Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سارے خواب چکناچور ہوتے نظر آئے

حرم شریف میں خاص حلیہ میں چند خاص لوگ جن کی داڑھی ، مونچھیں بالکل نہ تھیں اور سب پکے رنگ کے تھے۔ خواتین کی نقل و حرکت کو وہی کنٹرول کرتے تھے
نو ٹ :س ہفتے سے ’’ماضی کے دریچوں‘‘ کے عنوان سے نیا سلسلہ شروع کیاجارہا ہے۔اس سلسلے میں مملکت یا دنیا کے کسی بھی ملک میں جانے والے پاک،ہند یا بنگلہ دیش کے تارکین لکھیں گے کہ پہلے وہ علاقہ کیسا تھا اور اب کیسا ہے،ساتھ ہمیں پرانی تصاویر بھی ارسال کریں۔
ریاض میں مقیم مسعود الرحمن نے ہمیں اپنی روداد معہ تصاویر ارسال کی ۔وہ1976ء میں مملکت آئے ،اس وقت کی تصاویر بھی ارسال کیںہی یقینا قارئین کیلئے دلچسپی کا باعث ہونگی
مصطفی حبیب صدیقی۔ جدہ
میرا تعلق کراچی پاکستان سے ہے ۔ جائے پیدائش نوابشاہ سندھ ہے ۔ کچھ عرصہ نواب شاہ میں اپنی لائبریری بھی چلائی۔ ’’رحمان لائبریری‘‘ اس کا نام تھا اور بہت ہی معروف لائبریری تھی۔ تھوک کے حساب سے کتابیں خود بھی پڑھیں اور لوگوں کو پڑھوائی بھی۔ ان دنوں ابن صفی کے جاسوسی ناولوں کی بہت مانگ تھی۔ جب کراچی آنے کا پروگرام بنا تو لائبریری سابق صدر مملکت پاکستان آصف علی زرداری کے تایا زاد بھائی مقبول زرداری کے حوالے کرآیا کہ حاکم زرداری کے بڑے بھائی ہاشم زرداری کی ساری اولاد ہماری لنگوٹیا تھی۔ ماشااللہ‘‘ سے سارے لنگوٹیے ہی ارب پتی ہیں اور ہونا بھی چاہیے کہ تایازاد بھائی کس کے ہیں۔ خوش قسمت ہوں میری 4 بیٹیاں ہیں اور اللہ کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کے مطابق یقینا وہ جنت میں ہمارے داخلے کا ذریعہ بنیں گیں ۔ چار عشرے پہلے1976ء میں دوست یاسین جاوید کیساتھ جدہ پہنچا ۔ یاد پڑتا ہے بشمول فضائی ٹکٹ ہم نے 5ہزار روپے فی کس ایجنٹ کو دئیے تھے کہ اس زمانے میں یہ بھی بہت تھے۔ زندگی میں پہلی بار ہوائی سفر کیا تھا بہت اچھا لگا ۔ ان دنوں جدہ کا ایئر ٹرمینل اشرفیہ میں ہوا کرتا تھا۔ہمیں بتایا گیا تھا کہ گھبرانے یا پریشانی کی کوئی بات نہیں کہ جدہ ایئرپورٹ پر ایجنٹ کا آدمی ہمیں خوش آمدید کہے گا اور ہماری رہائش اور ملازمت کا بندوبست کرے گا ۔ ٹرمینل سے باہر نکلتے ہی ہمیں بے شمار پاکستانی بھائی ایئرپورٹ پر ہی مل گئے اور انہوں نے فوراً ہی ہماری غلط فہمی یا خوش فہمی دور کردی کہ کسی کے انتظار میں نہ رہنا اور یہ جو تھوک کے حساب سے سامنے والے میدان اور فٹ پاتھ پر لوگ اپنے سامان کا ڈھیر لگائے اور بستر بچھائے آرام کررہے ہیں تو یہ بھی ہماری طرح کسی نہ کسی ایجنٹ کے انتظار میں ہی تھے۔ اسلئے اپنا بوریا بستر یہیں لگا لو اور صبح سے کام کی تلاش شروع کردینا کہ ان دنوں کام کا ملنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں کیونکہ روزانہ اسی طرح سے جہاز بھر بھر کر آرہے ہیں اور ملازمت کے تعلق سے صورتحال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے ۔ حقیقت حال جان کر بہت مایوسی ہوئی ۔ سارے خواب چکناچور ہوتے نظر آئے۔مرتے کیا نہ کرتے ، ہم نے بھی فٹ پاتھ کا ایک کونہ خالی دیکھ کر اپنا سامان وہاں سجایا اور چادر بچھا کر اور بیگ کا تکیہ بناکر لیٹ گئے ۔ فٹ پاتھ پر نیند تو کیا آنی تھی ۔ اڑوسیوں پڑوسیوں کی دردناک کہانیاں سنتے سنتے ہی صبح ہوگئی۔ پتہ چلا لوگ مہینوں سے وہاں آباد ہیں اور اب یہ فٹ پاتھ ہی ان کا مستقل ٹھانہ بن گیا ہے۔ دن میں کہیں محنت مزدوری کرتے ہیں اور شام دوبارہ اپنے اسی ’’ڈیرے‘‘ پر واپس آجاتے ہیں ۔ ساتھیوں کے مشورے پرپہلے عمرہ کیا۔ ان دنوں حرم میں اتنا رش نہیں ہوتا تھا۔طواف کے ہر چکر میں بغیر زور آزمائی کے ہم نے حجر اسود کو بوسہ دیا ۔ مطاف میں اسوقت تک یہ ٹھنڈے ٹائلز نہیں لگے تھے بلکہ عام سفید اور کالے ٹائلز تھے۔ سارا فرش دھوپ میں تپ رہا ہوتا تھا اور جب بھی پاؤں کالے ٹائلز پر پڑتا تھا تو چیں بول جاتی تھی اور بڑی پھرتی سے اسے سفید ٹائلز پر لانا پڑتا تھا۔ مقام ابرہیم کے ساتھ ہی نیچے ایک چھوٹا سا تہہ خانہ بناہوا تھا جس میں زمزم پینے کا انتظام تھا اور ایک پمپ بھی لگا ہوا تھا جوزمزم کھینچتا تھا شاید زمزم کے نکلنے کی اصل جگہ یہی تھی۔ عمرہ کے بعد روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری کیلئے مدینہ منورہ پہنچے ۔ میں اسے اپنی خوش نصیبی سمجھتا ہوں کہ ہم نے مدینہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس زمانے میں زیارت کی ہے کہ وہاں ابھی جدید تعمیرات نہیں ہوئی تھیں اور لگتا تھا ہم اس قدیم دور میں ہیں۔ کچے پکے مکانات ، انتہائی تنگ گلیاں ، پرانی مساجد بالکل چھوٹی چھوٹی سے خیمہ مساجد کہ ان میں صرف چند لوگ ہی نماز پڑھ سکتے تھے۔ کچی مسجد ِ قبلتین ، حضرت سلمان فارسی ؓ کا باغ اور کنواں ، بہت ہی مختلف جنت البقیع اور ہر جگہ پر معلم یا گائیڈ جو سب قبروں کی نشاندہی کررہا ہوتا تھا کہ کون سے قبر کس مبارک ہستی کی ہے ۔ حرم شریف میں خاص حلیہ میں چند خاص لوگ جن کی داڑھی ، مونچھیں بالکل نہ تھیں اور سب پکے رنگ کے تھے۔ خواتین کی نقل و حرکت کو وہی کنٹرول کرتے تھے ۔ ویسے بھی اس وقت تک حرم میں پردے کی ایسی سختی نہ تھی اور کوئی مرد بھی خواتین والے حصہ میں جھانک کر اپنی خواتین کو باآواز بلند یا اشاروں کنایوں میں اپنی بات پہنچانے کی کوشش کرلیا کرتا تھا کہ درمیانی پارٹیشن اتنا اونچا نہ ہوتا تھا بلکہ بچے بھی ادھر سے ادھر’’ شفٹ ‘‘کردیا کرتے تھے۔ چند برس تک وہ مخصوص لوگ نظر آتے رہے اس کے بعد ان کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ کہنے والے کہتے ہیں ان کی نسل آگے نہیں بڑھی اور وہ آخری نشانیاں ہی تھے۔ ہم نے بھی کبھی ان کے بارے میں زیادہ جاننے کی کوشش نہیں کی۔ ریاض الجنتہ میں کوئی بندش نہ تھی جتنا عرصہ بیٹھنا چاہیں بیٹھیں اصل میں ان دنوں اتنا رش نہیں ہوتا تھا خود پاکستان سے بھی باقاعدہ عمرہ پر گنے چنے لوگ ہی آتے تھے کہ سب کو فکر حج کی ہوتی تھی۔ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں پینے کے پانی کیلئے مٹی کی چھوٹی چھوٹی سی صراحیاں ہوتی تھیں کوئی گلاس نہیں ہوتے تھے سب اسی کو منہ لگا کر پانی پیتے تھے۔ جب تک وہ چھوٹی سی صراحی ختم نہیں ہوتی تھی سب اس میں سے منہ لگا کر پانی پیتے رہتے تھے ۔ حرم سے ملے ہوئے مکانات تھے۔ خود ’’پاکستان ہاؤس‘‘ ’’باب جبرائیل‘‘ کے بالکل سامنے ہوتا تھا۔ حرم کی دیوار اور اس کا فاصلہ چند فٹ کا تھا ۔چیزیں بہت سستی تھیں۔ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل قریب یہی ہم نے جس گھر میں کمرہ لیا تھا اس کا فی کس یومیہ کرایہ دوریال تھا۔ ’’پنجاب ہوٹل‘‘ کے نام سے صرف ایک پاکستانی ہوٹل ہوتا تھا، سب لوگ اسی میں کھانے کھاتے تھے۔ بابِ محبہ (کہ باب فہد نہیں بناتھا) کے سامنے ایک صراف نے اپنی مچان نما دکان بنائی ہوئی تھی اور اپنی من مانی قیمت پر دوسری کرنسیوں کے بدلے سعودی ریال تبدیل کیا کرتا تھا۔ انہی دنوں افواہ اڑی کہ پاکستانی کرنسی تبدیل ہوگئی ہے تو اس صراف کی مزید چاندنی ہوگئی اور اس نے بہت کم ریٹ پر پاکستانی کرنسی کے بدلے میں ریال دئیے۔ مدینہ منورہ میں 40نمازیں پوری کیں۔ اس دوران ملازمت کی کوشش بھی کی لیکن کہیں کام نہ بنا سو پھر سے جدہ کے لئے دخت سفر باندھا۔ ۔۔۔ باقی آئندہ ہفتے۔۔۔
******

شیئر: