Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’موسمیاتی تبدیلی سے بڑے طوفانوں کا خطرہ‘‘

 موسمیات کی عالمی تنظیم کی ایک رپورٹ کے مطابق 2018 میں طوفانوں اور سیلاب سے6 کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے۔
قدرتی آفات سے متعلق اقوام متحدہ کی ایجنسی کے مطابق  ’فلورینس‘ طوفان نے ستمبر 2018 میں امریکہ کو بہت بڑا اقتصادی جھٹکا دیا جبکہ ’مچل ‘نامی طوفان سے 49 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا ۔ اس طوفان میں 100سے زائد اموات بھی ہوئیں۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ موسم تبدیل ہو رہا ہے اور یہ تباہ کن سیلاب کا پیشہ خیمہ ثابت ہو گا۔ بیشتر ممالک کا بنیادی ڈھانچہ ایسا نہیں جو بھاری سیلاب کا بوجھ برداشت کرسکے۔ سیلاب سے نمٹنے کے لیے ہنگامی نوعیت کے منصوبوں کا فقدان بھی بڑے المیے کا باعث بن سکتا ہے۔
لندن سے شائع ہونے والے اخبار الشرق الاوسط کی رپورٹ کے مطابق2019  کی پہلی ششماہی کے دوران خوفناک سیلاب نے ایران کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا جہاں دور دراز علاقوں میں درجنوں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ہزاروں افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔ 
سیلاب کے باعث لبنان میں کئی روز تک تعلیمی ادارے بند رہے۔ اس سے قبل فروری میں سیلاب نے عراق اور اپریل میں الجزائر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ 
 رپورٹ کے مطابق مینگٹ طوفان نے 24لاکھ سے زائد افراد کو متاثر کیا اور کم سے کم 134اموات ہوئیں، زیادہ تر ہلاکتیں فلپائن میں ہوئیں۔
 2018 کے آخری مہینوں میں تیونس، اردن، فلسطین اور لبنان سے لے کر سعودی عرب،کویت، قطر اور اردن تک متعدد عرب ممالک تباہ کن سیلاب کا شکار ہوئے۔ درجنوں افراد بحیرہ مردار کے علاقے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے،عمان کی سڑکیں ایک سے زائد بار زیر آب آئیں۔ سیلاب سے سعودی عرب، قطر، تیونس اور فلسطین کے متعدد علاقوں میں جانی و مالی نقصان ہوا۔
 2018 کے دوران بحیرہ عرب میں دو بڑے طوفان آئے۔ مئی میں ’مکونو‘ طوفان نے جزیرہ نما عرب کے جنوبی علاقے کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔ اس نے سلطنت عمان، یمن اور سعودی عرب کو نقصان پہنچایا۔ پھر اکتوبر 2018 کے دوران ’لوبان‘ نامی طوفان نے شمالی یمن اور سلطنت عمان میں درجنوں افراد کی جان لی اور املاک کو بھی بھاری نقصان پہنچایا۔
مارچ کے اختتام پر ’ایڈا‘  طوفان سے موزمبیق میں 700 افراد ہلاک جبکہ اس کے بعد ہزاروں ہیضے کی وبا کا شکار ہوئے۔ عالمی تنظیموں کے مطابق موسم کی تبدیلی کے باعث افریقا میں اس طوفان نے غیر معمولی نقصان پہنچایا۔
جنوبی جزیرہ نما عرب اور  افریقا کے علاقوں میں واقع عرب ممالک استوائی آندھیوں سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اپریل کے شروع سے دسمبر کے اختتام تک ہر سال یہ آندھیاں چلتی ہیں۔ یہاں ہر سال چار سے چھ  طوفان آتے ہیں اور پوری دنیا میں سب سے زیادہ اموات بھی یہیں ہوتی ہیں کیونکہ یہ انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے کثیر آبادی والے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہیں۔ 
سنہ 2018 کی موسمیاتی تبدیلی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مذکورہ چاروں علاقوں میں طوفانوں کی تعداد 74سے تجاوز کر گئی۔ جنوبی کرہ ارض کے نصف علاقے میں آندھیوں کی تعداد مذکورہ موسم کے دوران 22 تک پہنچ گئی ہے۔ 
  • کیا آندھیاں اور طوفان روکے جاسکتے ہیں؟
ایک بڑا سوال یہ ہے کہ کیا آندھیاں روکی جاسکتی ہیں؟ اس سلسلے میں دو اہم عناصر بے حد اہمیت رکھتے ہیں۔ ایک تو سمندر کا درجہ حرارت، دوسرا عنصر ہوا کی گردش ہے۔ اگر سمندر کے پانی کا درجہ حرارت اور گرم گیسوں کا اخراج بڑھے گا تو آندھیاں زیادہ آئیں گی اور آئندہ برسوں کے دوران یہ معمول کی شکل اختیار کر لیں گی۔
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا آندھیوں کی شدت میں کمی یا سمندر میں طوفان روکنے کا کوئی طریقہ کار اپنایا جاسکتا ہے؟
سطح سمندر کا درجہ حرارت 26.5 سینٹی گریڈ سے زیادہ ہو تو آندھی اور طوفان آتے ہیں،اگر درجہ حرارت اس سے کم ہو جائے تو آندھی یا طوفان نہیں آتے۔
سمندری علوم کے برطانوی ماہر پروفیسر سٹیفن سیلٹر نے ارب پتی بل گیٹس کے تعاون سے ایک سکیم تیار کی ہے۔ اس سکیم کے تحت بحر اوقیانوس کے پانی میں ہزاروں ٹائر نما گول دائرے  پھیلائے جائیں گے۔ انہیں دیو ہیکل پائپ سے جوڑا جائے گا تاکہ سطح سمندر کے گرم پانی کو جذب کر کے گہرے سمندر میں پمپ کر سکیں اور ان کی جگہ گہرے سمندر سے آنے والا ٹھنڈا پانی لے سکے۔
مانچسٹر یونیورسٹی کے ڈاکٹر جان لیتھم اور ان کے رفقائے کار نے سطح سمندر کی حرارت کو کم کرنے کے لیے متبادل سکیم پیش کی ہے۔
 ان کا کہنا ہے کہ بحر اوقیانوس کے گرم پانی میں جہازوں کا بیڑا گھمایا جائے۔ یہ جہاز سمندر کے پانی کو فضائی غلاف میں پھوار کی صورت میں پمپ کریں جس سے فضا میں موجود بادلوں میں زیادہ چمک پیدا ہو گی اور اس کے نتیجے میں سورج کی حرارت فضا میں منعکس ہونے پر سطح سمندر کا درجہ حرارت کم ہو جائے گا اور ماحول آندھی اور طوفان بننے کے حوالے سے غیر ساز گار ہو گا۔
 
 
 

شیئر: