Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اور کہانی ختم ہوگئی

ممتاز شیریں .... دوحہ قطر
کہانی کتنی مختصر ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔!!! ابھی شروع ،ابھی ختم۔۔۔۔۔۔۔! اور اگر یہ کہانی زندگی کی ہو تو اور بھی مختصر ہو جاتی ہے۔۔۔! آپ یہ خیال نہیں کیجئے گا کہ میں آپ کو کو ئی فلسفہ بیان کرنے جا رہا ہوں۔۔۔۔۔۔! نہیں۔۔۔۔۔۔۔بلکہ میں تو آپ کو سب سے سچی اور تلخ حقیقت بتانے جا رہا ہوں۔۔۔۔۔۔!! ٹہر یئے۔۔۔۔۔۔!!! آپ ایسے نہیں سمجھ پائیں گے ! پہلے میں آپکو اپنا تعارف کروا دوں۔۔۔۔! میرا نام قطب بیگ ہے۔۔۔۔۔کیا کہا نام سنا ہوا ہے---؟ جی ہاں۔۔۔۔۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ زندگی کی کہانی کے سب نام شناسا اور چہرے ایک سے ہوتے ہیں۔۔۔۔بس وقت کی دھول میں بہت جلد ہماری یادداشت سے محو ہو جاتے ہیں۔۔۔۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ میں قطب بیگ کراچی کے ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔۔۔ ہم دو بہن بھائی تھے۔والد ایک سرکاری محکمے میں معمولی عہدے پر تھے ۔انہوں نے سخت محنت سے ہمیشہ حلال کمایا اور اسی سے ہماری پرورش کی۔ والدہ نے اپنی سلیقہ شعاری سے زندگی کی گاڑی کھینچے میں ان کی مدد کی اور یوں اگر ہم بہت اچھے حالوں میں نہیں تو بہت بدحال بھی نہیں تھے۔ میں نے اپنے لیئے انجینیئرنگ کاپیشہ چنا۔والد کو مجھ سے بہت توقعات تھیں میں بھی بہت محنت سے تعلیمی مراحل طے کر رہا تھا۔۔۔ پھر نجانے کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔کہ کسی نے مجھے بیرون ملک جانے کے سپنے دکھا دئیے اور میں اندر ہی اندر باہر جانے کے انتظامات میں لگ گیا۔ ابا کو جب علم ہوا تو انہوں نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر باہر نہ جاؤں تعلیم مکمل کر کے اس ملک میں ہی رہوں اس ملک کو بھی تعلیم یافتہ اور قابل لوگوں کی ضرورت ہے مگر میں اپنے ارادوں میں اٹل تھا۔ شائد میں ابا کی جدوجہد اور مشقت بھری محدود زندگی سے تنگ آ گیا تھا اور پھر ایک دن امی کی محبت اور ابوکی آس بھری نظروں سے نگاہیں چرائے میں عازم سفر ہو گیا۔ جی ہاں اس نگری میں آگیا جس کے ڈھول دور سے ہی سہانے ہوتے ہیں جو ہم جیسے نادانوں کو سونے کی وادی نظرآتی ہے اس نگری میں آنے کے بعد معلوم ہوا کہ یہاں کو ئی کسی کا نہیں۔۔۔۔۔ اور ہوتا بھی کیسے۔۔۔۔سب ہم جیسے ہی مجبور اور لاچار۔۔۔کو ئی حالات کا مارا کو ئی غربت کے ہاتھوں تنگ ،کو ئی ماں باپ کو منتظر چھوڑ کر آیا اور کو ئی بیوی بچوں کے اچھے مستقبل کی خاطر یہ بن باس لیے آیا۔۔۔۔ میں آزاد ویزے پر آیا تھا لہٰذا اب تک اِدھر اْدھر نوکری کی تلاش میں بھاگتے ہی دن گزر رہے تھے۔۔۔اب یہاں آکر معلوم ہوا کہ خلیج میں کام کرنے والا مزدور طبقہ آزادی سے مکمل محروم ہوتا ہے۔ ویزہ کسی اور کام کے نام سے آتا ہے اور وہاں جانے کے بعد کسی اور کام پر لگا دیا جاتا ہے۔ پاسپورٹ کفیل کے پاس جمع ہوتا ہے جب تک وہ شخص اپنی مدت پوری نہیں کر لیتا کفیل اسے کسی اور کمپنی یا کسی اور کام کی اجازت نہیں دیتا ۔بھاگنے کی صورت میں پولیس جیل میں ڈال دیتی ہے جس کی کسی کو خبر بھی نہیں ہو پاتی ہے۔ " کبھی کانٹوں کی رہگزر سے گزر کر تو دیکھو۔۔۔۔۔زندگی کیا ہے کبھی گھر سے نکل کر تو دیکھو۔۔۔۔۔۔!! 6 ماہ گزر گئے۔ کوئی ڈھنگ کی نوکری نہ مل سکی ۔باہر آنے کی چاہ میں تعلیم بھی ادھوری چھوڑ آیا تھا کبھی بیمار ہوتا تو تنہا پڑا رہتا کو ئی ساتھ دینے والا نہیںتھاچھوٹے سے کمرے کی گھٹن زدہ فضاء۔۔۔۔۔بکھری چیزیں۔۔۔میلا کمبل۔۔۔۔۔گندی چادر۔۔۔۔پھٹا پردہ۔۔۔۔باسی کھانا۔۔۔۔اور بکھری سوچیں ،منتشر دماغ۔۔۔۔۔۔۔۔اتنے پیسے بھی جیب میں نہیں تھے کہ گھر فون کر کے ماں کی آواز ہی سن لیتا۔۔۔۔۔۔! "ہم جس نگری میں رہتے ہیں پتھر گیت سناتے ہیں۔۔۔۔اتنی سرد ہوا ہے باہر آنسو تک جم جاتے ہیں۔۔۔۔۔" پاسپورٹ کفیل کے پاس اور جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی واپسی کے سارے راستے بند تھے۔۔۔ آج بھی ایک جگہ نوکری کے لیے انٹرویو دینے جانا تھا میں نے رات کی باسی روٹی کڑوی چائے کے ساتھ حلق سے اتاری۔۔۔۔۔۔ (یہ وہی میں تھا جو گھر میں ماں کے ہاتھوں کے پراٹھوں اور انڈوں کے بغیر ناشتہ نہیں کرتا تھا) بہت جلدی کے باوجود آج امی اور ابا کی یاد بار بار آکر دل کو بے چین کیے دے رہی تھی۔۔۔نہ جانے کیوں ایسا لگ رہا تھا کہ آج کچھ غیر معمولی ہونے والا ہے۔۔۔۔۔ گھر کی یادوں کے ساتھ میں اپنی مطلوبہ منزل کی طرف تیزی سے قدم بڑھانے لگا۔ یہ ایک 8 منزلہ عمارت تھی۔۔۔۔ نیچے دکانیں تھیں۔ جدید طرز کی بنی اس عمارت میں گارمنٹس سے لیکر گروسری تک ہر چیز کی شاندار چمچماتی سجی ہوئی دکانیں ،دل کو لبھاتے مناظر۔۔۔پیسے اور امارت کا منہ بولتا ثبوت۔۔۔۔ انٹرویو چھٹی منزل پر ہو رہا تھا۔۔۔ میں راستہ تلاش کرتے جب ہال میں داخل ہوا تو انٹرویو شروع ہو چکا تھا۔۔ میں نے دائیں بائیں نظر دوڑائی، کافی سارے امیدوار تھے۔۔ مایوسی پھر مجھے گھیرنے لگی۔میں دل ہی دل میں دعائیں پڑھنے لگا۔ اچانک ہر طرف سے عجیب شور اور ہنگامے کی آوازیں آنے لگیں۔۔۔۔ کیا ہوا۔۔۔۔۔۔؟کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟ کیا زلزلہ آگیا۔۔۔۔ ؟ مگر زمین تو نہیں ہلی۔۔۔۔۔۔میں نے زیر لب کہا۔۔۔ انٹرویو کے لیے آئے سارے امیدواروں میں بھگڈر مچ گئی۔ میں بھی گھبرا کر اٹھا۔ لوگ بدحواسی میں ادھر اْدھر بھاگ رہے تھے ہر طرف سے آگ آگ کی آوازیں آرہی تھیں۔ میں باہر جانے والے راستے کی طرف بڑھا لیکن وہاں لوگوں کا رش تھا معلوم ہوا کئی لوگ وہاں پھنسے ہوئے تھے درو دیوار شعلوں کے بنے دیکھا ئی دے رہے تھے۔ ہر طرف چیخ وپکار تھی۔ آگ کی حدت بڑھتی جا رہی تھی۔ اب تو سانس لینا بھی دشوار ہو رہا تھا۔ کتنے لوگ تو جلتے ہوئے شعلوں سے گزر گئے مجھے نہیں معلوم کتنوں کو ان شعلوں کی لپلپاتی آگ نے نگل لیا اور کتنے بچ گئے۔۔۔۔۔ مگر میں ہمت نہ کر سکا اب دھواں بھی بڑھتا جارہا تھا آخر راستہ نہ پا کر میں کمرے کی اکلوتی کھڑکی کی طرف آگیا اور دوسرے ہی لمحے کھڑکی کے ساتھ لگے پائپ سے لٹک گیا۔ دائیں بائیں دیکھا تو سہارے کے لیے اور کچھ نظر نہ آیا میں نے پائپ کو اور مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیا۔ موت مجھے سر پر منڈلاتی نظر آرہی تھی۔اگرمیںاس بلندی سے گروں گا تو میرا کیا بنے گا۔۔۔۔۔۔۔۔! لیکن اندر آگ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ظالم آگ۔۔۔۔۔۔۔ میں بے اختیار اللہ کو یاد کرنے لگا، مجھے لگا نیچے کافی لوگ جمع ہیں۔ ایمبولینس،شرطوں کی گاڑیاں، فائر فائٹرزسب پہنچ چکے تھے لیکن بھگڈر اتنی تھی کہ کسی کو کسی کا ہوش نہیں تھا مجھے لگا یہ لوگ مجھے بچانے کی کوشیش ضرور کریں گے۔ میرے ہاتھ اور بازو شل ہو رہے تھے میں کسی غیبی امداد کا منتظر تھا۔ اچانک فضا میں ہیلی کاپٹروں کی گڑ گڑاہٹ بھی سنائی دینے لگی۔۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔یہ ضرور مجھے بچا لیں گے۔۔۔۔۔مگر نہیں وہ تو ایک مخصوص دائرے میں گھوم رہے تھے۔۔۔۔ اوہ میرے خدا۔۔۔۔۔۔۔!!!! مایوسی کی لہر میرے اندر تک دوڑ گئی۔ اور اس لمحے میرے تصور میں میری شفیق ماں ،پیارے باپ اور جان نثار کرنے والی بہن کا چہرہ آگیا اسکی معصوم ہنسی کانوں میں گونجنے لگی۔۔۔۔۔ میری آنکھوں سے آنسو ٹپکے۔۔۔۔۔۔۔!! اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر اچانک پائپ میرے ہاتھوں سے چھوٹ گیا اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کہانی ختم ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔! دیکھا آپ نے۔۔۔۔۔۔۔۔کہانی کتنی مختصر ہوتی ہے۔۔۔۔ابھی شروع ہوئی۔۔۔۔۔ابھی ختم ہو گئی۔۔۔۔ !
٭٭٭٭٭٭

شیئر: