Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

23 مارچ

 
ناقابل یقین! زندگی بھر نہیں بھولوں گا، محمد الشہری کی آنکھوں میں ابھی تک تحیر تھا۔ پھر وہ بولا: یہ سب کیوں ہوتا ہے ہر روز؟ ابھی موقع نہیں ہے، بات لمبی ہے، آرام سے بیٹھ کر موضوع چھیڑیں گے
 
جاوید اقبال
میں ابھی تک وہ وحشی لپک نہیں بھول سکا جو واہگہ کی سرحد پر محمد الشہری کی آنکھوں میں اتری تھی۔ ہم 3 تھے۔ عرب نیوز کا محمد السعدی، الحیاة کا محمد الشہری اور میں۔ کوئی 9 برس پیشتر حکومت پاکستان نے سعودی صحافیوں کیلئے وہاں کا ایک ہفتے کا دورہ طے کیا تھا۔ کراچی تا طورخم، راہ میں لاہور کاقیام۔ دوسری جگہو ںکے علاوہ واہگہ پر پرچم اترنے کا منظر بھی دکھایا جانا تھاچنانچہ جب ملیشیا کی شلوار قمیض میں ملبوس رینجرز کے 2 نوجوان مارچ کرتے گیٹ کی طرف بڑھے تو منظر دیدنی تھا۔ سفید مُو ، ناٹے قد کا بابا نور دین سڑک کے درمیان پاکستانی پرچم دونوں ہاتھوں میں تھامے کھڑا تھا۔ اس نے کسی اصیل مرغ کی طرح گردن اکڑائی ، گلے کی رگیں پھولیں اور پھر پھیپھڑوں کا پورا زور لگاکر اس نے نعرہ لگایا ” پاکستان !!“ اور سڑک کے دونوں طرف بیٹھا بچوں ، عورتوں ، مردوں کا ہجوم گلے پھاڑ کر چلایا ، زندہ باد۔ 
رینجرز کے دونوں نوجوان مارچ کرتے گیٹ تک پہنچے اور پھر وہ رک گئے۔ لچکیلے بدن کمان کی طرح خم ہوئے اور ایک ایک پاﺅں اوپر اٹھا.... اور اوپر.... اور اوپر یہاں تک کہ ٹھوڑی کی سطح تک پہنچ گیا۔ ہجوم بدنوں کی چستی اور لچک پر ششدر ہوکر تالیاں بجانے لگا۔ غروب آفتاب کے جھٹپٹے میں دونوں بدن کسی اور دنیا کی مخلوق لگتے تھے۔ پلک جھپکنے میں پاﺅں واپس زمین پر آن لگے۔ میرے ساتھ بیٹھے محمد الشہری کی آنکھوں میں لپک اتری، وہ بے یقینی میں رینجرز کے ان دونوں وردی پوش بدنوں کو گھورتا تڑپ کر اٹھا اور پھر ان کے قریب پہنچ کر تصاویر لینے لگا۔ ہجوم تالیاں بجاتا شورِ قیامت بپا کررہا تھا۔ بابے نوردین کا گلا غبارے کی طرح پھول کر نعرے لگوا رہا تھا۔ سڑک کے پار ہمارے بالکل سامنے مصر اور شام کے آرمی چیف جو اس دن رینجرز کے مہمان تھے، لگاتار تالیاں بجاتے رینجرز کے دونوں جوانوں کو تعریفی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ ہزاروں کا مجمع دنیا و مافیہا سے بے خبر نعرے لگا رہا تھا۔ پرچم اترا، اسے احترام سے لپیٹ دیاگیا اور سرحد کے محافظ مارچ کرتے واپس ہوگئے۔ پاکستان زندہ باد کے نعروں سے لرزتا پنڈال آہستہ آہستہ سکوت میں ڈوبتا گیا۔
ناقابل یقین! زندگی بھر نہیں بھولوں گا، محمد الشہری کی آنکھوں میں ابھی تک تحیر تھا۔ پھر وہ بولا: یہ سب کیوں ہوتا ہے ہر روز؟ ابھی موقع نہیں ہے، بات لمبی ہے، آرام سے بیٹھ کر موضوع چھیڑیں گے۔ میں اپنے سعودی ساتھی کو کیسے سمجھاتا کہ پاکستان کی تشکیل کیوں عمل میں آئی؟ میں اسے یہ تفصیل کس طرح بتاتا کہ پاکستان کا اعلان ہوتے ہی اسی واہگہ کی سرحد پر ہندوستان سے زخمی مسلمان پہنچنا شروع ہوگئے تھے اور وہ بابا نوردین جو اپنے وطن کا پرچم بلند کئے نعرے لگوا رہا تھا ان زخمیوں کو سنبھالتا اور انہیں والٹن میں قائم مہاجرین کے کیمپ تک پہنچاتا رہاتھا۔ میں اسے یہ بھی نہ بتاسکا کہ تشکیلِ پاکستان کے وقت ہندو رہنماﺅں کو یقین تھا کہ یہ نوزائیدہ ریاست جلد ہی اقتصادی طور پر ناکام ہوجائےگی اور اس کے رہنما کانگریس کے آگے ہاتھ باندھے آکھڑے ہوں گے۔ وہ یہ درخواست کریں گے کہ پاکستان کو دوبارہ ہند وستان میں ضم کرلیا جائے یوں اکھنڈ بھارت بن جائے گا۔ 
میں محمد الشہری کو کچھ بھی نہ بتاسکا۔ کراچی، لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد، پشاور، طورخم، ہر جگہ اس کےلئے حیرتوں کے پہاڑ کھڑے تھے۔ کراچی کے گرم مرطوب شہر سے چلا تو کوہ ہندو کش کے مضافات میں ٹھٹھرتا رہا۔ ایک ثقافت سے دوسری میں گھومتا حیران ہوتا رہا۔ بازار میں رکھے آموں کی مہک میں راہ بھول جاتا۔ ایک ہفتہ پلک جھپکنے میں بیت گیا۔ ریاض پہنچ کر اس نے اپنے روزنامے میں ایک انتہائی دلچسپ اور معلوماتی فیچر پاکستان پر لکھا۔ اس کی تحریر بہت پسند کی گئی۔ پھر ہمارا رابطہ نہ رہا۔
آج 23 مارچ کوسفارتخانہ پاکستان میں رسم پرچم کشائی تھی۔ پلٹا تو محمد الحارثی کا فون آگیا۔ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہا تھا۔ جب ذرا سکون میں آیا تو بولا کہ اس نے اسلا م آباد میں ہونے والی پریڈ دیکھ لی تھی اور اپنے آپ پر قابو نہیں پارہا تھا۔ تب میں نے اسے اس کا برسوں پہلے کیا گیا سوال یاد دلایا کہ ہم واہگہ پر سب کچھ کیوں کرتے ہیں۔ میں نے اسے پہیلیوں میں الجھانے کے بجائے بات مختصر رکھی۔ واہگہ ہمیں ہر لمحہ یاد دلاتا ہے کہ وطن اپنے خون میں ڈوب کر حاصل کیا گیا تھا۔ یہ عطائے رب کریم تھا جو خالق کائنات کا فیصلہ تھا کہ کرہ ¿ارض کے اس حصے میںاسکے نام لیواﺅں کیلئے ایک اپنا وطن ہو۔ دشمن کی ہر لحظہ کوشش رہی کہ اس کا وجود ختم کردیا جائے۔ اسے دنیا میں تنہاءکرے اور یوں گوشہ¿ تنہائی میں پڑا یہ نابود ہو جائے۔
لیکن رب کریم نے یہ ایک ہیرا اسکے دین کا نام لینے والوں کو بخشا ہے۔ اس کی کوکھ میں ایک کھرب ڈالر کی معدنیات ہمک رہی ہیں۔ کوئلے کے اتنے بڑے ذخائر کا مالک ہے کہ 500 برس تک اپنے آپ کو منور رکھ سکتا ہے۔ دنیا کی دوسری بڑی نمک کی کان سارے کرہ ارض پر اپنے نمک خوار پیدا کر رہی ہے۔ سمندروں کی عمیق ترین بندرگاہ گوادر دنیا کی بلند ترین اور قدیم ترین تجارتی راہ تک رسائی دیتی ہے اور پھر یہ رسائی کرہ ارض کی آدھی آبادی کو تجارت و رزق کے وسائل مہیا کرتی ہے۔ میرے ملک کے کھیت سونا اگلتے ہیں۔ دنیا کا چوتھا بڑا چاول پیدا کرنے ولا یہ وطن گنے ، کھجور اور دودھ کی پیداوار میں پانچویں نمبر پر ہے۔ پاکستان معمولی ماچس سے لے کر جے ایف تھنڈر جیسے جنگی طیارے بناتا ہے جو عالمی نمائشوں میں ہمیشہ سرفہرست رہتے ہیں ، فضاﺅں پر لرزہ طاری کرتے ہیں۔
محمد الشہری نے آج اسلام آباد کی شاہراہِ دستور پر پاکستانی فوج کے ساتھ اپنے وطن سعودی عرب کے فوجی دستہ کو بھی پریڈ کرتے دیکھا ہوگا۔ اس نے چینی فوجیوں کو بھی پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے دیکھا ہوگا اور یقینا عثمانی سلاطین کے دور کے بینڈ سے” جیوے جیوے پاکستان “ کی دلنواز دھن بھی سنی ہوگی اور اسے احساس ہوگیا ہوگا کہ تاریخ نئے اوارق لکھنے کو بیقرار ہورہی ہے۔
پاکستان، چین، ترکی، سعودی عرب اور پھر مملکت سے عالم اسلام! ہم واہگہ رکھیں گے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا رہے گاکہ دریائے خون عبور کرکے بے مثال وطن حاصل کیا تھا، چھینا تھا۔ 
٭٭٭٭٭٭

شیئر: