Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اختلافِ ممدوح اور اختلافِ مذموم کیا ہے؟

 اثبات حق وصواب کی بجائے ہر فریق کی خواہش غلبہ حاصل کرناہوتو ایسی حالت کو فقہاء ’’شقاق ‘‘کا نام دیتے ہیں

 
ضمیر الحسن خان فلاحی۔ نئی دہلی
 
امور ومعاملات میں رائے ونقطۂ نظر کا اختلاف ایک فطری آمر ہے۔ اجتماعی زندگی میں یہ ناممکن ہے کہ پورا معاشرہ ایک جیسی صلاحیت و اہمیت اور یکساں اندازِ غوروفکر رکھنے والے افراد و اشخاص پر مشتمل ہو۔ انسانی ذہن، مہارت اور صلاحیتوں میں فرق وتفاوت اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیوں میں سے ہے مگر حکمت خداوندی یہ ہے کہ تخلیق واکتسابی خصوصیات میں انفرادیت کے باوجود ایک حد تک ہم آہنگی ویکسانیت ہو، اختلاف کی حقیقت یہی ہے۔
 
اختلاف دو چیزوں کے الگ الگ اور مختلف ہونے کا نام ہے۔ ’’اختلف البیان‘‘ کا مطلب ہے : دونوں چیزیں یکساں وبرابر نہیں ہیں۔کسی کے احوال واقوال سے الگ راستہ اختیار کرنے کو اختلاف کہتے ہیں لیکن خلاف، ضد سے عام ہے، اس لئے کہ2متضاد چیزیں لازماً ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں مگر2 مختلف چیزوں کا ایک دوسرے کی ضد ہونا ضروری نہیں ۔ یہ دراصل اتفاق کی ضد ہے (القاموس المحیط، القاموس الوحید)۔
جماعتیں آپس میں مختلف ہوگئیں۔(مریم37)۔
وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے۔(ہود118)۔
تم مختلف بات میں ہو۔ (الزاریات8)۔
یقینا تمہارا رب ان کی اس بات کا قیامت کے دن فیصلہ فرما دے گا جس میں وہ اختلاف کر رہے ہیں۔(یونس93)۔
 
ان قرآنی نصوص سے پتہ چلتا ہے کہ بات (قول) رائے، حالت، ہیئت اور نقطۂ نظر و موقف میں مغایرت کو اختلاف وخلاف کہتے ہیں۔
 
علمائے اصول کی اصطلاح میں کسی امام کی رائے کو بلادلیل حق ٹھہرانے اور دوسرے کے نقطۂ نظر کو غلط و باطل قرار دینے کو ’’علم خلاف و اختلاف‘‘ کہتے ہیں(معجم مصطلحات اصول الفقہ ، الفقہ الاسلامی وتحدیات الواقع السیاسیہ)۔
 
دو مختلف نقطۂ نظررکھنے والوں کے درمیان اختلاف کی شدت اتنی بڑھ جائے کہ اثبات حق وصواب کی بجائے ہر فریق کی خواہش غلبہ حاصل کرناہوجائے اور افہام وتفہیم کی گنجائش و امان معدوم ہوجائے، ایسی حالت کو فقہاء ’’شقاق ‘‘کا نام دیتے ہیں۔ شقاق کی اصل یہ ہے کہ ایک حالت،ایک رائے اور ایک موقف کے ساتھ رہنا ممکن نہیں ہے، قرآن مجید میں ہے:اور اگر تمہیں ان دونوں (زوجین) کے شقاق کا خوف ہو( یعنی ایسا سخت و شدید اختلاف کہ اب ایک گھر میں دونوں کا رہنا محال وناممکن ہے۔)‘‘(النساء35)۔ 
 
ایک دوسرے مقام پر فرمایا:’’وہ توضد پر اڑے ہوئے ہیں۔‘‘( البقرہ137) ۔
 
اختلاف کی دو قسمیں ہیں:
(1) اختلافِ مقبول  (2) اختلافِ مذموم۔
 
زبان، رنگ اور افکار و تصورات کے اختلاف کیساتھ متنوع انسانی عقل بھی مشیت خداوندی ہے اس لئے ایک مسئلے میں متعدد اقوال و آراء لازماً سامنے آئیں گی۔ رنگ وزبان اور فطرت کے دوسرے بے شمار مظاہر اگر قدرت کی نشانیاں (آیات) ہیں تو عقل وحواس اور ان سے حاصل ہونے والے نتائج وثمرات بھی اللہ تعالیٰ کی نشانیاں اور اس کی قدرت کاملہ کے دلائل ہیں کیونکہ اگر سارے انسان ہرچیز میں برابرویکساں ہوتے تو دنیا کی شادابی و آبادی اور اس کی بقاء ممکن نہیں تھی۔
اگر تمہارا رب چاہتا تو سب انسانوں کو ایک ہی امت بنا دیتا، وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے ،بجز ان کے جن پر تمہارا رب رحم فرمائے ، اسی لئے اس نے انہیں پیدا کیا ہے۔(ہود119,118)۔
 
اس آیت کی تفسیر میں مفکر اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ  رقمطراز ہیں 
اللہ تعالیٰ کی مشیت انسان کے بارے میں یہ ہے ہی نہیں کہ حیوانات و نباتات اور ایسی ہی دوسری مخلوقات کی طرح اس کو بھی جبلی طور پر ایک لگے بندھے قاعدۂ راستہ کا پابند بنا دیا جائے جس سے ہٹ کر وہ چل ہی نہ سکے بلکہ انسان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ ہے کہ اسے انتخاب واختیار کی آزادی بخشی جائے، اسے اپنی پسند کے مطابق مختلف راہوں پر چلنے کی قدرت دی جائے،اس کے سامنے جنت ودوزخ کی راہیں کھول دی جائیں اور پھر ہر انسان اور ہر انسانی گروہ کو موقع دیا جائے کہ وہ ان میں سے جس راہ کو بھی اپنے لئے پسند کرے اس پرچل سکے اور اپنی سعی وکسب کا نتیجہ پائے، اس اسکیم کے تحت انسان پیداکیاگیا ہے ‘‘۔
 
چنانچہ اس امت کے اسلاف کے درمیان جو اختلافِ رائے وفکر نظرآتا ہے وہ اسی خدائی مشیت کا مظہر ہے اور چونکہ یہ قدرت کی نشانیوں میں سے ہے اس لئے امت کے حق میں مفید و نفع بخش بھی ثابت ہوا۔
 
یہ اختلاف اگراپنے حدود سے متجاوز نہ ہو اور اصول وآدابِ اختلاف کا التزام و اہتمام کیا جائے تو اس سے بہت سے فوائد حاصل ہوسکتے ہیں مثلاً
  کسی مسئلہ کے ان سارے احتمالات پر غوروفکر اور بحث وگفتگو کا موقع ملے گا جن میںکسی پہلو سے دلیل کی گنجائش ہو۔
   ایسے مہذب اختلاف سے ذہنی ریاضت اور تبادلۂ خیالات کا صحتمند ماحول پیدا ہوتا ہے اور مختلف عقلوں کے نتائج پر غوروفکر کے دروازے کھلتے ہیں۔
  ایک سے زائد حل سامنے آتے ہیں جس سے پیش آمدہ مسائل میں فطرت کے صحیح ومتوازن حل کی طرف رہنمائی ملتی ہے۔
  ایک دوسرے سے روابط بڑھتے ہیں اور فاصلے کم ہوتے ہیں۔
 
یہ وہ اختلاف ہیں جس کو ہم مقبول اور مظہر فطرت اختلاف کہہ سکتے ہیں۔ اس کے برخلاف ایک اختلاف وہ ہے جس سے منفی وبرے نتائج برآمد ہوتے ہیں اور امت کے اندر انتشار پیدا ہوتا ہے اور تعمیر کی بجائے تخریب کا سبب بنتا ہے۔ ایسے اختلاف کے پیچھے کبھی تو نفسانیت، خود غرضی اور ذاتی مقاصد کا حصول ہوتا ہے اور کبھی اپنے علم وفقہ کا اظہار کارفرما ہوتا ہے۔ نفس پرستی کا غلبہ ہونے کی وجہ سے اس اختلاف سے کبھی بھی وہ نتائج حاصل نہیں ہوسکتے جن کا اوپر ذکر ہوا ہے بلکہ نفس پرستی شیطانی عمل ہے جو ہمیشہ شروفساد کا باعث ہوتی ہے۔
 
نفسانیت، علم کی ضد، حق کی مخالف، شروفساد کا ذریعہ اور ضلالت وگمراہی کا راستہ ہے۔
اور خواہش نفس کی پیروی نہ کرنا کہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکادے(صٓ26)۔
  اگر حق ان کی خواہشات کے تابع ہوتا توزمین وآسمان اور جو کچھ ان میں ہے سب تباہ ہوجاتے(المؤمنون71)۔
  اور بہت سے لوگ بے علم و سند محض اپنی خواہشات سے دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں(الانعام119)۔
 
نفسانیت کی بہت سی قسمیں ہوسکتی ہیں لیکن سب کی اصل خود پسندی و ہوائے نفس ہے۔ یہ اختلاف ہر حال میں قابل مذمت، غلط اور ناجائز ہے۔
 
اختلاف اہل علم کی نظر میں
امت کے اہل علم نے ہر طرح کے اختلاف سے روکا ہے اور حتی المقدور اس سے بچتے رہنے کی تاکید کی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فقہائے صحابہ کرامؓ میں سے ہیں ۔ انھوں نے اختلاف کی مذمت کی اور کہا: ’’الخلاف شر‘‘ یعنی اختلاف بری چیز ہے۔
علامہ تقی الدین سبکی (متوفی771ھ) کا قول مشہور ہے، انھوں نے فرمایا :’’ تقاضائے رحمت یہ ہے کہ اختلاف نہ کیاجائے۔‘‘ (ادب الاختلاف فی الاسلام)۔
 
اور امر واقعہ بھی یہی ہے۔قرآن مجید میں ہے
لیکن ان کے درمیان اختلاف ہوا، سو کوئی ایمان لایا اور کوئی کافر ہوگیا۔‘‘(البقرہ253)۔
حدیث میں ہے 
بنی اسرائیل اپنے انبیاء سے اختلاف اور کثرتِ سوال کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔‘‘(مسند احمد، مسلم،نسائی)۔
 
علامہ تقی الدین سبکی نے اختلاف کی3 قسمیں کی ہیں
   اصولوں میں اختلاف : قرآن جس اختلاف کی مذمت کرتا ہے وہ یہی ہے اور بلاشبہ یہ بدعت وضلالت ہے۔
  آراء میں اختلاف : یہ بھی حرام ہے کہ اس میں مصالح امت کا ضیاع ہے۔
  فرو ع میں اختلاف (ادب الاختلاف فی الاسلام ) :حلت وحرمت کے باب میں پایا جانے والا اختلاف۔
اس تیسری قسم میں بھی یہ بات طے ہے کہ اتفاق بہرحال اختلاف سے بہتر ہے۔اختلاف کے مذموم ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے بتوں کی پرستش کو تو گوارا کرلیا مگر تفرقہ پیدا نہ ہونے دیا۔ ان کی قوم کے ایک شخص ’’سامری‘‘ نے جب بچھڑے کی شکل کا ایک بت بناکر قوم کودعوت دی کہ ’’ھٰذا اِلٰہَکُمْ وَاِلٰہ موسیٰ‘‘  تو حضرت ہارون ؑ  خاموش رہے اور موسیٰ  ؑکی واپسی کا انتظار کیا ، چنانچہ واپسی کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب انہیں ملامت کی تو اس کے جواب میں کہا
 میرے بھائی !میری داڑھی اور بال نہ پکڑو، مجھے ڈر تھا کہ تم کہوگے کہ تم نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اور میری بات کا انتظار نہ کیا۔‘‘  (طٰہٰ94)۔
 
امام ابن حزم ظاہری (متوفی1036ھ) کے مطابق کوئی اختلاف باعث رحمت نہیں (فیض القدیر )۔
وہ روایت جس کے راوی ابن عباسؓہیں اور جس میں اختلاف کو رحمت کہا گیا ہے (اختلاف امتی رحمۃ) محل نظر ہے۔
 امام مناوی متوفی(103ھ) نے علامہ تقی الدین سبکی کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس کی سند صحیح نہیں(سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ )۔
 
 اسی طرح سے وہ روایات بھی محدثین کے یہاں صحیح کا درجہ نہیں رکھتیں جن میں وارد ہے
’’اختلاف اصحابی لکم رحمۃ‘‘  یا  ’’اصحابی کالنجوم نبأیہم اقتدیتم اھتدیتم‘ ‘۔
یہ دونوں روایتیں صحیح نہیں ۔ علامہ ناصرالدین البانی نے انہیں موضوع قرار دیا ہے اور امام ابن حزم بھی انہیں موضوع روایات میں شمار کرتے ہیں نیز اس طرح کی تمام روایات حکم ِقرآن سے متعارض ہیں اس لئے کہ قرآن پاک نے مطلق اختلاف سے روکا ہے اور یہ ہو نہیں سکتا کہ شارح قرآن ، قرآن سے ہٹ کرکوئی بات ارشاد فرمائیں۔
 
امام ابن عبدالبر فرماتے ہیں:’’ صحابہ کرامؓکے اختلاف واجتہاد میں توسیع ہوتا تھا اور توسع کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی رائے پر مصر نہ ہو اور صرف اس کو حق نہ سمجھے۔‘‘(جامع بیان القلم وفضلہ)۔
 
اس سلسلہ میں امام مالک کی رائے بھی انتہائی چشم کشا ہے، وہ کہتے ہیں
صحابہ کرامؓ  کا اختلاف وسعت ورحمت نہیں بلکہ صحیح و غلط کا اختلاف ہے۔‘‘ (فیض الدنیا )۔
 
 اس کی دلیل یہ ہے کہ بہت سے مواقع پرصحابہ کرامؓ  نے اپنی رائے سے رجوع کیا اور دوسرے کی رائے مان لی۔ مثلاً اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓنے جب یہ حدیث سنی : عورت کے سامنے آجانے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے، توفوراً بلاکسی ادنیٰ تامل کے یہ کہہ کر رد کردیاکہ کتنی ہی بار ایسا ہوا کہ رسول اللہ نے قیام اللیل کیا اور میں سامنے سوتی رہی(بخاری، کتاب الصلوٰۃ)۔
 
اس طرح ام المؤمنین نے اس روایت کو بھی ماننے سے انکار کردیا کہ:میت کو اس کے گھر والوں کے رونے سے عذاب ہوتا ہے… اور فرمایا: ابوعبدالرحمن( الراوی) کو وہم ہوگیا یا سننے میں غلطی ہوئی ہے یا وہ بھول رہے ہیں (بخاری ، کتاب الجنائز)۔
 
پوری بحث سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ اختلاف 2 طرح کا ہوتا ہے:
 اختلافِ ممدوح و مقبول۔ 
اختلافِ مذموم۔
 
 
اختلاف ممدوح کو اسلام پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اس اختلاف کے تحت سنجیدہ عقلی کاوشوں کے ذریعے مسائل کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لیا جاتا ہے، مختلف زاویوں سے نظر ڈالی جاتی ہے، مختلف دلائل کا موازنہ ہوتا ہے تاکہ کوئی ایسی شکل دریافت ہوجائے جو مسئلہ کی اصل حقیقت دوسروں کے سامنے واضح کرسکے اور زیر بحث مسئلہ کے تمام گوشے وپہلو دوسروں کے سامنے آجائیں اس میں اس بات کا خاص اہتمام ہوتا ہے کہ کوئی نقطۂ نظر آخری و قطعی حل کے طور پرلوگوں پر تھوپا نہ جائے بلکہ بحث وگفتگو، غوروفکر اور تبادلۂ خیال کے بعد بھی دوسری رائے رکھنے کی پوری اجازت ہوتی ہے۔
 
اس کے برخلاف ، اختلاف مذموم وہ ہے جو امت میں تفرقہ پیدا کرتا ہے۔ اس میں اجتہاد کو فکری ونظری حد سے آگے بڑھ کر عملی شکل دیدی جاتی ہے اور دوسروں پراسی مسلک و رائے کو لازم وضروری قرار دے دیا جاتا ہے۔اس طرح سے اختلاف رائے ،اختلاف عمل کی صورت اختیار کرکے امت کے اتحادکے لئے ایک بڑا خطرہ و چیلنج بن جاتا ہے۔
 
(جاری ہے)
 
 
 
 
 

شیئر: