Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہدایت کی اتباع، خوف اور غم سے عافیت

 اللہ تعالیٰ صدقات کو نشو نما دیتا ہے، اس پر اجر کئی گنا عطا فرماتا ہے اور صدقہ کرنے والے کوخوف اور رنج سے چھٹکارا عطا فرماتاہے

  
ڈاکٹر سید فرحت حسین۔نینی تال، ہند
 
قرآن مجید میں ایک درجن مقامات پر ’’لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون‘‘ آیا ہے، یعنی ’’نہ انہیں کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے‘‘۔
 
 اس سے مراد دنیا اور آخرت کی کامیابی ہے خصوصاًنجاتِ اخروی کا حصول ہے۔دنیا اور آخرت کی کامیابی کے لئے قرآن میں فلاح ، فوز، نجات ، خسران سے بچنا، آگ کے عذاب سے بچنا وغیرہ استعمال کیا گیا ہے۔ اسی مفہوم میں خوف اور رنج ہونے کا تصور پیش کیا گیا ہے۔ انسانی نفسیات کے اعتبار سے یہ کیفیت بہت موثر اور دل لگتی ہے۔ انسان مستقبل کے اندیشوں سے ہمیشہ خوفزدہ رہتا ہے اور شیطان اس کے قلب میں مسلسل وسوسے ڈالتا رہتا ہے۔ دوسری طرف ماضی اور حال کے واقعات اور حادثات سے حزن و ملال کا شکار اور غمگین رہتا ہے۔ موت اور اس کے بعد کی کیفیت سے ہمیشہ ڈرا رہتا ہے۔ عذاب الٰہی کا خوف دامن گیر رہتا ہے۔اللہ رب العزت جو اپنی مخلوق کی نفسیات سے واقف ہے ، انسان کو خوف اور غم سے عافیت کے طریقے بیان فرما دیئے ہیں۔ وہ یہ ہیں
ہدایتِ الہٰی کی پیروی ، رسولوں کی اتباع، ایمان پر اثبات اور استقامت، نماز و زکوٰۃ اور دیگر اعمال صالحہ پر کار بند ہونا ، ایمان اور تقو یٰ اختیار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا،اللہ تعالیٰ کی غلامی اختیار کرنا، انفاق فی سبیل اللہ، اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان قربان کرنے والوں کے طریقے کی پیروی وغیرہ۔
 
 ہدایت الٰہی کی پیروی  
 
خوف اور رنج و غم سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایات کی پیروی کی جائے۔ سورۃ البقرہ آیت 38میں فرمایا گیا ہے
ہم نے کہا کہ تم سب یہاں سے اتر جاؤ، پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا۔
 
حضرت آدم ؑ کی توبہ قبول کرنے کے بعد انہیں زمین پر چلے جانے کا حکم دینے کے ساتھ ہی اصولی بات بتا دی گئی تھی کہ اب جو ہدایت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہنچے اس کی پیروی کرنا۔ جو اس کی پیروی کریں گے ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہوگا مگر جو لوگ اس ہدایت کا انکار کریں گے وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں۔
 
اسی بات کوقرآن کریم میں یوں بیان کیا گیا ہے
اے بنی آدم یاد رکھو! اگر تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ایسے رسول آئیں جو تمہیں میری آیات سنا رہے ہوں تو جو کوئی نا فرمانی سے بچے گا اور اپنے رویہ کی اصلاح کرلے گااس کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ۔‘‘ (الاعراف35)۔
معلوم ہوا کہ ہدایت الہٰی کی اتباع کے ذریعہ ہی انسان دنیا میں خوش وخرم اور مطمئن زندگی گزار سکتا ہے اور اس کے لئے آخرت میں بھی ایک ایسی زندگی کی بشارت ہے جس میں نہ ماضی کا کوئی پچھتاوا ہوگا اور نہ مستقبل کا کوئی اندیشہ۔ اس ہدایت الہٰی کا بندوں تک پہنچنے کا ذریعہ انبیائے کرام ہیں ۔ ارشاد ربانی ہے
ہم جو رسول بھیجتے ہیں وہ خوشخبری دینے والے اور ڈارانے والے ہوتے ہیں ، پھر جو لوگ ایمان لائیں اور اپنی اصلاح کرلیں  ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں۔‘‘(الانعام 48)۔
 
 ایمان باللہ اور اس پر استقامت
سورۃالاحقاف، آیت13کے مطابق خوف اور رنج و غم سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ رب کائنات پر مکمل ایمان ہو اور اس ایمان پر سختی سے جمے رہیں۔آیت ِ مذکور میںارشاد ربانی ہے
 یقینا جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہی ہمارا رب ہے پھر اس پر جم گئے ان کے لئے نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
  خوف اور غم سے عافیت کا مژدہ فرشتہ سنائیں گے۔ارشاد ربانی ہے
جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے یقینا ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو نہ غم کرو اور خوش ہو جاؤ اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔‘‘(حم سجد30)۔
 
 ایمان اور عمل صالح
ایمان اور نیک اعمال کو نجات اور کامیابی کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے
  جو بھی اپنی ہستی کو اللہ کی اطاعت میں سونپ دے اور عملاً نیک روش پر چلے اس کے لئے اس کے رب کے پاس اس کا اجر ہے اور ایسے لوگوں کے لئے کسی خوف یا رنج کا موقع نہیں(البقرۃ112)
 
  بے شک جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں اور نماز قائم کریں اور زکاۃ دیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں (البقرہ 277)۔   
 
 تقریباً یہی مضمون سورۃالعصر میں آیا ہے کہ گھاٹے سے بچنے کے لئے ایمان لانا ، نیک عمل کرنا، حق اور صبر کی نصیحت کرنا ضروری ہے۔
 
 سابقہ امتیں اور موجودہ مسلمان
پچھلی امتیںاور آج کے مسلمان بھی خوف اور رنج سے نجات پا سکتے ہیں بشرطیکہ ایمان اور عمل صالح پر کاربند ہوں۔ارشاد ربانی ہے
بے شک جو مسلمان ہوئے یا یہودی، عیسائی یا صابی جو بھی اللہ اور روز آخرت پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے اور اس کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں۔‘‘ (البقرہ62) ۔
 
یہی مضمون سورہ المائدہ میں بیان ہوا ہے
 مسلمان ہوں یا یہودی یا صابی ہوں یا عیسائی ہوں جو بھی اللہ اور روز آخرت پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا بے شک اس کے لئے نہ کسی خوف کا مقام ہے نہ رنج کا۔
 
 اللہ کے دوست اور اسکے فرمانبردار بندے
سورہ یونس ،آیت63,62 میں فرمایا گیا ہے
سنو !جو اللہ کے دوست ہیں ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں (یعنی وہ لوگ) جو ایمان لائے اور جنہوں نے پرہیزگاری اختیار کی۔
 آیت کریمہ میں’’ اللہ کے دوست‘‘ یعنی ایمان اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے ہوئے ، اللہ کی مرضی کو ہر دوسری چیز پر مقدم رکھتے ہیں اور قرب الٰہی حاصل کرتے ہیں یہاں تک کہ اللہ انہیں’’ دوست ‘‘ کا قابل رشک مقام عطا فرماتا ہے ۔ پھر انہیں کسی خوف اور غم سے دو چار نہیں ہونا پڑتا۔ سورہ الزخرف ،آیت69,68میں ہے
اے میرے بندو! آج تمہارے لئے کوئی خوف نہیں اور نہ تمہیں کوئی غم لاحق ہوگا (کیونکہ) تم ہماری آیات پر ایمان لائے  اور مطیع فرماں بردار بن کر رہے تھے۔
یعنی اللہ کے دوست اور فرمانبردار بندو ںکے لئے بے خوف زندگی کی بشارت دے دی گئی۔
 
 انفاق فی سبیل اللہ
اپنا مال اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے پر جو اجر ہے اس میں خوف اور رنج سے محفوظ مستقبل کی خوش خبری سنا دی گئی ۔رب تعالیٰ کا فرمان ہے
  جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور خرچ کرنے کے بعد احسان نہیں جتاتے نہ دکھ دیتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لئے کسی رنج اور خوف کا موقع نہیں (البقرہ262)۔  
  جو لوگ اپنے مال شب و روز کھلے اور چھپے خرچ کرتے ہیں ، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا مقام نہیں (البقرہ 274)۔ 
معلوم ہوا کہ اخلاص کے ساتھ اللہ کی راہ میں جو انفاق کیا جاتا ہے وہ بہت اہم ہے۔ اللہ صدقات کو نشو نما دیتا ہے ان کا اجر کئی گنا عطا فرماتا ہے اور ان کے لئے خوف اور رنج سے چھٹکارا عطا فرمادیتا ہے۔
 
 شہداء اور صالحین
سورہ آل عمران میں اللہ کی راہ میں جان قربان کرنے والوں اور اسکے راستہ پر چلنے والوں کی کیفیت کا خوبصورت نقشہ آیات169 اور170میں کھینچا گیا ہے
 جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو، وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں ، اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں جو کچھ
 اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اس پر خوش وخرم ہیں اور مطمئن ہیں کہ جو اہل ایمان ان کے پیچھے دنیا میں رہ گئے اور ابھی وہاں نہیں پہنچے ہیں ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ۔
 
تربیت کے لحاظ سے یہ آیات بہت اہم ہیں جو ایمان ، نیک عمل صالح، جہاد اور انفاق پر ابھارتی ہیں اور ایک خوش آئند مستقبل کی بشارت دیتی ہیں۔
 
 
 
 
 
 
 

شیئر: