Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لیبیا، سوڈان اور الجزائر میں نیا منظر نامہ کیا ہو گا؟

رضوان السید ۔ الشرق الاوسط
 
  عبدالرحمن الراشد نے الشرق الاوسط میں ہمیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ الجزائر اور سوڈان کے موجودہ مظاہرین 2011ء کے مظاہرین سے مختلف ہیں ۔ انہوں نے یہ بات بھی سمجھانے کا جتن کیا کہ الجزائر ، لیبیا اور سوڈان کے موجودہ فوجی حکمراں 2011ء کے حکمرانوں کے طرز حکومت سے مختلف طرز اپنائے ہوئے ہیں ۔ ہم عبدالرحمن الراشد کی بات سمجھنے کیلئے تیار ہیں۔
میرا خیا ل ہے کہ عبدالرحمن الراشد کا پہلا فقرا درست ہے ۔ آجکل مظاہرہ کرنے والوں میں 2011ء اور اس کے بعد کے تجربے سے سبق لیا ہے ۔ حالیہ مظاہرے انتہائی پر امن رہے ۔ جہاں تک دوسرے فقرے کا تعلق ہے جسے میں نے بربنائے مزاح عبدالرحمان الراشد سے منسوب کر دیا ہے تو یہ فقرا تفصیل طلب ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ الجزائر ، لیبیا اور سوڈان تینوں ملکوں کے حالات ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ ہمیں نہیں معلوم کہ 2013ء کے دوران صدر بوتفلیقہ پر فالج پڑنے کے بعد سے الجزائر میں کیا کچھ ہوتا رہا ہے ۔ دراصل حالیہ برسوں کے دوران فوج اور سیکیورٹی فورسز کے کمانڈروں میں بہت ساری تبدیلیوں نے یہ تاثر دیا ہے کہ بوتفلیقہ اپنی صحت اور اپنے مرض کے دوران الجزائر کے فوجیوں کو ریاست میں اقتدار کے مراکز سے نکالنے میں کامیاب رہے۔تاہم جب عبدالعزیز بوتفلیقہ نے پانچویں بار صدارتی امیدوار بننے کا اعلان کیا اور مظاہرین نے ان کی نامزدگی کو مسترد کیا تو ماحول میں یہ چہ مگوئیاں ہوئیں کہ الجزائر میں ’’ایک گروہ اقتدار کی باگ ڈور درپردہ اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے ہے ۔ یہ بات اس غرض سے بھی کی گئی تاکہ عبوری صدر پر اعتراض کیا جا سکے اور انہیں خفیہ گروہ کا رکن قرار دیا جا سکے ۔ 
ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ عبدالعزیز بوتفلیقہ کے اطراف کئی لوگ جمع تھے اور وہ ان کے نام سے راج کر رہے تھے ۔ یہ فوجی کمانڈروں سے رابطے میں تھے ۔ ان میں وہ بھی تھے جو روشنی کے دائرے سے نکل گئے تھے ۔ اہم بات یہ ہے کہ الجزائر کی فوج کا موقف اب تک ٹھیک ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ الجزائر کی فوج سیاسی عمل میں دخل دئیے بغیر ملکی امن و سلامتی تک اپنے کردار کو محدود رکھنا چاہتی ہے ۔ مظاہرین موجودہ نظام تبدیل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ البتہ عبوری دور یا نظام کی تبدیلی کا کوئی لائحہ عمل پیش کرنے سے بھی گریز کر رہے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدشات اپنی جگہ درست ہیں مگر غیر معمولی شکل میں لوگوں کا جمع ہونا اور ان میں سے بعض قائدین کا سرابھارنا ظاہر کرر ہا ہے کہ الجزائر میں خوف پر امید کو ترجیح دی جا رہی ہے ۔
یہ بات بعید ازامکان نہیں کہ فرانس کی طرح الجزائر میں بھی ایک یا اس سے زیادہ رہنما ابھر کر آئیں  یہ تو الجزائر کا منظر نامہ ہوا ۔ جہاں تک سوڈان کا معاملہ ہے تو وہاں الجزائر جیسا پیج درپیج ٹیڑھا میڑھا منظر نامہ نہیں ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ عمر البشیر کے فوجی راج نے ملک کو تقسیم کر دیا ہے ۔ وہاں جنگیں برپا کر دی ہیں ۔ ملک کے اقتصادی اور معاشی حالات ہی بحران کا اصل سبب ہیں ۔ الجزائر کے برخلاف سوڈان کے مظاہرین نے فوج کا سہارا لیا ۔ انہوں نے عملی طور پر یہ بات تسلیم کر لی کہ فوج کی مدد کے بغیران کی تحریک کامیاب نہیں ہو گی ۔ فوج کا مسئلہ ٹیڑھا ہے ۔فوج نے مظاہرین کو اپنے ہیڈ کوارٹر جمع ہونے کی اجازت دی اتنا ہی نہیں بلکہ یہ بھی واضح کردیا کہ وہ مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے طاقت استعمال نہیں کرے گی ۔ فوج نے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ بھی اطمینان دلایا کہ وہ سیکیورٹی فورسز کو مظاہرین کے خلاف تشدد استعمال کرنے کی اجازت کسی حالت میں نہیں دے گی۔دوسری جانب فوج نے اپنا موقف یہ اپنایا کہ وہ کسی بھی سیاسی فریق کے ساتھ مذاکرات نہیں کرے گی ۔ فوج یہ بھی کہتی رہی ہے کہ صدر البشیر ہی مسلح افواج کے کمانڈر اعلیٰ ہیں ۔ یہ بھی الجزائر کے منظر نامے سے مختلف ہے ۔یوں کہنے کیلئے تو سوڈان میں مظاہرین کی تحریک کا عنوان ’’پیشہ وروں کا گروپ‘‘تاہم مظاہرے میں صرف پیشہ ور افراد ہی نہیں بلکہ تمام اپوزیشن سیاسی جماعتیں بھی شامل ہوئیں۔اب سب سے بڑا سوال سوڈان میں یہ ہے کہ ’’ گھنٹی کون باندھے گا ‘‘آیا قومی فوج ملک میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کی راہ ہموار کرے گی ۔ آیا وہ سول گورنمنٹ کی بحالی کا اہتمام کرے گی جیسا کہ 1965ء اور 1985ء میں کر چکی ہے ۔ ممکن ہے گتھی کے حل کیلئے ایک سے زیادہ فارمولے اپنانے پڑیں ۔ سوڈانی فوج وہی نظیر دہرائے جو جنرل عبدالرحمان سوار الذھب نے 1985ء کے دوران قائم کی تھی ۔ حق اور سچ یہ ہے کہ سوڈانی عوام امن پسند ہیں ۔ البتہ عسکری حکام 1989ء سے لیکر اب تک برسر اقتدار رہنے کا ریکارڈ قائم کئے ہوئے ہیں ۔ انہیں سوڈان کے اتحاد اور استحکام سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ انہیں یہ قابل قبول ہو گا کہ خرطوم اور ام درمان ہی تک ان کے اقتدار کا دائرہ محدود ہو تو یہ بھی ان کیلئے قابل قبول ہو گا ۔
اب لیبیا کا منظر نامہ دیکھتے ہیں۔لیبیا کا معاملہ زیادہ ٹیڑھا ہے۔ بین الاقوامی طاقتیں لیبیا میں بہت زیادہ دخیل ہو گئی ہیں ۔ انہیں لیبیا سے غرض اس لئے ہے کیونکہ وہ تیل سے مالا مال ریاست ہے ۔ ان کی دلچسپی کا دوسرا محرک یہ ہے کہ لیبیا سے فرار ہونیوالے یورپی ممالک کا رخ کرتے ہیں ۔ تیسری بات یہ ہے کہ افریقی ممالک میں ہنگامہ آرائی کرنیوالے لیبیا میں موجود انارکی سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی طاقتوں نے طرابلس میں وفاقی حکومت کو تسلیم کر لیا تھا ۔ انہوں نے وفاقی حکومت کو اس کے باوجود قبول کر لیا تھا جبکہ اس میں اسلحہ بردار اخوانی اور غیر اسلحہ بردار اخوانی دونوں شامل تھے ۔ دوسری جانب ملک کے مشرقی اور جنوبی علاقوں پر فیلڈ مارشل حفتر اپنا قبضہ جمائے ہوئے ہیں اور ان کے ساتھ پارلیمنٹ بھی ہے اور ان کی اپنی حکومت بھی ہے ۔ بین الاقوامی ایلچی برائے لیبیا ڈاکٹر غسان سلامہ نے حال ہی میں جامع قومی مکالمے کی تجویز پیش کی تاکہ آزادانہ انتخابات کی راہ ہموار ہو ۔
لیبیا کے وہ لوگ جنہیں ہم جانتے ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ ملیشیائوں کے ہوتے ہوئے ملک میں انتخابات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا  اگر انتخابات ہو بھی جاتے ہیں تو نتیجہ خیز نہیں ہوں گے ۔ اس سے پہلے بھی دو یا 3بار انتخابات ہو چکے ہیں ۔ ان کا کوئی فائدہ برآمد نہیں ہوا ۔ ابھی تک کسی کو یہ بات صحیح طریقے سے معلوم نہیں ہو سکی ہے کہ آخر جنرل حفتر نے طرابلس پر حملے کا فیصلہ کیوں کیا؟یہ سوال اس وجہ سے بھی اہم ہے کیونکہ لیبیا کی قدیم فوج کا دو تہائی حصہ حفتر کے ساتھ ہے ۔ سوال کرنیوالوں کے ذہن میں الجھن کا باعث یہ بھی ہے کہ جنرل حفتر قومی مکالمہ کانفرنس کے نتائج کا انتظار کر سکتے تھے انہوں نے ایسا کیوں نہیں کیا ۔ جنرل حفتر نے گزشتہ برسوں کے دوران لیبیا کے مشرقی اور جنوبی علاقوں میں امن و امان قائم کر کے بہترین مثال قائم کی ۔ انہوں نے دہشتگردوں اور تیل کے کنوئوں نیز ساحلی علاقوں کو خطرات لاحق کرنیوالے گروہوں کو نکال باہر کیا ۔ انہوں نے مصری سیکیورٹی فورسزکے ساتھ تعاون کر کے سرحدوں پر امن و امان بحال کیا ۔ جہاں تک ان کے حریفوں کا تعلق ہے توانہیں شعبہ یہ ہے کہ جنرل حفتر ضدی انسان ہیں وہ اقتدا رکے تمام مراکز اپنے قبضے میں کر لیں گے ۔ وہ لیبیا کے موجود وزیراعظم السراج کے ساتھ کئے گئے معاہدے پورے نہیں کریں گے ۔ دونوں 5ملاقاتیں کر چکے ہیں ۔ آخری ملاقات امارات کے دارالحکومت ابوظبی میں ہوئی تھی ۔ بین الاقوامی طاقتیں ، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور عالمی ایلچی برائے لیبیا بیک زبان مطالبہ کر رہے ہیں کہ حفتر حملہ بند کریں سب لوگ مکالمے کی میز پر بیٹھیں ۔
ہم الجزائر اور سوڈان کی بات کر چکے ہیں ان دونوں ملکوں میں فوج اقتدار سے دامن جھاڑنے کا اظہار کررہی ہے جہاں تک لیبیا کا تعلق ہے تو وہاں فوج ملک کے ایک ایک علاقے پر اپنا کنٹرول بحال کرنا چاہتی ہے اور کہہ رہی ہے کہ اس کا مقصد ملک کا اتحاد ، سالمیت اور امن و استحکام ہے ۔ وہ چاہتی ہے کہ لیبیا پڑوسی ممالک کے لئے خطرہ نہ بنے ۔ یورپی اور عالمی امن کے لئے مسائل نہ پیدا کرے جبکہ عالمی برادری لیبیا کی فوج یا کم از کم اس کے طریقہ کار سے متفق نہیں ۔
 
 
 

شیئر: