Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جس کیلئے پردیس آیا اسی نے دھوکہ دیدیا

اس نے یہ کہہ کر شادی سے انکار کر دیا کہ جب تم اپنے ماں باپ اور بہنوں کے نہیں ہوئے تو میرے کیسے ہو سکتے ہو،تم پر کیسے یقین کر لوں؟

مصطفی حبیب صدیقی ۔۔ جدہ

آج آپ کو ایک الگ کہانی سناتا ہوں،لوگ اپنے دیس میں دل ہارتے ہیں اور کچھ لوگ پردیس جاکر جس پر دل ہارا ہوتا ہے اسے ہی ہار جاتے ہیں،کچھ ایسی ہی کہانی ہے جسونت رائے کی۔جدہ کے ساحل پر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ سیر کیلئے نکلا تھا ۔بیگم صاحبہ ایک جانب دری بچھا کر بیٹھ گئیں۔بیٹی اور چھوٹا بیٹا ساحل پر چل دیئے جبکہ میں بڑے بیٹے کے ساتھ چہل قدمی کو نکل پڑا۔واضح کردوں کہ میرا بڑا بیٹا بھی ابھی صرف9سال کا ہے مگر میرا بہترین دوست بھی ہے۔ خیر چہل قدمی کے دوران ساحل سمندر پر بنی مسجد کے ساتھ ہی نیچے پتھروں پر ایک نوجوان بیٹھا پانی میں بے اعتنائی سے پتھر پھینکتے نظرآیا۔کافی دیر تک تو میں اسے دیکھ کر یہی سوچتا رہا کہ یہ بے چارہ بھی یہاں تنہا ہوگا اور تنہائی دور کرنے کیلئے سمندر کے کنارے بیٹھا مچھلیوں کو تنگ کررہا ہے مگر اس کے چہرے پر چھائی مایوسی اور اداسی کچھ اور ہی کہانی سنارہی تھی۔مجھ سے رہا نہ گیا اور اس کے پاس چلاگیا۔

السلام وعلیکم (میں نے حسب روایت پہلے سلام کیا اور اس نے جواب میں وعلیکم ا سلام بھی کہا تاہم پھر اس کے نام بتانے پر معلوم ہواکہ وہ ہندو ہے)

کیا ہوگیا یار تنہا بیٹھے مچھلیوں کو پتھر مار مار کر تنگ کررہے ہو؟میں نے اس کے دل ودماغ کے تار وں کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی۔ اس نے ایک مرتبہ میری طرف دیکھا ۔مسکرایا اور پھر اپنے کام میں مشغول ہوگیا یعنی مچھلیوںکو تنگ کرنے کے کام میں:

میں نے بیٹے سے کہا کہ یہیں بیٹھ جائو اور پھر میں بھی پتھر لے کر مچھلیوں کو تنگ کرنے لگا جبکہ میرے صاحب زادے کو بھی یہ مصروفیت کافی پسند آئی اور وہ بھی شروع ہوگئے،مگر جسونت کو شائد برا لگ گیا۔ ’’کیا ہوگیا بھائی کیوں آگئے یہاں پر ،پورا ساحل خالی ہے کہیں اور نہیں جاسکتے‘‘جسونت نے مجھے غصے سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’یا ر جب ہی تو نہیں جارہا پورے ساحل پر کہ پورا ساحل خالی ہے ،مجھے تو بھرے ہوئے ساحل کی تلاش ہے۔میں تو انسانوں میں رہتا ہوں نا‘‘میں نے اس کے دل کے تار جھنجھوڑنے شروع کردیئے تھے۔

میرا نام مصطفی ہے ،اور تمہارا کیا نا م ہے یار؟ نام میں کیا رکھا ہے کام کی بات کرو؟اس نے روکھے لہجے میں جواب دیا۔ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے پیاسا کوا مٹکے سے پانی نکالنے کیلئے کنکریاں چن چن کر لاتا ہے اور پھر اس میں ڈالتا ہے اسی طرح میں جسونت میں کنکریاں ڈال ڈال کر اس کے دل کا زخم نکال رہا ہوں۔ نام میں بہت کچھ ہے یار ۔نام معلوم ہوگا تو بات آگے ہوگی ۔اچھا پلیز اپنا نام بتائو؟میں نے اصرا ر کیا تو اس نے مزید روکھے لہجے میں کہا’’جسونت۔۔۔۔جسونت رائے ‘‘،اب بولو کیا کام ہے۔ جسونت بھائی کہاں سے ہو تم ہند سے لگتے ہو؟ جی ہاں ہند سے ہی ہوں ۔مدھیہ پردیش کا رہنے والا ہوں۔جسونت نے کچھ ناکچھ بولنا شروع کیا تو مجھے ایسے خوشی ہوئی جسے 6ماہ کا بچہ پہلی مرتبہ ’’ مما‘‘ بولے۔ جسونت رائے ،یہی نام بتایا نا تم نے ؟میں نے تصدیق کی تو وہ ٹرا کر بولا ایک مرتبہ سنائی نہیں دیا کیا۔یار کیوں پریشان کررہے ہو۔جائو یہاں سے مجھے تنہا چھوڑ دو۔میں اکیلے بیٹھنے آیا ہوں یہاں۔۔وہ بولتا ہی چلاگیا۔میں خاموشی سے سنتا رہا۔ یار جسونت !دیکھو یہ پرایا دیس ہے ۔یہاں میں پاکستان سے آئو ں یا تم ہند سے ہم دونوں ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ہم دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔یار مجھے اپنا بھائی سمجھو اور نکال دو دل کا غبار ۔کیا سوچتے ہو ؟کیا مسئلہ ہے؟بتائو یار۔دیکھنا پھر رات جاکر سکون سے نیند لوگے۔یہ دل میں رکھنے والا غم بڑا سخت ہوتا ہے ۔دل میں نا رکھو یار،بول دو ،مجھ جیسا کہاں ملے گا تمہیں جسونت بھائی جو خود تمہاری کہانی سننے کیلئے بے قرار ہو۔ جسونت کو میں راضی کرچکا تھا۔

میری خواہش تھی کہ وہ اپنے دل کا غبار نکالے تاکہ پردیس میں مزید تنہائی سے بچ سکے۔جسونت نے بولنا شروع کیا۔ کیا بتائوں بھائی،میں پردیس جس کیلئے آیا تھا اس نے ہی دھوکہ دیدیا۔میں پردیس اپنے ماں باپ یا بہن بھائی کیلئے نہیں آیا تھا۔میں اپنے کالج کی ایک لڑکی سے محبت کرتا تھا۔میری تعلیم بھی خراب ہوگئی ۔میں چاہتا تھا کہ کسی بھی طرح اس لڑکی کو حاصل کرلوں۔گھر والوںنے سمجھایا کہ پہلے اپنی تعلیم پر توجہ دو ۔تمہارا باپ معمولی کلرک ہے ۔اس کی کمر جھک رہی ہے۔3جوان بہنیں ہیں ۔ان پر توجہ دو مگر مجھ پر محبت کا جنون طاری تھا۔لڑکی کے باپ نے شرط رکھی کہ جب تک تم اپنا الگ گھر نہیں بنائو گے اس سے شادی کا سوچنا بھی نہیں۔میں ہند میںرہ کر اتنے پیسے نہیں کماسکتا تھاکہ الگ گھر بناسکوں۔میں نے بڑاظلم کردیا اپنے گھر والوں پر ۔(جسونت اب بولنا شروع ہوگیا تھا،اس کا دل ہلکا ہورہا تھا میں خاموشی سے سب کچھ سنتا رہا) میرے پتا جی نے برسوں محنت کرکے مجھے اور میری تینوں بہنوں کو پڑھایا۔ہمارا اپنا گھر نہیں تھا،ہم کرائے کے مکان میں رہتے تھے،پتاجی کے پاس اتنا پیسہ نہیں تھا کہ وہ مکان بناسکتے۔میں سوچتا تھاکہ ایک دن اپنا گھر بنائوںگا اور سب کو ساتھ رکھوں گا مگر اس دیوانی محبت نے مجھے تباہ کردیا۔لڑکی کے باپ کی شرط پر میں نے لڑکی سے بات کی ۔کہنے لگی کہ یہ کونسا مسئلہ ہے ،لوگ باہر جاتے ہیں اور پیسہ کماکر مکا ن بنالیتے ہیں تم بھی ایسا ہی کرلو ۔اتنی سی تو شرط ہے اور میں نادان اپنے ماںباپ اور بہنوں کو چھوڑ کر یہاں سعودی عرب آگیا۔وہاں میں اٹھ کر پانی تک نہیں پیتا تھا،بہنیں ناز اٹھاتی تھیں مگر جب ان کے ناز اٹھوانے کاوقت آیا تو میں انہیں دھوکہ دے آیا۔(جسونت یہ کہہ کر زاروقطار رونے لگا۔میں نے گلے لگایا ،تسلی دی )وہ پھر بولا۔ 4سال ہوگئے یہاں پر جو کمایا وہاں لڑکی کو بھیجتا رہا،میں خودغرض ہوگیا ،میں نے اپنے ماں باپ بہنوں کو چھوڑ دیا ایک لڑکی کیلئے ،ماں باپ کو پیسے بھیجنے کے بجائے لڑکی کو دیتا رہا کہ وہ جمع کرے تاکہ ہمارا مکان ہوجائے اور پھر میں اس سے شادی کرلوں،میں نے انکو چھوڑ دیا جنہوںنے میرے اچھے مستقبل کیلئے اپنا حال قربان کردیا ۔مگر 4دن پہلے مجھے ایک دوست نے بتایا کہ تمہاری راجھنی کی تو سگائی ہوگئی تھی اور آج بارات ہے۔مجھے یقین نہیں آیا میں نے اسی وقت اسے فون کیا ،بڑی دیر سے اس نے فون اٹھایا ۔ میں نے پوچھا ’’راجھنی ،کیا ہوا ،تمہاری سگائی ہوگئی؟وہ کہنے لگی ہاں میری سگائی ہوگئی اور چار دن بعد شادی ہے۔ میں نے چیختے ہوئے کہا کہ لیکن میں توتمہاری وجہ سے یہاں آیا تھا ۔اپنے ماں باپ کو چھوڑ دیا اور سارے پیسے تمہیں بھیجے کہ ہم اپنا مکان بنالیں اور ساتھ رہیں گے ۔ایک ساتھ زندگی گزاریں گے ،تم کیا کررہی ہو۔مگر راجھنی نے یہ کہہ کر فون بند کردیا ،کہ تم 4سال سے نہیں آئے میں کتنا انتظار کرتی ،اور اب بھی تمہارے پاس اتنے پیسے نہیں کہ ہمارا اچھا گزر بسر ہوسکے۔تم اپنی محنت کرو ،میں اب کچھ نہیں کرسکتی ،تمہیں اچھی لڑکی مل ہی جائے گی،راجھنی نے فون بند کردیاتھا۔میں نے پھر اسے ایک ایس ایم ایس کیا کہ تم نے مجھے دھوکہ دیا ،میں تمہیں کبھی معاف نہیں کرونگا تو معلوم ہے کہ اس کا کیا جواب آیا ،بس اس جواب نے مجھے توڑ دیااب میں کہیں نہیں جاسکتا۔ میں نے جسونت کے گلے میں ہاتھ ڈالتے ہوئے پوچھا ’’کیا جواب دیا ،مجھے بتائو ،پھر میں بتائوں گاکہ تم کیا جوا ب دو‘‘ اس نے مجھے موبائل پر ایس ایم ایس پڑھنے کو دیدیا۔ ’’میں تم سے کیسے شادی کرسکتی ہوں،جب تم اپنے ماں باپ اور بہنوں کے نہیں ہوئے تو میرے کیسے ہوسکتے ہو،جب تم اپنے سگوں کو دھوکہ دے سکتے ہو تو مجھے بھی دے سکتے ہو،تم پردیس جاکر بس گئے میرے لئے اور اپنو ں کو چھوڑ گئے میرے لئے،میں تم پر کیسے یقین کرلوں کے تم کل کسی اور کیلئے مجھے چھوڑ کر نہیںجاسکتے‘‘ میں نے جسونت سے پوچھا کہ اور وہ پیسے جو تم نے 4سال کماکر اسے بھیجے ان کا کیا ہوا ’’کیا کرونگا پیسوں کا ،میں نے توپوچھا بھی نہیں،اس نے جب مجھے دل کا دھوکہ دیا ہے تو پیسوں کا بھی دھوکہ ہی ہوگا،پوچھ کر مزید غم پالنے والی بات ہوگی۔میں تو بس یہ سوچ رہا ہوںکہ اب کس منہ سے ماں باپ کے پا س جائوں،مجھے لگتا ہے کہ اب میں کبھی بھی اپنے ملک نہیں جاپائونگا‘‘ نہیں یار ایسا نہیں،ماں باپ کا دل بہت بڑا ہوتا ہے اور بھائی تو بہنوں کا مان ہوتے ہیں،دیکھو میں تمہارا اپنا تو نہیں،بلکہ تمہارے ملک کا بھی نہیں اور ہم مذہب بھی نہیں،مگر انسانی رشتے سے بڑھ کر تو کوئی رشتہ نہیں،میں اس رشتے سے تمہارا سب کچھ ہوں ،تم میری درخواست مانو اور واپس چلے جائو،ماں باپ اور بہنوںسے معافی مانگ لینا ۔زندگی بھر دل پر بوجھ رکھ کرجینے سے بہتر ہے معافی مانگ کر معاملات ٹھیک کرلیے جائیں،ابھی کچھ نہیں بگڑا ۔

جسونت کو میں کافی حد تک راضی کرچکاتھا۔اسے اپنا کارڈ دیتے ہوئے میں اٹھ گیا اور کہا کہ جب ہند واپس جانے لگو تو مجھے ضرور بتانا۔نہیں معلوم ہے کہ وہ ہند واپس گیا کہ نہیں کیونکہ ایک سال ہوگیا اس بات کو اس کا کوئی رابطہ نہیں ہوا مجھ سے ،مگر میں نے دیکھا کہ پردیس میں یہ الگ طرح کا بھی ایک غم ہے ،جو اس صورت میں میرے سامنے آیا۔

******

شیئر: