Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لیڈی ڈیانا کی زندگی بچانے کے لیے کیا کوششیں کی گئیں؟

ڈاکٹر کے مطابق ایکسرے میں نظر آیا کہ شہزادی کے جسم کے اندر خون بہہ رہا ہے (فوٹو اے ایف پی)
شہزادی ڈیانا کی کار حادثے کے بعد ہسپتال میں موجود ڈیوٹی ڈاکٹر نے پہلی مرتبہ میڈیا کو بتایا ہے کہ ان کی ٹیم نے کس طرح شہزادی کی زندگی بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔
برطانوی اخبار ڈیلی میل کے مطابق حادثے کی رات ڈاکٹر مونصف دہمن کی عمر 33 برس تھی اور وہ ایک نوجوان سرجن کے طور ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے۔
وہ حادثے سے ایک دن پہلے صبح آٹھ بجے سے ڈیوٹی پر تھے اور انہیں 31 اگست 1997کی صبح اے اینڈ ای ڈیپارٹمنٹ میں ایک ’نوجوان خاتون‘ کا علاج کرنے کے لیے بلایا گیا۔
56 سالہ ڈاکٹر نے بتایا کہ ’میں ڈیوٹی میں آرام کر رہا تھا جب سینیئر اینستھیزیاسٹ برونو ریو نے کال کرکے ایمرجنسی میں آنے کا کہا۔ مجھے یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ لیڈی ڈیانا ہیں، بس یہی کہا گیا کہ نوجوان خاتون کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔‘
’ہسپتال کی انتظامیہ بھاگ دوڑ کر رہی تھی۔ جب آپ کو ایک سینیئر کال کرے تو اس کا مطلب ہے کہ کیس سیریس ہے۔‘
ڈاکٹر مونصف دہمن نے کہا کہ جب وہ کچھ دیر کے بعد اے اینڈ ای ڈیپارٹمنٹ پہنچے تو معاملے کی نزاکت کا اندازہ ہوا۔ ان کا ڈیوٹی روم ایمرجنسی سے صرف 50 میٹر دور تھا۔
انہوں نے کہا کہ برونو ریو سٹریچر پر پڑی خاتون کی خود کیئر کر رہے تھے۔ اس وقت انہیں بتایا گیا کہ وہ لیڈی ڈیانا ہیں۔ ’میرے سامنے سب کچھ واضح ہوگیا۔‘
کسی بھی ڈاکٹر یا سرجن کے لیے کسی نوجوان خاتون کا اس حالت میں علاج کرنا بہت اہم ہوتا ہے، اور خصوصاً اگر وہ شہزادی ہو۔‘
ان کے مطابق ایکسرے میں نظر آیا کہ شہزادی کے جسم کے اندر خون بہہ رہا ہے اور ان کے پھیپھڑوں میں موجود خلا سے مادے کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کیا گیا۔
36 سالہ لیڈی ڈیانا کو رات سوا دو بجے دل کا رودہ پڑا جس کے بعد ڈاکٹروں نے بیرونی طور پر دل کا مساج کیا ایمرجنسی سرجری کی۔

فرانس کے ایک نامور ہارٹ سرجن الاین پاوی کو لیڈی ڈیانا کی زندگی بچانے کے لیے جگایا گیا (فوٹو رائل ٹی وی سوسائٹی)

’میں نے ایسا اس لیے کیا تاکہ ان کا سانس بحال ہوسکے۔ ان کا دل درست طریقے سے کام نہیں کر رہا تھا کیونکہ اس میں خون نہیں جا رہا تھا۔
فرانس کے ایک نامور ہارٹ سرجن الاین پاوی کو لیڈی ڈیانا کی زندگی بچانے کے لیے جگایا گیا اور انہیں آپریشن تھیٹر منتقل کیا گیا۔
انہیں شک تھا کہ ٹیم نے اندر خون بہنے کی تفصیلات اکٹھی نہیں کی ہیں لہذا انہوں نے یہ جاننے کے لیے ایک اور سرجری کی۔
اس کے بعد معلوم ہوا کہ ان کے دل کے ساتھ موجود رگ پھٹ چکی تھی۔ ڈاکٹر نے رگ کو سینے کی کوشش کی۔ لیکن ان کی دل کی دھڑکن رک چکی تھی۔
’ہم نے کئی مرتبہ الیکٹرک شاکس دیے۔ ڈاکٹر ریو نے ایڈرنالین دی، لیکن ان کے دل کی دھڑکن بحال نہ ہو سکی۔‘
ڈاکٹر مونصف دہمن نے کہا کہ ’ٹیم نے ایک گھنٹے تک کوشش کی۔ ہم نے بہت کوشش کی۔ جب آپ اس طرح کا کام کر رہے ہوتے ہیں تو آپ کو وقت کا احساس نہیں ہوتا۔‘
انہوں نے کہا کہ اس رات پیش آنے والے واقعے کے حوالے سے اب خاموشی توڑنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو معلوم ہوکہ میڈیکل سٹاف نے ان کی زندگی بچانے کے لیے کتنی کوشش کی۔

شیئر: