Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کرکٹر سے منشیات سمگلر بننے والے کرس لیوئس

انگلیڈ سے تعلق رکھنے والے 51 سالہ کرس لیوئس آج بھی اتنے ہی بلند حوصلہ ہیں جتنے وہ اپنی نو عمری میں تھے۔  1992 کے کرکٹ ورلڈ کپ میں اوپننگ بولرسے لے کر خود کشی کا ارادہ  اور پھر منشیات کی سمگلنگ میںجیل جانے والے کرس لیوئس کی زندگی انتہائی دلچسپ نشیب و فراز سے گزری ہے۔ کرس لیوئس نے انگلینڈ کے لیے 80 ٹیسٹ اور ایک روزہ میچز کھیلے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کرس لیوئس نے بتایا کہ انہوں نے2008 میں کنگال ہونے کے خوف سے پھلوں کے ڈبوںمیں 183,000 ڈالر مالیت کی کوکین  جزائے غرب الہند میں سینٹ لوشیا نامی جزیرے سے برطانیہ سمگل کی تھی۔انہیں اس ڈیل میں سے 50 ہزار برطانوی پاؤنڈ ملنا تھے ، لیکن اس کے بجائے انہیں 13 برس قید کی سزا ہوگئی جس میں سے وہ ساڑھے چھ برس تک جیل میں رہے۔
جیل سے رہائی کے بعد کرس لیوئس آج کل ان کی زندگی پر بنائے گئے سٹیج ڈرامے ’دا  لانگ واک بیک‘  کی ٹیم کے ساتھ دورے پر ہیں۔  ان کی زندگی پر لکھے گئے اس ڈرامے کے مصنف سابق کرکٹر گراہم براؤن ہیں۔ 
اس ڈرامے نے کرس لیوئس میں زندگی گزارنے کی ایک نئی امنگ اور نیا جذبہ پیدا کیا ہے۔  
 ’مزاحیہ بات یہ ہے کہ میں جتنا پر عزم اور مثبت آج ہوں اس سے پہلے کبھی بھی نہ تھا۔‘
لیوئس نے کہا کہ جیل میں رہنے کا تصور ہی بہت خوفناک ہے اور ’اگر آپ کو برسوں جیل میں رہنا پڑے تو خود کشی کرنے کا خیال آتا ہے۔‘
لیوئس نے جیل میں زندگی گزارنے کے چند اصول بتائے جن میں موسیقی نہ سننا اور ان کی دادی کو سزا کا علم نہ ہونے دینا شامل تھے۔ ان کی دادی ان کو کامیاب انسان سمجھتی تھیں اور وہ ایسی کوئی بات ان کو نہیں بتانا چاہتے تھے جس سے وہ مایوس ہوں۔ بد قسمی سے ان کی دادی کرس لیوئس کی قید کے دوران ہی وفات پا گئیں۔
لیوئس کا کہنا ہے کہ جب وہ اپنے ماضی کا جائزہ  لیتے ہیں تو وہ  جن حالات سے گزرے ہیں  اس کا ذمہ دار خود کو ہی سمجھتے ہیں۔
 

شیئر: