Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حزب اسلامی سے معاہدے میں رکاوٹ کیوں؟

 
بیل منڈھے نہیں چڑھ پائیگی، معاہدہ ٹوٹا تو افغان حکومت کی بدقسمتی ہوگی، افغانستان پر داعش کا خطرہ بھی منڈلا رہا ہے
سید شکیل احمد 
معاہدے ہو ں ، مذاکرات ہو ں یا کوئی بھی عمل ہو اس کا نیت کے اخلا ص سے ہی تعلق ہوتا ہے۔ طالبان کے ساتھ جتنے بھی مذاکرات ہوئے اس میں نیت کا ہی عمل دخل رہا چنا نچہ یہ بات چیت کسی انجا م کو نہیں پہنچی کیو ں کہ اس میں جن مقاصد کو بنیا د بنا کر مذاکر ات کا ڈول ڈالا گیا تھا اس کے لیے اخلا ص تھاہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کو جھا نسا دینا ہی مقصود تھا ۔ بعض حلقے ا س وقت حیر ت زدہ ہو ئے تھے جب اشرف غنی کی حکو مت اور حزب اسلامی کے درمیا ن مذاکر ات کی کا میا بی کا اعلا ن کیا گیا تھا اور یہ نو ید سنا ئی گئی تھی کہ حکمتیا ر اس معاہدے کے تحت جلد روپو شی کی زندگی ترک کر کے منظر عام پر آجائیں گے ، چنا نچہ افغانستان کے حالا ت پر نظر رکھنے والے تما م حلقے اس بات کے منتظر رہے کہ کب وہ منظر عام پر آئیں گے اور معاہد ے پر کب عمل شروع ہو گا ۔معاہدے میں دیگر با تو ں کے علاوہ یہ بھی شامل تھا کہ حکمتیار کو مکمل تحفظ فراہم کیا جا ئے گا اور ان کی فراہم کر دہ فہر ست کے مطا بق حزب کے قید یو ں کو غیر مشروط رہا کر دیا جا ئے گا لیکن ابھی تک ان پر عمل درآمد لٹکا ہو ا ہے ۔
    جہاں تک تحفظ کی بات ہے تو اشرف غنی حکومت کی طرف سے پیش کش ہے کہ حکمت یا ر کے تحفظ کے لیے فو ج اور پو لیس کے دستے تعینا ت کر دئیے جا ئیں گے جو حکمت یا ر کو قبول نہیں ہیں کیو ں کہ وہ خود کو اس طر ح غیر محفوظ جانتے ہیں۔ اس بارے میں حزب اسلا می کے تحفظات ہیں ۔بات بھی درست ہے کہ اشرف غنی کی حکومت اور حزب اسلا می کے نظریا ت میں بہت بُعد پا یا جا سکتا ہے چنا نچہ کل کلا ں ان کے اور حکومت کے درمیا ن ما ضی جیسے اختلا ف پید ا ہو جائیں تو حکومتی فوج اور پو لیس دستو ں کے نر غے میں خود کو کیسے محفو ظ کر پا ئیں گے علا وہ ازیں اس امر کا بھی امکا ن ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جن دستو ں کو متعین کیا جا ئے گا وہ حکمت یا ر کی سرگرمیوں پر حکومت کی ہد ایت کے مطابق نظر رکھیں گے ، جہا ں تک حزب کے کا رکنو ں کی رہا ئی کا تعلق ہے اشرف غنی کی طر ف سے ہچکچا ٹ یوں ہے کہ وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس طر ح حزب اسلا می بہت زیا دہ فعال ہو جا ئے گی ، اصل معاملہ نیت ہی کا ہے ۔
    حکومت اور حز ب اسلا می کے درمیا ن معاہد ہ طے پائے چھ ما ہ ہوگئے ہیں ، اور ہنو ز کوئی پیش رفت نظر نہیں آئی ہے۔ حزب اسلا می کے ساتھ جو معاہد ہ ہو ا تھا اس کے مطا بق تحریراًیہ طے پایا تھا کہ حکمت یا ر کی حفاظت کی ذمہ داری حزب اسلا می کے کمانڈوز انجام دیں گے ، تاہم وہ حکومت کا لائسنس یا فتہ اسلحہ استعمال کر یں گے چنا نچہ جب حکومت سے لا ئسنس کے اجر ا کاکہا گیا تو اس نے خامو شی اختیا ر کر لی ہے اس سلسلے میں یہ بات بھی شامل تھی کہ حکومت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وہ حفاظت کے لیے اپنے لو گو ں کو تربیت دے چنا نچہ حزب کی جانب سے اپنے ایسے افرا دکو تربیت دی گئی جو حکومت کو کسی بھی جر م میں مطلو ب نہیں ۔ چنا نچہ حکومت کی جانب سے سرد مہری کی بنا ءپر حکمتیا ر نے کا بل میں جلو ہ افر وز ہو نے کا فیصلہ ملتو ی کر دیا ہے اور فوری طورپر کوئی ردعمل ظاہر کرنے کی بجائے حکومت کے جو اب کا ا نتظار ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ معاہد ے کی بعض شقو ں پر بھی عمل درآمد کے بارے میں حز ب کو شکا یا ت ہیں جس کی وجہ سے اندازہ ہو رہا ہے کہ یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ پائے گی۔علا وہ ازیں معاہد ے کی ایک اہم شق میں فریقین کے قیدیو ں کی رہائی بھی ہے۔ حز ب اسلا می نے اب تک ڈھا ئی ہز ار افراد کی رہائی کی فہر ست حکومت کو دی ہے جبکہ یہ طے پایا تھا کہ ابتدائی طو رپر تقریبا ً450 سیا سی قید یو ں کو رہا کر دیا جا ئے تاکہ حزب اسلامی کے امو ر چلا نے کا آغاز ہوسکے اور جو ں ہی حزب اسلا می کے قیدی رہا کئے جا ئیں گے ساتھ ہی سرکا ری اہلکا ر و ں کو بھی رہا کر دیا جا ئے گا۔ ایک اور اہم شق یہ تھی کہ حز ب اسلا می سے تعلق رکھنے والے جو افغان مہا جر پا کستان یا کسی دوسرے ممالک میں ہیں ان کی آباد کا ری کےلئے زمین فراہم کی جا ئے تاکہ ا ن کو واپس لا یا جا سکے مگر ہر شق یخ بستہ ہے ۔
جہاں تک حزب اسلا می کا تعلق ہے وہ اب بھی افغانستان کی ایک اہم سیا سی اور عسکر ی قوت ہے،جب معاہد ہ طے پا یا تھا تو یہ ایک اہم قدم قر ارپایا تھا اور پا یا جا نا بھی چاہیے تھا ، کیونکہ طالبان کی طرح حز ب اسلا می کا بھی یہ سخت گیر موقف رہا ہے کہ افغانستان سے پہلے غیر ملکی فو جو ں کا انخلا ءہو تووہ مذاکرات کےلئے تیا رہو ں گے مگر اس مو قف کو پس وپشت ڈال کر حکمت یا ر نے اشرف غنی انتظامیہ سے مذاکر ات کئے تو اس کو حزب کی جانب سے ایک بڑی لچک قر ار دیا گیا ۔
اگر معاہدے کا جا ئز ہ لیا جائے تو یہ افغانستان کے مفاد میں ایک بہترین معاہد ہ قرار پا تا ہے ، اگر یہ ٹو ٹ جا تا ہے تو یہ افغان حکومت کی بد قسمتی ہو گی ، اس معاہد ے پر عمل درآمد نہ ہو نے کے بارے میںیہ ہی کہا جا رہا ہے کہ حکومتی حلقو ں میں ایسے عنا صر ہیں جو حزب کو قریب آنے میںروک لگا رہے ہیں ، اگر حزب اسلا می کے ساتھ معاہدہ کا میاب ہو جا تا ہے تو افغانستان پر سے غیر ملکی فوج کا تسلط بھی کمزور پڑے گا اور حکومت کی حیثیت بھی مضبو ط ہو سکے گی علا وہ ازیں افغانستان میں ایک او ر شدید خطرہ منڈلا رہا ہے جو طالبان سے بھی زیا دہ مہلک ہے اور وہ داعش کا خطرہ ہے جس کے بارے میں یہ تو یقینی ہے کہ ان کو افغانستان میں بیر ونی قوتو ں نے طالبان کا زور تو ڑنے کی غرض سے درآمد کیا۔ اب وہ کا فی حد تک افغانستان میں جڑ پکڑ چکے ہیں ، اور مزید پھیلتے جا رہے ہیں ۔ ایسا محسو س کیا جا رہا ہے کہ داعش کو نہ صرف افغانستان میں طالبان کے خلا ف استعمال کر نے کی منصوبہ بندی ہے بلکہ افغانستان کے آس پڑوس میں بھی ا ن کا پھیلاو مقصود ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ علا قائی اقتصادی کو نسل ، اور دیگر سیا سی عوامل کی وجہ سے ون ورلڈ آرڈ کی مٹی پلید ہو تی نظر آرہی ہے۔ مفاد کی اس جنگ میں افغانستان کو ما ضی کی طر ح قربانی کا بکر ا بنا یا جا رہا ہے ۔
٭٭٭٭٭٭

شیئر: