Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مارننگ شوزوالے نسخے، سنیاسی باوابھی نہیں جانتا

 
 ایک عام آدمی سے لے کر اعلیٰ سے اعلیٰ عہدے پر فائز فرد کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ کسی طرح اپنی تعریف کروائی جائے ، اس کےلئے وہ بے تحاشا دولت بھی خرچ کر ڈالتے ہیں
 
عنبرین فیض احمد ۔۔ ریاض
 
ذرا سوچئے کہ زندگی کے ہر موڑ پرہم جو بھی قدم اٹھاتے ہیں اس میں خود نمائی کاعنصر کتنی شدت سے کارفرما ہوتا ہے ۔ہمارے ہر کام کی تان آخر کار خود نمائی پر ہی ٹوٹتی ہے۔ اکثر لوگ اسی تاک میں رہتے ہیں کہ کس طرح لوگوں کے سامنے اپنی تعریف بیان کی جائے اور ان سے دادو تحسین کیسے وصول کی جائے۔ ایک عام آدمی سے لے کر اعلیٰ سے اعلیٰ عہدے پر فائز فرد کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ کسی طرح اپنی تعریف کروائی جائے ۔ اس کے لئے وہ بے تحاشا دولت بھی خرچ کر ڈالتے ہیں۔ ہمارے اکثر سیاستداں ایسے ہیں جو یہ سب حاصل کرنے کیلئے اربوں روپے جھونک دیتے ہیں ۔ وضع وضع کے بیانات دیتے ہیں جن سے متاثر ہو کر عوام تھوڑی دیر کیلئے ہی سہی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ شاید نیا ملک وجود میں آنے والا ہے جو بالکل ہمارے خوابوں جیسا ہوگالیکن جیسے ہی یہ افراد اسمبلی میں آتے ہیں ، پھر وہی پرانی روش پر چل پڑتے ہیں ۔ ساری امیدوں پر پانی پھر جاتا ہے اور پھر ساری باتیں سمجھ میں آجاتی ہیں کہ یہ تو خودنمائی ہورہی تھی، راتوں رات شہرت حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔
عوام بھی کتنے بھولے اور معصوم ہوتے ہیں کہ ان کی عقل میں کوئی بات ہی نہیں آتی۔ ہمارے کتنے ہی سیاستدان ایسے ہیں جو عوام کے ووٹوں کے سہارے اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں اور وہاں جا کر عوام کی فلاح و بہبود کی کوشش تو دور کی بات ، اس کا مفہوم ہی بھول جاتے ہیں۔ 
ماضی میں لوگ اتنے سادہ لوح ہوا کرتے تھے کہ بڑے بڑے کارنامے انجام دینے کے باوجود لفظ خود نمائی ان کی لغت میں ہی نہیں ہوتا تھا مگر آج حالت یہ ہے کہ خود کو لیڈر کہلانے کے خواہشمند کوئی کارنامہ انجام دےں یا نہ دےں، وہ راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر براجمان ہونا چاہتے ہیں۔ ذرا ملاحظہ فرمایئے کہ کوئی ڈاکٹر ہو یا نہ ہو مگر ٹی وی کے مارننگ شوز میں آکر ایسے ایسے نسخے بتاتے ہیں کہ کوئی 70سالہ سنیاسی باوا بھی نہیں جانتا۔ ہر مسئلے کا حل ان کے پاس موجود ہوتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ہر مسئلہ منٹوں میں حل ہوجائے گا مگر معلوم نہیں مسئلہ ہوتا بھی ہے یا نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ خود نمائی اور دکھاوا معاشرے کی وہ بیماری ہے جو ملک کی جڑوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ 
نمود و نمائش اور دکھاوے کے اس کھیل میں سب سے پہلی مثال شادی بیاہ ہے۔ فضول رسموں کی وجہ سے قرض چکاتے چکاتے مقروض کی کمر دہری ہوجاتی ہے۔ اوپر سے آدھا خاندان راضی ہوتا ہے تو آدھا ناراض۔ ان کی ناراضی دور کرنے کیلئے کیا کچھ نہیں کرنا پڑتا۔کیسے کیسے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔بڑی باجی صاحبہ کے الگ نخرے ، وہ مان گئیں تو چھوٹی آپا بھی ان سے کچھ کم نہیں۔ انہوں نے بھی اپنے تیور دکھا دیئے۔ شادی بیاہ کے موقعوں پر ناراض رشتہ دار بھی بہت بھاری پڑ جاتے ہیں۔ کیا امیر ، کیا غریب، کیا دور اور کیا قریب، سب رشتہ دار کسی نہ کسی حد تک ضرور متاثر ہوتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ کسی نے اپنی سخاوت اور دریا دلی کو دکھاوے کا روپ دیا تو کس نے اپنی غربت کو مصنوعی دکھاوے کی بھینٹ چڑھا دیا۔یہاں تک کہ لوگوں نے موت کو بھی دکھاوے کی نذر کردیا۔ 
وطن عزیز میں کسی کے انتقال کی خبر ملی تو فوراً ان کے گھر جاپہنچے۔ یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے کہ ساری خواتین سفید کپڑوں میں ملبوس تھیں۔ہم سمجھے کہ شاید غلط گھر میں داخل ہوگئے ہیں لیکن بعد میں پتہ چلا کہ گھر تویہی ہے لیکن آجکل میت والے گھر میں سفید اور سیاہ رنگ کا لباس پہننا ہی ”اِن“ ہے ۔ اس کا مقصد ماحول میں سوگواری کو برقرار رکھنے کی کوشش ہے۔
دکھاوے کے لئے بھی قدم قدم پرپیسوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ہمارے معاشرے میں کسی گھر میں ایک کی شادی ہوتی ہے اور باقی گھر والوں کی بربادی شروع ہوجاتی ہے۔شادی میں 6،7 طرح کی رسمیں ہوتی ہیں مثلاً مہندی، مایوں، نکاح، بارات، ولیمہ، چوتھی، اتنی رساری رسومات اوراس پر طرہ یہ کہ ہر رسم کیلئے الگ الگ جوڑے سلوائے جاتے ہیں۔ دولہا، دلہن کے لئے لاکھوں روپے کا عروسی جوڑا استعمال ہوتا ہے جو صرف ایک مرتبہ استعمال ہوتا ہے پھر آنے والی نسل جب جوانی کی دہلیز پر پہنچتی ہے تووہ عروسی جوڑا الماری سے نکالا جاتا ہے مگر افسوس کہ اس وقت فیشن تبدیل ہوچکا ہوتا ہے لہٰذا وہ نسل بھی اسے پہننے سے انکار کردیتی ہے پھر چار و ناچار اسے ”اجتماعی شادیاں“ کرانے والے کسی خیراتی ادارے کی نذر کردیا جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ وہ کسی خوفناک اژدھے کی طرح عوام کو نگلنے کے لئے تیار ہے مگر بازاروں میں جا کر دیکھیں تو رش کا یہ حال ہے کہ دیکھ کرلگتا ہے ہم نے کسی لُنڈابازار کا رخ کرلیا ہے ۔آج کل تو برانڈر کی ایسی وبا چل پڑی ہے کہ ہر کوئی اسی کے چکر میں رہتا ہے۔برانڈز کا سلسلہ بھی اسٹیٹس سمبل بن چکا ہے۔ ان برانڈز کے متعارف ہونے سے پہلے ہی ان کی بکنگ شروع ہوجاتی ہے ۔یوں لگتا ہے کہ کسی بلڈرز آفس میں فلیٹ وغیرہ کی بکنگ ہورہی ہے ۔ الغرض ہر شخص برانڈ ناموں کی دوڑ میں ہی مگن دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے ہاں کی اکثر خواتین ان برانڈز کا چلتا پھرتا اشتہار دکھائی دیتی ہیں۔ یوں ہر فرد اپنے معیار کو بلند کرنے کے چکر میں دبلا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔بعض اوقات دکھاوا مہنگا بھی پڑ جاتا ہے جب آپ کس پر اپنی دولت کا رعب جمانے کیلئے خاص برانڈ کے پرس اورجیولری وغیرہ لے کر گھر سے نکلتی ہیں تو راستے میں وہ سب کچھ چور، ڈاکو چھین لیتے ہیں ۔
آج کے دور کا موزانہ اگر ماضی سے کریں تو زمین و آسمان کا فر ق نظر آتا ہے۔ ماضی میں خواتین ایک یا دو جوڑوں میں ساری زندگی گزار دیتی تھیں۔ انہیں اپنے سے زیادہ گھر اوربچوں کی فکر ہوا کرتی تھی مگر اب اگر آپ کے پاس کوئی نیا جوڑا نہیں تو پڑوسی سے مانگ لیتے ہیں۔ ایک محفل میں پہنے گئے لباس کوکسی دوسری محفل میں پہننا اپنی شان کیخلاف سمجھاجاتا ہے۔ مانا کہ اچھے لباس ہماری شخصیت کی عکاسی کرتے ہیں ،اس سے نکھار بھی پیدا ہوتا ہے مگر یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ خوبصورتی صرف لباس او رمیک اپ میں ہی پوشیدہ نہیں بلکہ اپنی باطنی خوبصورتی کو بھی اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ اصل خوبصورتی سادگی میں ہے ۔
گئے وقتوں میں خود نمائی ایک وباءقرار دی جاتی تھی مگراب تویہ ایک مہلک بیماری میں تبدیل ہوچکی ہے جس نے سارے عالم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ کسی کے اچھے کردار کی تعریف کرنا یا کسی کے اچھے اوصاف بیان کرنا اعلیٰ ظرفی میں شمار ہوتا ہے مگر آج کے دور میں اگر کسی سے اپنا کام نکلوانا ہو تو اس کی جھوٹی تعریفوں کے پُل باندھے جاتے ہیں تاکہ وہ خوش ہوجائے اور اپنا کام نکل جائے۔ ایسا شخص اپنے آپ کو زمانے بھر کا عقلمند تصور کرتا ہے حالانکہ اس سے تو انسان کی کم ظرفی ظاہر ہوتی ہے لیکن کیا کیا جائے چلن ہی کچھ ایسا ہوچکا ہے۔
 
******

شیئر: