Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انجام یہ کہ گرد سفر لے کے آ گیا

کچھ حقیقتیں فسانہ لگتی ہیں اور کچھ فسانے حقیقت جیسے ہوتے ہیں ، یہی زندگی کی کہانیاں ہیں کچھ سچی اور کچھ فرضی، مگر یہ فرضی کہانیاں بھی دراصل حقیقت سے لی جاتی ہیں

مسز زاہدہ قمر۔جدہ

کچھ حقیقتیں فسانہ لگتی ہیں اور کچھ فسانے حقیقت جیسے ہوتے ہیں ۔ یہی زندگی کی کہانیاں ہیں کچھ سچی اور کچھ فرضی۔ مگر یہ فرضی کہانیاں بھی دراصل حقیقت سے لی جاتی ہیں ایسی ہی ایک کہانی میری دوست نیلم کی ہے (یہ نام فرضی ہے) اس کے خاندان کے کچھ افراد برما سے ہجرت کرکے پاکستان آئے اور پھر یہاں کی وسیع اور مہربان سرزمین نے انہیں اپنے اندر سمو لیا۔ کراچی جیسے بڑی اور انسان دوست شہر میں انہوں نے اپنا مستقل مسکن بنا لیا۔ پھر الگ الگ علاقوں میں رہائش اختیار کر لی۔ محنتی لوگ تھے لہٰذا ان کی محنت نے بہت جلد نہ صرف انہیں اپنے پائوں پر کھڑا کر کر دیا بلکہ خوشحالی بھی ان کے قدم چومنے لگیَ صرف امین صاحب (نیلم کے والد) اپنے دیگر رشتے داروں سے مالی لحاظ سے تھوڑے سے کم تھے۔ وجہ شاید یہ تھی کہ نیلم ان کی اکلوتی اولاد تھی ان کا کوئی بیٹا نہ تھا کہ ان کا ساتھ دیتااور سہارابنتا۔ بھر بھی وہ سُکھ کی زندگی گُزار رہے تھے۔ ان کی بیٹی ہمارے اسکول میں مجھ سے ایک جماعت آگے تھی۔ مگر اکثر اوقات اسکول میں پروکٹرز کی ڈیوٹی کے دوران اس سے ملاقات رہتی تھی کیونکہ ہم دونوں پروکٹر تھے پھر یہ اکثر ہونے والی ملاقاتیں دوستی کا روپ دھار گئیں۔نیلم کی باتوں سے پتہ چلتا تھا کہ اس کی والدہ اپنے متوسط طرز زندگی سے بے زار ہیں وہ اکثر اپنے شوہر کو آگے بڑھنے اور دیگر ممالک میں جا کر قسمت آزمائی کیلئے آمادہ کرتی رہتی تھی۔ امین صاحب بیٹی اور بیوی کو تنہا چھوڑ کر جانے کیلئے تیار نہ تھے مگر نیلم کی والدہ کااصرار بڑھتا جا رہا تھا پھر یہ اصرار ضد کی شکل اختیار کر گیا تو امین صاحب کو ہتھیارڈالنے پڑ گئے۔ انہوں نے چند دوستوں کی مدد سے سعودی عرب کا ویزا لگوایا اور وطن کو خیر آباد کہہ دیا۔ یہاں آکر انہوں نے جان توڑ محنت کی، اوور ٹائم لگایا، دن رات ایک کر دیا۔ ان کی روز و شب کی محنت ریالوں کی شکل میں ڈھلنے لگی اور ان ریالوں کی ہریالی نے ان کی بیوی اور بیٹی کی زندگی کو سر سبز اور پُر بہار بنا دیا۔ کہتے ہیں کہ خوشحالی اپنے ساتھ بہت سے دوست لاتی ہے تو یہ سچ ثابت ہوا ۔ان کے وہ رشتے دار جو پہلے انہیں بھول بیٹھے تھے اچانک ان کو صبح شام یاد کرنے لگے ۔ دوست اور احباب جو صرف رواداری میں ملتے تھے اب جان لُٹانے کو تیار تھے۔ دونوں ماں بیٹی کا حلقہ احباب وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا۔طرز، زندگی بدلا تو سوچ بھی بدل گئی۔اب کوئی چھوٹی چیز نظروں کو نہ بھاتی تھی۔ دن رات پارٹیاں، دعوتیںاور شاپنگ یہ ہی ان کامعمول بنتا چلا گیا۔ امین صاحب 3 سال بعد پاکستان آئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ نیلم نے میٹرک سے پہلے ہی پڑھائی چھوڑ دی ۔ گھر میں تام جھام اور مصنوعی چمک دمک تو بہت تھی مگر بیگم نے کوئی پیسہ پس انداز نہیں کیا تھا۔ پورا بنک بیلنس خالی تھا ۔بڑا سا گھر عالیشان فرنیچر اور دکھاوے پر سب رقم لُٹتی رہی۔اب بیگم اور پیسوں کا مطالبہ کر رہی تھی اور اپنی فضول خرچی کو ضرورتِ زندگی قرار دیکر شرمندہ بھی نہیں تھی۔ گھر میں خاندان کے ہی نہیں ملنے جُلنے والوں کے جوان لڑکوں کی آمدورفت معمول بن چکی تھی اور نیلم سب سے آزادانہ ملتی تھی انہیں اس بات سے بڑا صدمہ پہنچا۔ بیوی سے بحث بیکار تھی وہ باز پُرس کرنے پر لڑ پڑتی تھی۔ امین صاحب نے تگ و دو کر کے خاندان کا ایک اچھا سا لڑکا نیلم کیلئے پسند کر لیا جو رقم وہ ساتھ لے کر گئے تھے اس سے بیٹی کی منگنی کی اور ایک سال بعد شادی کی تاریخ دیدی وہ دوبارہ لوٹتے ہوئے بے حد دل گرفتہ تھے ۔کسی کو کیا بتائے کہ انہوں نے کس کس طرح پیسہ کمایا اور بچایا تھا۔ ایک وقت کھاتے تو دوسرے وقت کھانے کا تصور بھی نہ کرتے تھے ۔کبھی کبھی تو سرا سارا دن بھوکا ہی گُزار دیتے اور شام کو ایک کپ چائے کے ساتھ تنور کی روٹی کھا کر خُدا کا شکربجا لاتے۔ بیوی کو اپنی قربانیاں بتائیں تو وہ قدر کرنے کے بجائے اُلٹا لڑ پڑی کہ ’’مجھ پر احسان جتا رہے ہو یہ کون سا انوکھا کام ہے جو تم نے کیا۔ سب مرد گھر کیلئے پیسہ کماتے ہیں‘‘۔ نیلم کو بھی باپ کی آمد اور ہر وقت کی روک ٹوک بُری لگ رہی تھی ان سب کو تحفے تحائف سے سروکار تھا ۔وہ ساری ساری رات کھانستے مگر کسی کو پروانہ تھی آخر جانے کا د ن آہی گیا امین صاحب کو گھر والوں کے چہرے پر پھیلا اطمینان بہت دُکھ دے رہا تھا۔ وہ بے حد اُداس تھے اس بار انہوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب گھر میں خرچہ کم بھیج کر بیٹی کی شادی کیلئے پیسہ بچائیں گے اور اگلے سال ہمیشہ کیلئے پاکستان چلے جائیں گے ۔اب بیوی کی باتوں میں بالکل نہیں آئیں گے وہ اور محنت میں لگ گئے مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ایک رات جب وہ تھک ہار کر بستر پر گرے تو اُٹھنا نصیب نہ ہوا ۔ہائے غریب الوطنی کی موت!! کوئی آس پاس اپنا تھا ہی نہیں۔ صبح ساتھ رہنے والے دوستوں نے دیکھا گھر والوں کو اطلاع دینے کی کوشش کی تو گھر پر کوئی نہ تھا ماں بیٹی پکنک منانے مری گئیں تھیں برف باری کے سبب رابطے منقطع تھے۔ دوستوں نے انہیں جلد دفن کر دیا۔ 3 دن بعد گھر والوں سے رابطہ ہونے پر اطلاع کردی گئی ۔اب نیلم کے گھر پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ شروع میں تو سب نے زبانی تسلی اور ہمدردی کا سلوک کیا مگر سب کو معلوم تھا کہ اب ان تلِوں میں تیل نہیں۔ لہٰذا ایک ایک کر کے سب جلد ہی اپنی اصلیت پر لوٹ آئے ۔ نیلم کی ساس نے منگنی توڑ دی کہ لڑکی آزاد خیال ہے ۔ہمارا بیٹا راضی نہیں۔ نیلم اور اس کی امی کو معلوم تھا کہ یہ سب کیوں ہورہا ہے؟ مگر کیا کہتیں قصور اپنا تھا کچھ بچا یا ہوتا تو آڑے وقت میں کام آتا ۔ جلدہی مکان خالی کرنا پڑا ۔سامان بیچا اور چھوٹی سی بستی میں سستا سا مکان کرائے پر لے لیا زندگی کی گاڑی چلانے کیلئے دونوں ماں بیٹی نے کوشش کی مگر نان میٹرک کو کون نوکری دیتا ۔آخر ایک کاسمیٹک بنانے والی کمپنی میں سیلزگرل کی نوکری مل گئی۔ دونوں ماں بیٹی پچھتاتی تھیں کہ کاش! اتنی غفلت کا شکار نہ ہوتیں ۔کاش تھوڑا سا مستقبل کا خیال کر لیتیں۔ایسی آپے سے باہر نہ ہوتیں۔ اپنے سر کے سائے کو یوں سر سے نہ ہٹاتیں ایسے گھر کے محافظ اور سربراہ کو تنگ کر کے گھر سے دور نہ رکھتیں تو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا ۔ مگر ا ب کیا ہو سکتا تھا یہ تو عمر بھر کا پچھتاوا تھا۔ یہ صرف نیلم یا اس کی ماں کی کہانی نہیں ایسی بے شمار کہانیاں ہمارے آس پاس بکھری پڑی ہیں۔ کیونکہ ہم ان کہانیوں سے سبق حاصل نہیں کرتے انہیں کہانی سمجھ کر بھول جاتے ہیں۔

٭٭٭٭٭٭

شیئر: