Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یہ پستی

محمد مبشر انوار
 
پاکستان کا سیاسی افق ہنوز اینٹوں سے اینٹیں بجانے ،پانامہ مقدمے ،دھرنے بازیوں او رسانڈوں بھینسوں کے غبار میں ڈوبا ہوا تھا کہ ایسے میں ایک اور بھونچال نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ امریکہ میں بیٹھے سابق سفیر کے بیان نے سیاسی افق میں مزید ہلچل برپا کر دی اور جان بخشی کے متمنی سابق صدر آصف علی زرداری کیلئے مزید مشکلات کھڑی کر دی۔ حسین حقانی ،اپنی جہدِ مسلسل اور خداداد صلاحیتیوں کے بل بوتے پر(جو مہاجروں کی اصل پہچان ہے)،غربت اور بیچارگی سے کہیں آگے نکل کر ایسے مدار میں جا پہنچے ہیں جہاں ان کی صلاحیتیں کسی کیلئے بھی ہمہ وقت میسر رہتی ہیں۔ انہوں نے اپنی مہارت کو جس طرح استعمال کیا،وہ اپنی مثال آپ ہے۔ان کی تمام تر خدمات چڑھتے سورج کیلئے رہی ہیں اور اپنی خدمات کے عوضانے میں جو کچھ انہوں نے حاصل کیا وہ بھی ان کا حق فائق تسلیم کیا جانا چاہئے کہ یہی سکہ رائج الوقت ہے۔ 
 
ان کے حالیہ بیان کو مختلف مکتبہ ہائے فکر کے لوگ اپنے زاویۂ نظر اور اپنی سہولت کے مطابق ہی دیکھ رہے ہیں لیکن ایک بات حقیقت ہے کہ حسین حقانی کا امریکہ میں بیٹھ کر دیا جانے والا یہ بیان یکجہتی ہرگز نہیں بلکہ اس کی مختلف پرتیں وقت کیساتھ ساتھ کھلیں گی اور یار لوگوں کو احساس ہو گا کہ ایسے بیان کے مضمرات کیا کیا اور کہاں کہاں پاکستان کے مفادات کو براہ راست اور بالواسطہ ٹھیس پہنچائیں گے۔ 
 
فی الوقت میں کوشش کروں گا کہ اسکے صرف ایک رخ پر اپنی معروضات پیش کروں کہ اس بیان کا پاکستان کے استحکام اور سالمیت پر اثر کس طرح ممکن ہے اور یہ بیان کیسے پاکستان کے مفادات کو زک پہنچا سکتا ہے۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان مخالف قوتیں کسی صورت پاکستان کو مستحکم دیکھنا چاہتی ہیں اور نہ  اس کی سالمیت کو مضبوط دیکھنا گوارا کرتی ہیں۔اس پس منظر کو ذہن میں رکھیں تو داخلی سیاست میں اس وقت پیپلز پارٹی اپنی سی کوشش میں ہے کہ کسی طرح دوبارہ پنجاب میں اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت ،اپنا ووٹ بینک حاصل کر سکے۔ گو کہ یہ کوششیں نیم دلانہ ہیں مگر کسی طور موجود ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ وفاقی سطح پر صرف وہی سیاسی جماعت حکومت تشکیل دے سکتی ہے جسے پنجاب میں واضح اکثریت حاصل ہو۔ایسی صورت میں مسلم لیگ ن کے پاس یہ بہت بڑا پلس پوائنٹ ہے کہ پنجاب کی اکثریت آج بھی مسلم لیگ ن کے ساتھ ہے۔اس کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں،ان کی وضاحت بارہا اپنی تحریروں میں کر چکا ہوں۔ تیسری طرف پی ٹی آئی ہے جو پیپلز پارٹی کے عدم موجودگی میں پنجاب کا خلاء پر کرنے میں بری طرح ناکام رہی کہ اسے سیاسی حرکیات اور سیاسی حربوں سے واقفیت ہی نہیں ۔ اس پس منظر میں نہ جانے کیوں ایسی کسی بھی چال پر دِل انجانے اندیشوں سے بھر جاتا ہے اور اغیار کے ان منصوبوں سے خوفزدہ ہوجاتا ہے جو انہوں نے پاکستان کے حصے بخرے کرنے کیلئے اپنے’’ پلان 2025‘‘ کا حصہ بنا رکھے ہیں۔اللہ کرے کہ میرے یہ خدشات صرف خدشات ہی رہیں اور اللہ رب العزت اپنے منصوبوں سے دشمنان پاکستان کے ان منصوبوں کو ناکام کرے، آمین۔
 
اللہ سے تو ہمیشہ یہی دعا رہی ہے کہ اللہ رب العزت ہمارے پیارے گھر پاکستان کو تا قیامت محفوظ رکھے، اس اشرافیہ کے شر سے بھی محفوظ رکھے جو ان اغیار کے ہاتھوں آلۂ کار بن کر اس آشیانے کو جلانے میں ممدومعاون بنتی ہے لیکن حسین حقانی کے اس بیان سے بہت چہروںسے نقاب اترے ہیں جو کہنے کو پاکستان کے خیر خواہ مگر درونِ خانہ اقتدار کے اندھے پجاری اور ہوس اقتدار میں کسی بھی حد سے گزر جانے والوں کے انجام سے بے خبر اندھا دھند اسی پگڈنڈی پر بگٹٹ دوڑے چلے جاتے ہیں۔
 
 حیرت تو اس وقت ہوتی ہے جب محافظین پاکستان بھی ایسی غفلت پر سوئے نظر آتے ہیںجن کے متعلق سیاستدان بالعموم یہ واویلا کرتے رہتے ہیں کہ ہم مخصوص شعبہ جات میں اختیار سے محروم ہیں اور ہمیں ہر صورت ان احکامات(غیر اعلانیہ)کی بجا آوری کرنا ہوتی ہے جس کا حکم مقتدرہ سے آتا ہے یا وہ معاملات جن پر مقتدرہ کا براہ راست کنٹرول ہے۔ 
 
حسین حقانی کے تازہ بیان کے بعد یہ کہا جارہا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل کیانی اور آئی ایس آئی کے ڈی جی جنرل شجاع پاشا نے اس معاملے میں دخل اندازی کرتے ہوئے ایسے کئی ویزوںکا اجراء رکوایا تو دوسری طرف یہ چہ میگوئیاں بھی زبان زد عام ہیں کہ ایسے ویزے رکھنے والوں کیلئے پاکستان کے ہوائی اڈوں پر نافذ العمل قوانین کی دھجیاں بھی بری طرح بکھیری گئی اور ان کیلئے عام امیگریشن سے ہٹ کر انتظامات کئے جاتے رہے،جہاں سے وہ بغیر اندراج کرائے اپنے اڈوں کی طرف روانہ ہوتے رہے۔ کیا اس سے یہ مراد لی جائے کہ یہ عمل دونوں فریقین کی مرضی کے مطابق ہوتا رہا اور کسی نے بھی کما حقہ پاکستانی مفادات کے تحفظ کا خیال نہیں کیا؟علاوہ ازیں نئے امریکی سفارت خانے کے حوالے سے جو خبریں زیر گردش ہیں،ان کی تفصیلات بذات خود نہ صرف ہولناک ہیں بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ’’پلان 2025‘‘کے عمل درآمد کی زمین ہموار کی جا رہی ہے۔ اپنی پلاننگ کے عین مطابق مناسب وقت پر پاکستان کے اندر سے اس پر کاری وار کیا جائے اور اپنے مذموم مقاصد کی بار آوری کی جائے،خاکم بدہن۔
 
قیادت کے مروجہ و مسلمہ اصولوں کے مطابق سب سے زیادہ اہمیت اخلاقی ساکھ کی ہے،جو بد قسمتی سے پاکستان کے اولین حکمرانوں کے ساتھ ہی رخصت ہوئی،بعد ازاں تو جس طرف دیکھیں فقط آرزوئے اقتدار ہی نظر آتی ہے۔ میثاق جمہوریت،جسے ہم جیسے دیوانے ملکی تعمیر وترقی میں اک نیا خواب سمجھ رہے تھے ،کی حقیقت اس سے زیادہ اور کیا ہے کہ اس کے ضامنوں میں کونڈالیزا رائس اور مارک لائل گرانٹ جیسے قوم پرست ہیں جنہیں صرف اپنی اپنی ریاست کا مفاد عزیز ہے،ان کی بلا سے پاکستان کا کون حکمران بنتا ہے یا کون نہیں،کون زندہ رہتا ہے یا کون مرتا ہے،انہیں اس کی چنداں کوئی فکر نہیں۔ فکر ہے تو بس اتنی کہ ان کی حکومتوں نے ان کے ذمہ جو کام لگائے،وہ انہوں نے اپنی بہترین صلاحیتیوں کے مطابق ریاستی مفادات کے تحت ادا کئے یا نہیں؟انہیں اس سے بھی کوئی غرض نہیں کہ میثاق جمہوریت پر دستخط کرنیوالی ایک بڑی سیاسی شخصیت ،جب طے کردہ منصوبوں سے باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے تو اسے سرعام گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے کہ اس کا متبادل ان کی جیب میں ہے۔ حسین حقانی اس وقت امریکی شہری ہیں اور یقینی طور پر ان کا موجودہ بیان صرف پاکستانی اشرافیہ کو بے نقاب کرنا یا ان کی اوقات دکھانا نہیں بلکہ اس کے پیچھے ان کی اپنے ’’ملک‘‘ سے وفاداری اور اس سے متعلقہ مفادات کا تحفظ رہا ہوگا۔کہاں پاکستان کے اولین حکمرانوں کے سامنے امریکہ و برطانیہ کے صدور و شہنشاہ جھک کر ملا کرتے تھے ،کہاں ہمارے ملک کے حکمران ان طاقتوں کی آنکھوں میں کانٹا تھے۔جرأتِ رندانہ ایسی کہ ان طاقتوں کے حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کیا کرتے اور کہاں یہ نوبت کہ اقتدار تک رسائی کی خاطر ملکی دفاع کے اثاثوں سے دستبرداری بھی قبول۔بھٹو کا داماد بن کر انسان بھٹو نہیں بنتا بلکہ کردار و اخلاقی ساکھ کسی کو بھٹو کے مرتبے کا قائد بناتی ہے؟اس سے زیادہ پستی اور کیا ہو گی!!!
 
 
 
 
 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں