Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹائپ فائیو ہنڈرڈ

 
کتنی خوشی ہوتی ہے جب یہ خبر آتی ہے کہ فلاں بچے نے تمام مضامین میں اعلیٰ ترین گریڈز لے کرعالمی ریکارڈ قائم کیا۔یا اتنی کم عمر میں فلاں بچی نے فلاں علمی اعزاز حاصل کیا
 
وسعت اللہ خان 
 
ہم میں سے بھلا کون ہے جو بچپن سے نہیں سن رہا کہ علم حاصل کرو بھلے چین جانا پڑے یا حصولِ علم ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔یا غور و تدبر کرو اور کائنات مسخر کرو وغیرہ وغیرہ۔چنانچہ جب طلوعِ اسلام کے لگ بھگ200 برس بعد سماجی و سائنسی علوم کی یونانی کلید مسلمانوں کے ہاتھ آئی تو انہوں نے کئی ایسے انسانی و کائناتی عقدے حل کئے جن کی بنیاد پر یورپ میں جدیدیت کی عالمانہ عمارت کھڑی ہوئی اور بلند سے بلند تر ہوتی چلی گئی۔
آج کیا حالات ہیں ؟ اس کا تھوڑا بہت اندازہ دی ٹائمز ہائر ایجوکیشن ورلڈ یونیورسٹی کی سالانہ ریٹنگ سے ہوسکتا ہے۔ دنیا کی500 چوٹی کی یونیورسٹیوں میں بھی آپ کو امریکہ ، برطانیہ ، کینیڈا ، یورپی یونین ، آسٹریلیا ، روس ، جاپان ، چین ، مکاﺅ ، ہانگ کانگ ، تائیوان ، جنوبی کوریا ، نیوزی لینڈ ، تھائی لینڈ ، ہند ، اسرائیل ، برازیل ، چلی اور جنوبی افریقہ وغیرہ چھائے ہوئے ملیں گے۔مسلمان ممالک کی تعداد 50 سے زائد بتائی جاتی ہے لیکن ٹاپ500 یونیورسٹیوں میں بس5مسلمان ممالک یعنی ترکی ، ایران ، پاکستان ، ملیشیا اور سعودی عرب کی چند یونیورسٹیاں شامل ہے۔
مسلمان ممالک میں اعلیٰ تعلیمی روایات نہ پنپنے کے اسباب پر پاکستان کے معروف سائنسداں اور استاد ڈاکٹر عطا الرحمن بہت کچھ لکھ چکے ہیں،مگر میرا مقدمہ یہ ہے کہ سوچ پر طرح طرح کے شعوری و لاشعوری پہروں کے ہوتے اعلیٰ تجزیاتی سوچ کی حوصلہ افزائی کرنے والے بین الاقوامی معیار کے تعلیمی ادارے کیسے وجود میں آ سکتے ہیں ؟ 
”ٹاپ فائیو ہنڈرڈ“ کی فہرست میں آنے والی جتنی بھی یونیورسٹیاں ہیں ان میں جہاں وسائل ، کوالیفائیڈ فیکلٹی اور اکیڈمک خود مختاری کا کلیدی کردار ہے، وہیں یہ قدر بھی مشترک ہے کہ ان یونیورسٹیوں میں مکھی پر مکھی مارنے کے رواج کے بجائے منطقی انداز سے علمی عقدوں کو کھولنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
پاکستان کے تعلیمی بزرجمہروں کا خیال ہے کہ اگر یونیورسٹیوں کی فنڈنگ بہتر ہوجائے اور وہاں سے دھڑا دھڑ پی ایچ ڈی پیدا ہونے لگیں تو معیار بہتر ہوجائےگا۔کسی کا دھیان اس جانب نہیں کہ ایسے پی ایچ ڈیز کا کیا فائدہ کہ جن کی 99 فیصد کھپت صرف اندرونِ ملک ہو اور بقیہ ایک فیصد باہر جائیں تو انہیں اپنی قابلیت ثابت کرنے کےلئے ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑے اور انہیں بیرونِ ملک فیکلٹی یا کسی اور ادارے میں ملازمت دینے والے کے لاشعور میں یہ بات کلبلاتی رہے کہ اچھا تو یہ پاکستان کا ڈگری یافتہ ہے ، وہی پاکستان نا جہاں2 برس قبل جعلی ڈگریوں کا سب سے بڑا سکینڈل پکڑا گیا ، وہی پاکستان نا جہاں معیاری تعلیم کے فروغ کےلئے پالیسیاں بنانے والے گزشتہ پارلیمانی ارکان میں سے آدھوں کی قابلیت اور ڈگریاں مشکوک ہیں۔وہی پاکستان نا جہاں کسی کےلئے بھی درس گاہ کے اندر یا باہر عمومی پاپولر سوچ سے الگ کوئی بات کرنے یا لکھنے سے پہلے، اپنی سلامتی کے بارے میں زبان یا قلم ہلانے سے پہلے10 بار سوچنا پڑتا ہے۔
صرف 25,20 برس پہلے ہی کی تو بات ہے کہ افریقہ ، مشرقِ وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا کے سیکڑوں طلبا و طالبات پاکستانی جامعات میں سوشل سائنسز سے زیادہ خالص سائنسی علوم پڑھنے آتے تھے۔جوں جوں دلیل اور علم کےلئے زمین اور فضا تنگ ہوتی چلی گئی توں توں دور دیس سے آنے والے پرندے بھی اڑتے چلے گئے۔
آج یہ حال ہے کہ پاکستانی یونیورسٹیوں میں غیرملکی طلبا شاید تبرکاًہی ملیں۔ان سب کا رخ ہندکے تعلیمی اداروں کی جانب ہوتا چلا گیا۔ جب یہ تعلیمی سفیر مستقبلِ قریب میں اپنے اپنے ممالک کی بیوروکریسی ، صنعت ، اکیڈمکس اور انٹلکچوئیل گیلکسی کا حصہ بنیں گے تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ ان کا جھکاﺅپاکستان کی جانب کتنا ہوگا اور ان کی نظروں میں پاکستان کا امیج کیا ہوگا۔
ٹاپ فائیو ہنڈرڈ کی فہرست میں آنا تو بڑی بات ہے ابھی تو ہم اس بحث سے نہیں نکلے کہ نصاب کو جدید تقاضوں سے کیسے ہم آہنگ کیا جائے۔اعلیٰ تعلیم کی دیکھ بھال وفاق زیادہ بہتر کرسکتا ہے کہ صوبہ ، بجٹ میں بنیادی تعلیم کےلئے زیادہ رقم رکھی جائے کہ اعلیٰ تعلیم کےلئے ؟ 
25,20 برس پہلے تک جو بھی اعلیٰ یا ادنیٰ تدریس ہوا کرتی تھی وہ زیادہ تر سرکاری یا مشنری تعلیمی اداروں میں تھی لیکن نجکاری ، مارکیٹنگ ، کارپوریٹ کلچر اور وسائل کی عدم مساوات کے سبب ہوا یہ کہ سرکاری یونیورسٹیاں علمی و ملازمتی چراگاہیں بنتی چلی گئیں اور نجی اعلیٰ تعلیمی اداروں نے اپنے اردگرد بھاری فیسوں کی باڑھ اس قدر اونچی کردی کہ آبادی کے ایک بڑے طبقے کےلئے اسے پھلانگنا ممکن نہ رہا۔ان حالات میں سب سے پہلا قتل اس بچے کا ہوا جو میرٹ کے تمام اصولوں پر پورا اترنے کے باوجود صرف اس لئے آگے نہیں بڑھ سکتا کہ اس کے پاس مالی وسائل نہیں۔ 
کتنی خوشی ہوتی ہے جب یہ خبر آتی ہے کہ فلاں بچے نے تمام مضامین میں اعلیٰ ترین گریڈز لے کرعالمی ریکارڈ قائم کیا۔یا اتنی کم عمر میں فلاں بچی نے فلاں علمی اعزاز حاصل کیالیکن ان بچوں کو جگہ بھی ملتی ہے تو بیرونِ ملک کسی ادارے میںاور پاکستانی محض یہ بتا بتا کر خوش ہوتے رہتے ہیں کہ ورلڈ بینک میں جو نائب صدر ہے وہ اپنا پاکستانی ہے۔ناسا میں جو چیف سائنٹسٹ ہے وہ اپنے گوجرانوالے کا ہے اور امریکی صدر کی ایڈوائزری ٹیم میں جو برخوردار ہے وہ کل تک اسی گلی میں کرکٹ کھیلتا تھا۔
ٹاپ ہنڈرڈ یا فائیو ہنڈرڈ یونیورسٹیاں اپنے بچوں کو اکیلا نہیں چھوڑتیں ،سینے سے لگا کر رکھتی ہیں تاکہ باقی سماج بھی ان کی ویسی قدر کرے جس کے وہ مستحق ہیں۔جس دن یہ ہوگیا اس دن پاکستان کی بھی ایک یا 2 یا 3 یا 4 درسگاہیں ٹاپ ہنڈرڈ میں نہ سہی ٹاپ فائیو ہنڈرڈ میں اپنی جگہ ضرور بنا لیں گی۔بس ایک کام کیجئے! اپنے پودوں پر طے شدہ نظریات کا ابلتا پانی انڈیلنے کے بجائے انہیں فطری ماحول میں پروان چڑھنے کا موقع فراہم کردیں۔باقی کام یہ خود کرلیں گے۔
******
 

شیئر: