Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جوتا خوری

شہزاد اعظم
ہمیں تو سونے جاگنے، رونے ہنسنے، پڑھنے اور اسکول سے بھاگنے، لڑنے اور دوستی کرنے، الزام تھوپنے اور الزام سہنے،برا بھلا کہنے اور سننے ، چیخنے چلانے اور چپ سادھنے میں پہلی اور تیسری دنیا کاتفاوت اندر ہی اندر کھائے جاتا ہے۔حقیقتت یہ ہے کہ پہلی دنیا والے اپنے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے نئی نئی ایجادات کے ذریعے زندگی کو آسان سے آسان تر بناتے چلے جا رہے ہیں اور ہم اپنے مسائل کا استعمال کر تے ہوئے دقیانوسی اطوار کے ذریعے زندگی کو مشکل سے مشکل تر بنائے چلے جا رہے ہیں۔ذرا غور فرمائیے، ہمیں کسی کی پروا کرنے کا وقت ہی نہیں ملتا کیونکہ ہمیں اپنے حقوق کی جنگ سے ہی فرصت نہیں ۔اسی لئے ہم آئے دن احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔اب ذرا اُن لوگوں کو دیکھئے۔انہیں اپنے حقوق تو حد سے زیادہ ہی مل گئے اس لئے انہوں نے جانوروں کے حقوق کے لئے عالمگیر پیمانے پر جدوجہد شروع کر رکھی ہے۔حقوق حیوانات کی بازیابی کے لئے وہ لوگ ہماری طرح ”احتجاج“ نہیں کرتے بلکہ ”مظاہرہ“ کرتے ہیں۔ اب آپ سوچیں گے کہ احتجاج اور مظاہرے میں کیا فرق ہے؟ عرض ہے کہ احتجاج کو سن لینا ہی کافی ہوتا ہے مگر مظاہرے کو دیکھے بغیر سکون نہیں ملتا۔اسی لئے جس مقام پر احتجاج ہو رہا ہو، لوگ وہاں سے دور بھاگتے ہیں مگر جہاں مظاہرہ ہو رہا ہو،لوگ اس مقام کا پتا پوچھ کراس جانب سرپٹ دوڑتے نظر آتے ہیں۔
پہلی دنیا والوں نے اپنے وسائل استعمال کرتے ہوئے کیلکولیٹر کی شکل میں کمپیوٹر کی دنیامیں قدم رکھا پھر انٹر نیٹ بنایا،ای میل عام کی،پھر ویب کیم سامنے لائے، پھر لیپ ٹاپ متعارف کرایااور دنیا کوعملاً ”گلوبل ولیج“بنا ڈالا۔آج صورت حال یہ ہے کہ آپ 10ہزار میل دور بیٹھی شخصیت سے دل کی باتیںتمامتر رازداری کے ساتھ کر سکتے ہیں۔آپ کی اس ملاقات کے بالمشافہ کی منزل تک پہنچنے میں اگرکوئی شے حائل ہوتی ہے تو وہ شیشے کی اسکرین ہے مگرہم جیسے تیسری دنیا والے یہ سوچ کر بغلیں بجانے میں مگن ہیں کہ جو ماہرین ہزاروں میل کی مسافت جیسی رکاوٹ دور کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیںان کے لئے اسکرین جیسی نازک رکاوٹ دور کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔وہ دن دور نہیں جب ہم انٹرنیٹ یا لیپ ٹاپ کے ذریعے ”بالمشافہ“ ملاقات کے قابل ہوجائیں گے۔
دوسری طرف ہم ہیں جواپنے مسائل کے ذریعے قدیم ترین ایجاد ”جوتے“ کے جدید تر استعمال کے انداز ایجاد کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے ”بڑوں“ نے جوتے کو پاﺅں میں پہننے کے لئے بنایا تھا مگر ہم نے ”ترقی“ کرتے کرتے اسے زندگی کے انگنت شعبوں میں استعمال کے قابل بنا لیامثلاً جوتا چھپانا، جوتا چلانا، جوتا پڑنا، جوتا برسنا، جوتا دینااور جوتا سرپر ٹوٹناوغیرہ۔اس میں خواتین کی برابری کا پورا پورا خیال رکھا گیا بلکہ ان کو کچھ زیادہ ہی حصہ مل گیا مثلاًجوتی پر کاجل پاڑنا،جوتی پر مارنا، جوتی خورا، جوتی سے، جوتی کو غرض پڑی ہے، جوتی کاری، جوتی کے برابر نہ سمجھنا، جوتی کی نوک پر مارنا، جوتی پہ جوتی چڑھنا اور تو اورجوتیاں بغل میں دبانا،جوتیاں توڑنا، جوتیاں چٹخارنا، جوتیاںسیدھی کرنا، جوتیاں سر پر رکھناجوتیوں میں دال بٹنا، جوتیوں میں بیٹھنا، جوتیوں سمیت آنکھوں میں گھسنااور جوتیوں میں ڈال دینا وغیرہ۔تیسری دنیا والوںنے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ جوتے کے استعمال کا نیا انداز”جوتاماری“ ایجاد کیا اور پھر پہلی دنیا والوں کو اس سے استفادے کا ”اعزاز“ بخشا۔امریکہ کے سابق صدر کو جوتا پڑنے کے بعد تیسری دنیا کی یہ ایجاد کافی مقبول ہوئی چنانچہ چین کے صدر بھی جوتا ماری کی زد میں آئے۔اس کے بعد ہندوستانی رہنما چدمبرم پر جوتا پاشی کی گئی جس کے بعد اس ”جوتا ماری“کے حوالے سے شکوک و شبہات نے جنم لینا شروع کر دیا۔ان شبہات کو اس وقت اور بھی تقویت ملی جب کانگریس کے نوین جنڈال پر جوتا پھینکا گیا۔پھر یہ شبہ یقین میں بدلتا گیا کہ بعض گمنام سیاستدانوں نے تشہیری اخراجات کئے بغیر ہی مشتہر ہونے کے لئے ”جوتا خوری“ کا وتیرہ اپنا لیا ہے۔اپنے جلسے میں کسی کو سو پچاس روپے دیکر کہہ دیا کہ بھائی صاحب!ایک جوتا میری جانب پھینک دینا۔اس نے جوتا پھینکا اور آپ ذرائع ابلاغ میں ”بریکنگ نیوز“ کے ہیرو بن کر زباں زدِ عام ہوگئے۔یہ ہے تیسری دنیا کی سیاست۔گزشتہ دنوں پاکستان کے ”منہ زور عوامی رہنما“ پر بھی ایک مخبوط نے جوتا دے مارا تھا۔
نجانے کیوں یہاں دل کی حقیقی بھڑاس نکالنے کو ہماراجی چاہ رہا ہے۔یہ منظوم مشورہ ایک گمنام سیاستداں کیلئے ہے جو لاکھ کوششوں کے باوجود مقبول نہ ہو سکا:
گر سر پہ تر ے کوئی بھی الزام نہ ہوگا
دنیائے سیاست میں ترا نام نہ ہوگا
ٹی وی پہ مباحث کرے یا چرب زبانی
اونچا کبھی لوٹوں میں ترا دام نہ ہوگا
جلسے میں اگر تجھ پہ کوئی پھینک دے جوتا
شہرت میں ترا پھر کوئی ہم گام نہ ہوگا
مانا یہ ہے توہین مگر یہ بھی تو سچ ہے
”بدنام اگرہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟“
******

شیئر: