Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ 58سیکنڈ

 
ہمارے کتنے ہی ”کرکٹ باز“ایسے ہیں جوناجائز کمائی سے اپنی جیبیں بھرنے کےلئے قوم کے جذبات، احساسات، عزت، حرمت، اقدار اور وقارکو پامال کرنے سے بھی نہیں کتراتے
 
شہزاد اعظم
 
ہم اور وہ دونوں ہی ہم سائے تھے، ہم جماعت تھے اور چونکہ دونوں ہی مس شکیلہ کی زیرِ تعلیم و تربیت تھے اس لئے دونوں ”ہم استانی “ بھی تھے۔ نام اس کا نجانے کیا تھا مگر ہر کس و ناکس اُسے ”چغد“ کہہ کر پکارتا تھا۔وہ پکارے جانے کی حد تک تو ”چغد“ تھامگر باتیں ایسی کرتا تھا کہ سننے والا کبھی دنگ، کبھی ہکا بکا، کبھی حیرت زدہ، کبھی ششدر، کبھی بھونچکا، کبھی دم بخود اور کبھی حواس باختہ رہ جاتا تھا۔ہم نے ”چغد“ کی اس عاقلانہ گفتگو سے بہت کچھ سیکھا۔ زندگی کے کئی ایسے موڑآئے جہاں ”چغد“ کے” گفت پارے“ہمارے لئے رہنما اصول ثابت ہوئے چنانچہ ہم نے منصوبہ بندی کی کہ ”چغد“سے روابط منقطع ہونے نہیں دیں گے اور اس کی انمول گفتگوپر مبنی ایک کتابچہ شائع کریں گے جس کا عنوان ”چغدیات“ ہوگا۔ اسی لئے ”چغد“ سے آج بھی ہمارے رابطے برقرار ہیں ۔ ایک روز قبل بھی ”چغد“ سے ہماری بات چیت ہوئی ۔ماہ اور ماحول کے تناظر میں ہماری گفتگو کا عنوان پاکستان ہی تھا۔ہم نے جیسے ہی فون ملایا، انہوں نے فرمانا شروع کیا کہ:
”یوم پاکستان مبارک ہو،آج پاکستان 70کا اور قرارداد77کی ہوگئی۔ میں نے وطن عزیز میں کچھ دیکھا یا نہیں دیکھا، ایک حقیقت ضرور آشکار ہوئی ہے کہ ہمارا معاشرہ 3طبقات میں منقسم ہے۔ ایک طبقہ ہے ”بااثر“ دوسرا ہے ”زیر اثر“ اور تیسرا ”بے اثر۔“ ”بااثر“ طبقہ بلحاظِ تعدادانتہائی قلیل مگر دولت کے اعتبار سے مثلِ فیل ہے۔ ”زیر اثر“ طبقہ وہ ہے جو اپنا اُلو سیدھا کرنے کےلئے”بااثر“ طبقے کی للو پتو میں دن رات ایک کئے رکھتا ہے ۔اس کی تعداد ”بااثر“ طبقے سے زیادہ مگر تیسرے طبقے سے کم ہوتی ہے ۔ ا س کی حالت یہ ہوتی ہے کہ ٹھسک ”بااثر“ ہستی کے اٹھتی ہے اور ”زیر اثر“ ہستی کھانستی ہے۔لوگ برا بھلا ”بااثر“ ہستی کو کہتے ہیں اور آپے سے باہر”زیر اثر“ شخصیت ہوتی ہے ۔ حتیٰ کہ طمانچہ ”بااثر“ کو پڑتا ہے اور چیخ ”زیر اثر“ کی نکلتی ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ جب اختیارات ”بااثر“لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں تو ”زیر اثر“ہستیاں بھی کچھ نہ کچھ اختیار اینٹھ لیتی ہیں۔رہ گیا تیسرا طبقہ تووطن عزیز میں اس کی تعداد مذکورہ دونوں طبقات سے کئی سو گنا زیادہ ہے۔ یہ اُن ہستیوں پر مبنی ہے جو نہ ”بااثر“ سے متاثر ہوتے ہیں اور نہ ”زیر اثر“ سے۔زندہ رہنے کی تگ و دو میں جتے رہناہی ان کا مقدر ہوتا ہے ۔اس تیسرے طبقے کے 2یا 2 سے زائد ا فرادجب کہیں اور جہاں کہیں اکٹھے ہو جائیں، آپس میں یہی باتیں کرتے سنائی دیتے ہےں کہ جس کا جتنا بس چلتا ہے، وہ اس ملک کو لوٹتا ہے۔کسی کو عوام کی پروا ہے نہ وطن کی ۔ ہمارے کتنے ہی ”کرکٹ باز“ایسے ہیں جوناجائز کمائی سے اپنی جیبیں بھرنے کےلئے قوم کے جذبات، احساسات، عزت، حرمت، اقدار اور وقارکو پامال کرنے سے بھی نہیں کتراتے۔ ہمارے کتنے ہی صاحبانِ روزگار ایسے ہیں جواغیار کی خوشنودی حاصل کرنے کےلئے وطن عزیز میں بحران پیدا کرنے پر محض اسلئے تیار رہتے ہیں تاکہ انہیں پرائی ”چھتر چھایہ“میسرآجائے۔ ہمارے ہاں ایسی ”بااثر“ ہستیاں بھی موجود ہیں جو لاکھوں قیمتی جانوں کی قربانی کے بعد حاصل ہونےوالی ریاست ”پاکستان“کےخلاف منہ شگافی کرنے سے بھی نہیں کتراتیں۔ انکا ضمیر اس قابل بھی نہیں رہا کہ انہیں جھنجوڑ کر کہے کہ سرزمینِ پاک کےخلاف ناپاک زبان استعمال کر کے 21کروڑ99لاکھ99ہزار 941 پاکستانیوں کے جذبات سے کھلواڑ نہ کرو۔ 
ہمارے ہاں ایسے ”زیر اثر“ ادارے اورہستیاں بھی خاصی تعداد میں موجود ہیں جو ملکی وقار کے سوداگروں کو گرفتار کرتی ہیں مگر پھر انہیں بے قصور قرار دے کر نہ صرف آزاد کر دیتی ہیں بلکہ انہیں ”باعزت بریت“ کا حقدار قرار دینے سے بھی نہیں کتراتیں۔ہمارے ہاں معاشرے کےلئے ناسور قرارپانے والے افراد کے گرد شکنجہ کسنے والے”بااثر“ ذمہ داران بھی موجود ہیںجو بے ایمان و بدعنوان لوگوں کو یہ کہہ کر بے قصور قرار دے دیتے ہیں کہ ان کےخلاف ”کافی ثبوت“ نہیں مل سکے۔ ہمارے ملک میں ایسے ادارے بھی موجود ہیں جو قومی خزانے سے پاکستان کے غریب عوام کی خون پسینے کی کمائی کے اربوں روپے لوٹنے والے ڈاکوکو چند کروڑ روپے لے کر چھوڑ دیتے ہیں اور یوں اس بے ضمیر لٹیرے کوباقی ماندہ زندگی ”عیش گردی“ میں گزارنے کی سرکاری اجازت عطا ہو جاتی ہے۔محترم ! پتا ہے !میںگزشتہ 55 سال سے ہر کسی سے ایک سوال کرتا اور ہر کسی سے ایک سوال سنتا رہا ہوں کہ ہمارے وطن کو نقصان پہنچانے ، لوٹنے، توڑنے، بھنبوڑنے، نچوڑنے اور سکوڑنے کی بے دریغ کوششیں کی جاتی رہی ہیں پھر بھی نجانے یہ ملک کیسے چل رہا ہے۔کل ہی میرے اس سوال کے جواب میں ایک ذی فہم نے کہا کہ یہ رب العالمین کا احسان ہے کہ قائم پاکستان ہے۔اگر اس کے ظاہری اسباب جاننا چاہو تو 19مارچ کا ایک واقعہ سن لو:
”عروس البلاد کراچی میں ”ایکسپو سینٹر“ کے وسیع و عریض میدان میں ”سرسید یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی “کا کانووکیشن منعقد ہوا۔سیکڑوں نوجوان انجینیئر بننے کے بعد خوشی سے تمتماتے چہروں کے ساتھ اپنی سندیں وصول کرنے کےلئے جمع تھے۔ یہ وہ ”اداکار“ تھے جنہیں اسٹیج پر نمودار ہونا تھااور انہیں داد دینے کےلئے پنڈال میں دوسری جانب ایک جم غفیر تھا جو ان خوش قسمت نوجوانوں کے والدین تھے۔میںاس کانووکیشن میںاپنے دوست کے ہمراہ موجود تھا جو اپنے بیٹے کے ساتھ آیا تھا۔ تقریب کے اختتام پر باپ نے بیٹے کو گلے لگایا، مبارکباد دی، بیٹے کا ماتھا چوما تو باپ ایک لمحے کےلئے چونک گیا کیونکہ اس نے بیٹے کی آنکھوں میں آنسو دیکھ لئے تھے۔ اس نے کہا آج اس یادگار دن پر بیٹے کی آنکھوں میں آنسو کس لئے؟ اس نے کہا کہ پاپا!میں اپنی 23سالہ زندگی کے حسین ترین لمحات سے گزر کر آیا ہوںجو صرف58سیکنڈ پر محیط تھے مگر مرے قرطاسِ ہستی پر انمٹ نقوش ثبت کرتے ہوئے مجھے ابدی سبق یاد کرا گئے۔ تقریب کے شرکاءسے کہا گیا کہ اب آپ اپنا قومی ترانہ پڑھیں گے۔ یہ اعلان ہوتے ہی ایکسپو سینٹر کی وسعتوں میں موجود ہزاروں افرادبآوازِ بلند یک زبان ہوئے...”پاک سرزمین شاد باد“...پاپا!یہ الفاظ سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ مجھے میرے ضمیر نے سکھلایا، میرے فہم نے سمجھایا، میرے ذہن نے باور کرایا کہ تمہارے زیرِ قدم سرزمین” پاکستان“، تمہارے سر پہ سائبان” پاکستان“، وسعتوں میں سایہ فگن آسمان ” پاکستان“، تمہاری عزت و عظمت و عفت کا نگہبان” پاکستان“،تمہاری ہستی پاکستانی، تمہارا اقرار” پاکستان“ تمہارے اساتذہ پاکستانی ، تمہارا وقار” پاکستان“، تمہاری تعلیم پاکستانی ، تمہارا اعتبار” پاکستان“، تمہاری محبت مسلمان ، تمہارا پیار ” پاکستان“، تم اس روئے زمین کا حُسن، تمہارا سنگھار” پاکستان“ .......پاپا! یقین کیجئے مجھے پہلی مرتبہ ادراک ہوا کہ فرطِ مسرت سے آنسوکس طرح بہہ نکلتے ہیں۔پاپا! میری خواہش ہے کہ یہ 58سیکنڈکے احساسات میری زندگی کا عنوان ثابت ہوں اور ارضِ پاک پر آباد ہر ہر پاکستانی کے دل کی آواز اور زندگی کا انداز بن جائیں.............۔یہ واقعہ سن کر ہم نے فیصلہ کر لیا کہ ”چغدیات“ کا بابِ اول یہی ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭

شیئر: