Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اگر ا سٹوڈنٹ یونین ہوتی تو مشال خان کیلئے آواز بلند کرتیں‘

*** رابعہ اکرم خان***
عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کی دوسری برسی  پراسلام آباد اور راولپنڈی کے طالب علموںنے تعلیمی اداروں میں طلبا یونینز کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔
اسلام آباد پریس کلب کے سامنے  ہفتے  کی شام جڑواں شہروں کی یونیورسٹیوں کے طلبا پر مشتمل پروگریسو اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے ’مشال مارچ‘ کے نام پر ایک ریلی نکالی اور مطالبہ کیا کہ تعلیمی اداروں میں یونینز بحال کی جائیں۔
ان طا لب علموں کا کہنا تھا کہ اگر طلبا یونینز ہوتیں تو وہ مشال خان کے لیے آواز بلند کرتیں۔
ریلی میں موجود اساتذہ کے مطابق تقریباً35 برسوں سے پاکستان میں طلبا یونینز پر پابندی لگی ہوئی ہے اور آج تک کسی بھی حکومت نے ان کو بحال کرنے کی کوشش نہیں کی۔  
ریلی کے مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں پھیلی انتہا پسندی کو ختم کرنے کے  لئے نظام تعلیم تبدیل کرنا ہوگا اور یکساں، جدیدسائنسی تحقیق پر مبنی مفت اور لازم تعلیم ہی معاشرے سے انتہا پسندی کا خاتمہ کر سکتی ہے۔
 اردو نیو ز سے بات کرتے ہوئے ایک منتظم اور قائد اعظم یونیورسٹی کی جینڈر ا سٹڈیز کی لیکچرر عالیہ عامر علی نے کہا کہ مشال خان طلبا کے حقوق کے  لئے متحرک تھے جو یونیورسٹی میں ہونے والی کرپشن، نا اہلی اور کمزوریوں کو بے نقاب کرتے تھے۔ 
انہوں نے کہا کہ مشال خان کی یاد کو زندہ رکھنے کے لیے مختلف شہروں میں دس ریلیاں نکالی گئی ہیں۔
منتظمین کے مطابق اگر  اسٹوڈنٹس یونین بحال ہوتیں تو فیسوں جیسے معاملوں پر بحث  بھی ممکن ہوتی اور طلبا کے مسائل حل ہونے کی امید ہوتی۔
پروگریسو ا سٹوڈنٹس فیڈریشن کی ایک رکن ریحانہ اختر نے اپنے خطاب میں کہا کہ طالب علموں کو سوال کرنے کا حق دیا جائے ۔’ ہمیں طلبا کے حقوق کی لڑائی لڑنا ہوگی۔‘
عوامی ورکرز پارٹی کے رکن عمار رشید کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مذہبی نفرت تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کا نتیجہ ہمیں کوئٹہ کے ہزار گنج جیسے سانحوں میں واضح نظرآتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ترقی کے  لئے ضروری ہے کہ طلبہ اورنوجوانوں کو سوال ، تنقید اور تنظیم سازی کرنے کی اجازت دی جائے۔
واضح رہے کہ 13 اپریل 2017 کو خیبر پختونخوا کے شہر مردان میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشتعل طلبا کے ہجوم نے توہین رسالت کے الزام پر شعبہ ابلاغیات کے طالب علم مشال خان کو تشدد کر کے ہلاک کیا تھا۔
گذشتہ مارچ کی21 تاریخ کو پشاور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے مشال خان پر تشدد اور قتل کے مقدمے میں گرفتار2ملزمان کو عمر قید اور 2 کو بری کیا تھا۔
 
 

شیئر: