Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بابری مسجد کیس، سپریم کورٹ بھی مشکل کا شکار

 
مودی حکومت اخلاقی اور قانونی طورپر اخوت کے فروغ اور بھائی چارے کے استحکام اور فروغ کی پابند ہے،نئی صورتحال میں مسلمانوں میں بے چینی پھیل رہی ہے
 
سید شکیل احمد
 
تاریخی حقائق یہ ہیں کہ جوبھی فاتح ہو تا ہے تو مقبوضہ مقام پر اسی فاتح کی تہذیب وتمدن پر وان چڑھتی ہے ، چاہے وہ لسانی ہو یا پھر مذہبی ، یا ثقافتی یعنی رہن سہن سے متعلق ہو ۔ ہند وستان میں تقریباًایک ہزار سال تک مسلمانو ں نے حکومت کی ہے۔ مسلما نو ں نے ہند کی تہذیب وتمدن کا تحفظ کیا ، انکا احتر ام کیا جس کی وجہ سے مسلما ن ایک ہزار سال تک اقتدار میں رہ کر بھی اقلیت میں ہےں۔ہند کی تاریخ کا جا ئزہ لیا جا ئے تو اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ مسلما نو ں کے دور میں ہندو ، سکھ اور دیگر جتنے بھی مذاہب تھے ان سب کو کلی طو ر پر تحفظ رہا ،کسی کے مفاد یا حقوق پر زد نہیں پڑی، نہ آپس میں نفرتو ں کی فصیل کھڑی ہو ئی ، مگر آج سے سب زیا دہ ہند کا مسلما ں مظلو م ہے اور اکثر یت کے چونچلو ں کی بنا ءپر بے حد خوف زدہ ہے۔ ویسے آزادی¿ ہند کے وقت ہی مسلمانو ں کے حقوق ہڑپ کر لئے گئے تھے اور پاکستان کے قیا م پر ہندوستانی مسلما نو ں پر طنز کئے جاتے تھے۔ ان پر کا روبار ، رو زگا ر کے دروازے عملاًبند کر دئیے گئے جس کی وجہ سے ہندوستانی مسلما ن آج پستی کا شکا ر ہےں۔ انگریزوںکی پالیسیاں اپنا تے ہو ئے مسلما نو ں میں مسلکی تفرقہ بندی کو خوب اچھا ل کر مزید تقسیم در تقسیم کی گئی ۔
انگریز کے تسلط سے قبل ہند و ستان میں تما م مذاہب کے ما بین آشتی، امن ، اخوت کا چلن گہر ا تھا۔ سبھی فرقے پرسکون زند گی گزار رہے تھے کہ انگریز نے لڑاﺅ اور حکومت کر و کی پا لیسی پر عمل پیر ا ہو کر ہند وستان کی2 بڑی اکثریتی آبادیوں کے درمیا ن بیج بو دیئے، رہی سہی کسر مو دی کی حکومت اور ہند و تو ذہنیت پو ری کر نے پر تلی ہے جس کا آغاز اجو دھیا مسجد کو شہید کر نے سے کیا گیا۔ اس طرح یہ پیغام دیا گیا کہ ہند ایک سیکو لر ریاست نہیں ہے بلکہ وہ ایک متعصب مذہبی ریا ست کا عکس ہے۔ اجودھیا مسجد کی تعمیر نو کے بارے میں ہند کی سپر یم کو رٹ نے گزشتہ رو ز فیصلہ دیا ہے کہ اس کی تعمیریا ناتعمیر کا فیصلہ عدلیہ نہیں کر سکتی ۔فریقین کو چاہیے کہ وہ آپس میںمل بیٹھیں اور کوئی فیصلہ کر یں ،گوفیصلہ دینے میں کو ئی ہیچ یا سقم نہیں مگر انتہا پسند ہندوو¿ں کا دباو¿ اور خوف اس قدر عائد ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت قانون کے مطا بق فیصلہ کر نے میں مشکل کا شکا ر ہے اس لئے فیصلہ دیا ہے کہ عدالت سے باہر ہی فیصلہ کیا جا ئے ۔ 
مو دی حکومت کے دور میں مذہبی ہم آہنگی کو بہت ضعف پہنچا ہے اور یہ سب ایک منصوبہ بند ی کے ذریعے کیا جارہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ مسلما نو ں کو ہند سے ایک مر تبہ پھر ہجر ت کیلئے مجبو ر کیا جا رہاہے۔ اس امر کا اند ازہ ہند کی ریا ستو ں کے حالیہ انتخابات سے بھی ہو تا کہ ہند کی ریا ست اتر پر دیش ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے جس کا کل رقبہ 2لاکھ43ہزار286کلو میٹر ہے ۔آبادی 22 کر وڑ پا ئی جا تی ہے جو دنیا کے بیشتر ممالک کی کل آبادی سے بھی زیا دہ ہے اسی لئے اس صوبے کو منی ہند کہا جا تاہے۔صوبے کی آبادی کے سرکا ری اعدا د وشما ر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 80 فیصد ہندوہیں 19 فی صد مسلما ن آبادی ہے ۔مسلمانو ںکا مو قف ہے کہ ان کی آبادی کسی طرح 30 فی صد سے کم نہیں مگر حقوق غصب کر نے کی غرض سے مسلما نوں کی آبادی کم ظاہر کی جا تی ہے ۔ ہند کی سیا ست اور حکومت میں اسی ریاست کا چلن رہا ہے اور تخت دہلی پر پہنچنے کےلئے کا میا بی کا راستہ اسی صوبے سے ہو کر گزر تا ہے چنانچہ 2014ءمیں اس صوبے کی80 نشستوں میںسے بی جے پی کو 73سیٹیں ملیں جس کی بنا ءپر وہ ہند میںحکومت سازی میںکا میا ب ہوئی ۔ 2017ءکے ریاستی انتخا بات میں اس ریاست کے عوام نے کھل کر بی جے پی کا ساتھ دیا جس کے نتیجے میں اس کوتاریخ ساز فتح ملی لیکن اس تاریخ سا ز فتح کے رو ز ہی بی جے پی اور ہند و تو ا کے لیڈروں نے یہ راگ الا پنا شر وع کر دیا کہ اب اجو دھیا میں رام مند ر کی تعمیر کا خواب پو را ہو جا ئے گا اور مو دی سے مطالبہ شروع کر دیا کہ فوری طورپر رام مند ر کی تعمیر شروع کی جا ئے ۔ 
یہی بس نہیں بلکہ آگے کو قدم بڑھا یا جا رہا ہے کہ بی جے پی کے رکن اسمبلی برجیش سنگھ نے دیو بند شہر کا نا م بدل کردیو ورند رکھنے کی تجو یز دی ہے اس شہر کا نا م بدلنے کی دوسرے ہند و توا کے لیڈرو ں نے بھی ما نگ کی ہے۔ دیو بند کا نا م بدلنے کا معا ملہ مزید سنگین ہو جائے گا کیو نکہ نہ صرف ہندکے مسلما نو ں کی اس سے دینی وابستگی ہے بلکہ ہندکے علا وہ پاکستان، بنگلہ دیش ، سری لنکا ، بھوٹان اور نیپا ل کے علا وہ کئی علا قو ں کی اس شہر سے اسلامی دارالعلو م ہو نے کی وجہ سے دل بستگی ہے۔اس نا م کو اس کے وجو د سے زیا دہ وہا ں قائم دینی مدرسہ کی اہمیت اجا گر ہے اور مسلما نو ں کی ثقافت کا ایک تصور پایا جا تا ہے جس کا نام بدل کر مسلما نوں کی ثقافت پر ڈکیتی ڈالنا مقصود ہے ۔ جب دیو بند کے ریلو ے اسٹیشن سے کوئی باہر قدم رکھتا ہے تو اس کے کا ن میں سب سے پہلے اور سب سے زیا دہ یہ آوازیں گونجنے لگتی ہیں جو آٹو رکشہ والے لگا رہے ہو تے ہیںیعنی ” دارالعلوم دارالعلو م “ ۔اسی سے اند ازہوجا تا ہے کہ مسلما نو ں کے اس دارالعلوم کی کیا اہمیت ہے۔ اس دارالعلوم کی وجہ سے شہر میںرونقیں ہیں ہندوو¿ں کی اقتصادی حالت بھی بدلی ہے، خوشحالی آئی ہے، لو گو ں کی دنیا بھر سے آمد کی وجہ سے اسٹیشن پر بھی رونق رہتی ہے۔کا روبار بھی خوب پھلا پھو لا ہے ، یہ امن آشتی کا گہو ارہ شہر بن گیا ہے اور مسلمانو ں سے زیادہ ہندوآبادی ہے لیکن کبھی کوئی فساد نہیں ہوا مگر اب نا م بدل کر کد ورت پید اکر نے کی گھناو¿نی سازش کی جارہی ہے 
  دارالعلوم 30 مئی 1856 ءمیں قائم ہو ا تھا ۔ انگریز وں کی غلا ما نہ ثقافت وتمد ن سے نفرت کی نشانی کے طورپر قائم ہو اتھا تاکہ مسلما نوں کو ان کے دین کی پوری آگاہی حاصل رہے ۔ہند کی آزادی کی جد وجہد میںدارالعلوم دیو بند کی قربانیو ںکو سب ہی تسلیم کر تے ہیں ۔ دیو بند میںدارالعلو م کے قیا م کے وقت آبادی ایک لا کھ تھی، اس کا نا م دیو بند کیو ں پڑ ااس بارے میں تاریخی دستاویزات خاموش ہیں تاہم اس بارے میںجو دلا ئل ہیں اس کےمطابق اس شہر کو مہا ہند سے جوڑتے ہیں اور دیوی ون نا م سے اخذ بتاتے ہیں۔ ون سے مر اد جنگل ہے جسکو بن بھی کہتے ہیں۔ دوسری دلیل یہ دیتے ہیںکہ اسکا پر انا نا م دیو ی ودن تھا کیونکہ یہا ں درگا دیو ی کا ٹھکا نہ تھا اسی طرح اس کا پر انا نا م دیو درند دھا م بھی بتایا جا تا ہے ،ڈیڑھ سو سال سے اسکانام سرکا ری کا غذات میں دیو بند ہے ، جو نیا نا م تجویز کیا جا رہا ہے اسکی تک نہیں ملتی ۔
  مودی حکومت آئین کے تحت بھی اخلا قی طورپر بھی ، اور قانو نی لحاظ سے بھی اس امر کی پابند ہے کہ وہ ہندوستانی عوام کے ما بین اخوت ، مو ودت اور بھا ئی چارہ کے استحکا م اور فروغ کی پا بند ہے مگر جب سے یہ حکومت قائم ہو ئی ہے تب سے اقلیت خاص طورپر مسلم جو دراصل ہند کی دوسری بڑی اکثریت ہے بے چینی کا شکا ر ہو رہی ہے۔مسلمانوںپر الزام لگا یا جا رہا ہے کہ وہ غیر ملکی ہیں اور انھو ں نے باہرسے آکر ہم پر حکومت کی ہے وغیر ہ وغیر ہ ۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہو ا بلکہ مسلمانوں کا دور حکومت بھا ئی چارے ، مذہبی ہم آہنگی کا شکا ر زما نہ قر ار پا تا ہے۔ یہ کدورتیں انگریز نے پید ا کیں جن کے انتہا پسند ہند و سہو لت کا ر بنے تھے۔ مودی صاحب کو معلوم ہو نا چاہیے کہ مسلما نو ں کے دور حکومت میں کبھی بھی مذہبی فسادات نہیں ہو ئے۔ یہ فسادات انگریز یا پھر ہند کے قیا م کے بعد ہو ئے ہیں۔ مسلمانو ں کے دورمیں پوری ہم آہنگی پا ئی جاتی تھی۔ اس امر کا اند ازہ اس تاریخی حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ اکبر بادشا ہ جس کو ہند و بڑے فخر سے مغل اعظم کہتے ہیں۔ مذہبی ہم آہنگی پید اکر نے کےلئے جو دھا بائی کو اہمیت دی ۔ ہمایو ں مغل بادشاہ کے دو ر میں کئی اہم ترین عہد ے ہندوو¿ں کے پا س تھے۔ جب مرہٹوں نے خلد ی گھا ٹی پر حملہ کیا تو اس وقت اکبر میدان جنگ میںمو جود نہ تھا بلکہ اس کے سپہ سالار قیا دت میں فوج گھا ٹی میں صف آراءتھی اور اس فوج کا کما نڈرانچیف کوئی مسلمان نہیں تھا بلکہ ہندوتھا جس کا نا م تاریخ میںبہت نما یا ں طورپر آیا ہے ، یعنی راجا مان سنگھ۔اس راجہ مان سنگھ کا ڈپٹی کما نڈر شہزادہ سلیم تھا جسے دنیا شہنشاہ جہا نگیر کے نا م سے جا نتی ہے۔ ایک طر ف اکبر کی فوج تھی دوسری طر ف مر ہٹہ سردار رانا پر تاب سنگھ کی فوج کھڑی تھی جس کا سپہ سالار مسلما ن حکیم خان تھا ۔دونو ں فوجوں میں مسلما ن بھی اور ہندو بلکہ دوسرے مذاہب کے سپاہی بھی موجو د تھے۔ انگریز سے پہلے جتنی بھی جنگیں ریا ستوں کے درمیان ہوئی ہیں وہ سب مذہب کی بنیا د پر نہیں بلکہ بادشاہو ں ، نو ا بوں ، مہا راجوں اور جا گیر داروں کے ما بین ہوئی ہیں، ان میں مذہبی منا فرت نہیں تھی ۔
ٹیپو سلطان ہند وستان کا واحد حکمر ان ہے جس نے انگریز وں کی غلا می سے نجا ت حاصل کرنے کی غرض سے اپنی جان کی قربانی دی۔ اس سے پہلے اورنہ بعد میںکسی راجہ ، نو اب یا با دشاہ نے انگریز و ں کے ساتھ آزادی کی جنگ لڑی ۔ اسی وجہ سے سارے ہند وستان میں ٹیپو کو عزت کی نگا ہ سے دیکھا جا تا ہے۔ ہند وٹیپو سلطان کو مہا راجہ تسلیم کر تے ہیں اور کہتے بھی ہیں ۔تاریخ کے حوالے سے بات کی جا ئے تو معلو م ہو تا ہے کہ ایک مر تبہ مر ہٹو ں نے ٹیپو سلطان کی راجدھا نی سرنگا پٹم پر حملہ کیا لیکن انہیں سخت مزاحمت کا سامنا کر نا پڑ ا۔ جنگ بے نتیجہ رہی چنانچہ مرہٹہ فوج جو ما یو سی کا شکا ر ہو ئی تھی کہ وہ سرنگا پٹم فتح کئے بغیر واپس جا رہے ہیں تو انھوں نے جا تے ہو ئے سرنگاپٹم کا ایک مند ر مسما ر کر دیا۔ یہ غصہ مسلما نوں کیلئے نہیں تھا بلکہ شدید مزاحمت اور ناکامی کی بنا پر تھا لیکن یہاںیہ بات انتہائی قابل غور ہے کہ مر ہٹہ فوج جس مند ر کو مسما ر کر گئی تھیںاس کی مر مت ٹیپو سلطا ن نے کرا ئی۔ اس میں ہند و دھر م یا اسلا م کی بات نہیں تھی بلکہ ٹیپو سلطان نے ریا ست کے سربراہ کی حیثیت سے اپنا فرض نبھایا ۔اب بھلا کوئی وزیراعظم مو دی سے کوئی پو چھے کہ کیا وہ ان تاریخی حقیقتو ں کو جھٹلا سکتے ہیں۔ کوئی ایک واقعہ انگریزوں سے پہلے کا بتا دیں جب وہاں مسلمان حکمر ان تھے تو مذہبی منا فر ت کی بنیا د پر فتنہ فساد کو مو جب بنا ہو ۔ یہا ں تو یہ صورت حال ہے کہ خود ہی اکبر بادشاہ کو مغل اعظم کا خطاب دینے والے اس پر فخر کر نے والے حتیٰ کہ اس کی عظمت کو اجا گر نے کےلئے فلمیں تک بنائی جا تی ہیں جن میں سے2فلمیں تو یا د گا ربن گئیں: ایک مغل اعظم دوسری انا رکلی۔ اب مو دی کی حکوت یہ حرکت کر رہی ہے کہ دہلی میں ایک شاہر اہ کا نام اس مغل باد شاہ کے نا م پر شاہر اہ اکبر ہے ۔اس کا نام تبدیل کر کے رانا پر تاب رکھدیا جا ئے۔ اس بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ہما را ہیر و اکبر نہیں بلکہ رانا پر تا ب ہے۔ یہ وہی پر تا ب ہے جس نے اکبر سے ٹکر لی تھی اور اس کی فوج کا کمانڈر انچیف حکیم خان تھا ۔ 
٭٭٭٭٭٭

شیئر: