Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بنگلادیش: 27,000 سکولوں میں جنسی ہراس کے خلاف کمیٹیاں قائم کرنے کا حکم

بنگلادیش میں حکومت نے جنسی ہراس کی روک تھام کے لیے ملک بھر میں تقریباً 27,000 سکولوں میں کمیٹیاں قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق حکومت کی جانب سے یہ حکم حال ہی میں پیش آنے والے ایک واقعے کے بعد سامنے آیا ہے جب ایک استاد پر جنسی ہراس کا الزام لگانے پر 19برس کی طالبہ نصرت جہاں رفیع کو جلا کر قتل کردیا گیا تھا۔
بنگلادیش کی سیکنڈری اور ہائر ایجوکیشن ڈائریکٹریٹ کے سربراہ شاہد الخبیر چودھری نے اے ایف پی کو بتایا ’اس کمیٹی کی سربراہی خواتین اساتذہ کریں گی۔ وہ جنسی ہراس کی روک تھام کے لیے اور اس سے متعلق شکایات سنیں گی۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ کمیٹیاں ملک کے ہائی کورٹ کے حکم پر بنائی جا رہی ہیں۔ ہائی کورٹ نے سنہ 2009میں عورتوں اور بچوں پر دفاتر، اسکولوں اور سڑک پر ہونے والی جنسی ہراس کی روک تھام کے ہدایات دی تھیں۔
خیال رہے کہ نصرت جہاں رفیع کے قتل سے ملک بھر میں غم و غصے کی لہردوڑ گئی تھی۔
 دارالحکومت ڈھاکہ میں اس واقعے کے خلاف مظاہرین نے اپنا احتجاج گیارہویں دن بھی جاری رکھا، مظاہرین مطالبہ کر رہے ہیں کہ نصرت جہاں رفیع کے قاتلوں کو عبرت ناک سزا دی جائے۔
مظاہرے میں حصہ لینے والی ڈھاکہ یونیورسٹی کی طالبہ انتارہ لبیبہ کا کہنا تھا کہ ’میں اس مظاہرے میں حصہ اس لیے لے رہی ہوں کیونکہ نصرت کا قتل عورتوں کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔‘
 ان کا کہنا تھا ’میں بھی جنسی ہراس کا شکار ہوئی ہوں ،میرے خیال میں بنگلہ دیش میں زیادہ تر خواتین اپنے گھر، سکولوں، بازاروں ا ور دفاتر میں جنسی ہراسگی کا سامنا کرتی ہیں۔‘
پولیس کے مطابق نصرت جہاں رفیع ڈھاکہ میں فینی نام کے علاقے میں ایک مدرسہ میں پڑھتی تھیں، جس کے ہیڈ ماسٹر کے خلا ف انہوں نے جنسی ہراس کی شکایت درج کروائی تھی۔
نصرت جہاں رفیع کو جس روز کو قتل کیا گیا اس دن قاتل ان کو مدرسہ کی چھت پر لے گئے اورشکایت واپس لینے کے لیے اصرار کیا۔ ان کے انکار کرنے پر انہیں مٹی کا تیل ڈال کر جلا دیا گیا۔
 نصرت جہاں کے جسم کا 80فیصد جل گیا تھا جس کے بعد وہ یکم اپریل کو وہ ہسپتال میں دم توڑ گئیں۔
 اس واقعہ میں اب تک ہیڈ ماسٹر سمیت 20افراد گرفتار کر لیے گئے ہیں۔
 واضح رہے کہ رواں سال مارچ میں نصرت جہاں نے اپنے ساتھ ہوئے واقعہ کی شکایت درج کرائی تھی۔ ایک وڈیو میں پولیس سٹیشن کے افسر کو شکایت درج کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے مگر پولیس افسر یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ نصرت کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ ’کوئی بڑی بات نہیں۔‘
 

شیئر: