Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں ماڈ ل کورٹس: انسانی حقوق کی تنظیمیں خوش ،وکلا پریشان

***توصیف رضی ملک ***
انصاف کی جلد فراہمی کے لیے پاکستان کی عدالت عظمیٰ کے احکامات پہ قائم کردہ ماڈل کورٹس وکلا کے احتجاج اور بائیکاٹ کے باعث اپنے قیام کے چند روز بعد ہی غیر فعال ہو چکی ہیں۔
 

سائلین اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے ماڈل کورٹس کے قیام کو سراہا اوروکلا کے احتجاج کو مفاد پرستی قرار دیا ہے تاہم وکلا تنظیمیں بضد ہیں کہ یہ نظام نہیں چلنے دیا جائے گا کیونکہ ماڈل کورٹس انصاف فراہم نہیں کر رہی ہیں بلکہ مقدمات کو بس جلد از جلد نمٹا رہی ہیں۔ 

چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے اس صورتحال کے پیش نظر پر جوڈیشنل کمیٹی کی میٹنگ 29 اپریل کو طلب کر لی ہے جس میں ماڈل کورٹس کے آئینی مستقبل کے حوالے سے فیصلہ کیا جائے گا۔
رواں ماہ کے شروع میں ماڈل کورٹس کا قیام عمل میں لایاگیا تھا، جن کا مقصد سالہا سال سے زیرِ التوا جرائم اور منشیات کے مقدمات کے فیصلے ہنگامی بنیادوں پرکرنا تھا۔تجرباتی بنیادوں پر قائم اس نظام کے تحت زیرالتوا مقدمے کا فیصلہ چار دن میں سنایا جانا ضروری ہے۔
 پہلے مرحلے میں اسلام آباد سمیت چاروں صوبوں میں 116عدالتیں قائم کی گئیں ہیں۔ ان عدالتوں نے اپنے قیام کے پہلے ہی ہفتے میں مجموعی طور 766مقدمات نمٹائے ، جن میں آٹھ افراد کو سزائے موت، 48 کو عمر قید جبکہ دیگر کو سزا اور جرمانے کی سزا ئیں سنائی گئیں۔
 وکلاء نے اس اقدام کے بعد عدالتوں کی کاروائی میں خلل ڈالا اور اب ملک بھر کی وکلاء تنظیموں نے ان عدالتوں کا مکمل بائیکاٹ کردیا ہے۔
پاکستان بار کونسل کے رہنما قلبِ حسن نے اردو نیوز کو بتایا کہ تمام ڈسٹرکٹس کی بار ایسوسی ایشن کے وکلاء نے ماڈل کورٹس کے قیام کے خلاف آواز اٹھائی اور احتجاج کیا جس کے بعد پاکستان بار کونسل نے ان کے مطالبات کو مدنظر رکھتے ہوئے ماڈل کورٹس کی مخالفت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس پاکستان کے ساتھ میٹنگ میں وکلاء کو لاحق خدشات کے حوالے سے بات ہو گی۔
کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر نعیم قریشی نے اردو نیوز کو بتایا کہ جن مقدمات کا فیصلہ 4 سالوں میں نہیں ہوتا ان کو 4 دن میں کیسے نمٹایا جا سکتا ہے، ملک میں ڈھائی ہزار سے زائد تجربہ کار سیشن ججز اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔اس اقدام سے یہ تاثر دیا گیا ہے کہ یہ تمام ججز اپنا کام خوش اسلوبی سے نہیں کر رہے۔
 نعیم قریشی کہتے ہیں کہ ماڈل کورٹس انصاف فراہم نہیں کر رہیں بلکہ مقدمات کو بس جلد از جلد نمٹا رہی ہیں۔ 
ماڈل کورٹس میں پیش ہونے والے وکلا کے لائسنس منسوخ کرنے کی وجہ پوچھنے پر پاکستان بار کونسل کے رہنما قلبِ حسن نے بتایا کہ ایسا صرف وکلاء تنظیموں کے مطالبے پہ کیا گیا ہے،جس وکیل کا لائسنس معطل ہوا ہے وہ معاملہ حل ہونے کے بعد بحال کردیا جائے گا۔
دوسری جانب سائلین نے ماڈل کورٹس کے قیام کو خوش آئند قرار دیا اور امید ظاہر کی کہ اگر یہ کورٹس فعال ہو گئی تو ان کے سالوں سے زیرِ التوا مقدمات کے فیصلے ہو سکیں گے۔
 کراچی کے علاقے عزیز آباد کے رہائشی اویس نے اردو نیوز کو بتایا کہ وہ پچھلے 5 سال سے اپنے بھائی پر قتل کے الزام سے متعلق مقدمے کی پیروی کر رہے ہیں، لیکن تاحال مقدمے کا فیصلہ نہیں ہوا۔ اویس کا کہنا تھا کہ ان کا بھائی قوتِ سماعت و گویائی سے محروم ہے اور 4 سال سے جیل میں قید ہے۔ 
انہوں نے کہا کہ’ وکلاء اپنی روزی روٹی بچانے کی خاطر ماڈل کورٹس کا بائیکاٹ کر رہے ہیں، اگر سائلین کو جلد انصاف میسر آئے گا تو وکلاء کیسے پیشیاں بڑھا بڑھا کے اپنی فیس پکی کریں گے۔‘
اپنے دو بیٹوں کی ضمانت کے لیے آئے شیریں جناح کالونی کے رہائشی احمد خان نے بتایا کہ وہ ڈیرھ لاکھ روپے ادھار لے کر وکیلوں کی فیس ادا کر رہے ہیں تاہم، اب تک کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سندھ کے سربراہ اسد اقبال بٹ کاکہناہے کہ’ بعض اوقات وکلاء ہی مقدمات کے جلد حل میں رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں اور یہ بات بھی غلط نہیں کہ ماڈل کورٹس کے قیام سے وکلاء کی اجارہ داری اور دکانیں بند ہونے کا خدشہ ہے۔‘
سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ رشید رضوی کا اس حوالے سے کہناتھا کہ تمام کرمنل کیسز میں فوری انصاف ممکن نہیں ہوتا، قتل اوردیگر سنگین مقدمات کا فیصلہ کرنے میں کم از کم 3 ماہ کا عرصہ درکار ہوتا ہے، البتہ کچھ معاملات ایسے ضرور ہوتے ہیں جو جلد نمٹائے جا سکتے ہیں۔
 

شیئر: