ یہ جنگ کی یاد تازہ کرتا ہے۔ ملک کا مجوزہ نام ’’کازق ایلی ‘‘ ہے جس کا نام کازق کی سرزمین ہے ۔ 
 

شیئر: