Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یوپی میں یوگی راج

 یوگی آج تک کسی انتظامی عہدے پر فائز نہیں رہے ، انہوں نے وزیرمملکت کے طورپر بھی ذمہ داریاں نہیں نبھائیں 
معصوم مرادآبادی
 
ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں غیر معمولی کامیابی حاصل کرنے کے بعد بی جے پی نے وزیراعلیٰ کا تاج ایک ایسے شخص کے سرپررکھاہے جو اپنی بدترین فرقہ وارانہ ذہنیت ، مسلم دشمنی اور بغض وعناد کیلئے بدنام ہے۔ اس شخص کا نام یوگی آدتیہ ناتھ ہے جو گورکھپور کے مشہور گورکھ ناتھ مندر کا مہنت ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ کے گرو مہنت اوید ھ ناتھ رام جنم بھومی تحریک کے اہم لیڈروں میں شامل تھے اور انہوں نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کی مہم میں سرگرم حصہ لیا تھا۔ مہنت اویدھ ناتھ نے اپنی زندگی میں ہی یوگی آدتیہ ناتھ کو اپنا جانشین مقرر کردیا تھا اور اپنی لوک سبھا سیٹ بھی انہیں دے دی تھی۔ یوگی 5 مرتبہ گورکھپور سے بی جے پی کے ٹکٹ پر چناؤ جیت چکے ہیں۔ اس عرصے میںانہوں نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ایسی فرقہ وارانہ زبان استعمال کی ہے جو یقینی طورپر کسی سیاست داں کی زبان نہیں ہوسکتی۔ یوگی آدتیہ ناتھ زعفرانی لباس پہنتے ہیں اور ان کے معمولات سادھو سنتوں جیسے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے لکھنؤ میں واقع وزیراعلیٰ کی سرکاری رہائش گاہ میں داخل ہونے سے قبل اس کی باقاعدہ’ ’شدھی ‘‘ کرائی ہے۔ 
 
یوگی کے سرپر یوپی کاتاج رکھے جانے کے فیصلے پر سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ بیشتر مبصرین نے اسے سیکولرزم اور جمہوریت کی شکست دینے اور ہندتو کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی کارروائی سے تعبیر کیا ہے۔ یوپی کی باگ ڈور یوگی کو سونپے جانے کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اترپردیش ملک کی سب سے بڑی ریاست ہونے کے ناطے گوناگوں مسائل سے دوچار ہے اور یہاں کی قیادت وہی شخص بخوبی کرسکتا ہے جو سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے کے ساتھ ساتھ سماج کے سبھی طبقوں کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور اسے ایڈمنسٹریشن کا بھی تجربہ ہو جبکہ یوگی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ آج تک کسی انتظامی عہدے پر فائز نہیں رہے اور انہوں نے وزیرمملکت کے طورپر بھی ذمہ داریاں نہیں نبھائیں ۔ان کی واحد امیج ہندوراشٹر کے پیروکار ایک ایسے شخص کی ہے جس کی زبان سے کبھی اتحاد واتفاق اور یکجہتی کی باتیں نہیں سنی گئیں حالانکہ اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں یوگی آدتیہ ناتھ نے اتنا ضرور کہا ہے کہ وہ تمام طبقوں کو ساتھ لے کر چلیں گے اور سب کا ساتھ سب کا وکاس کے منتر کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔ ظاہر ہے یہ وہ باتیں ہیںجنہیں زبان سے ادا کرنا کسی بھی دستوری سربراہ کے لئے ایک سیکولرجمہوری آئین کے تحت حلف برداری کے بعد ادا کرنا ضروری ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ کی اصل آزمائش عمل کے میدان میں ہوگی کہ وہ اترپردیش میں بسنے والی اقلیتوں اور خاص طورپر مسلمانوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں۔ یوگی کے اقتدار میں آنے کے بعد ان عناصر کے حوصلے بلند ہوئے ہیں جو اترپردیش میں فرقہ وارانہ یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے اور مسلمانوں کو اذیتیں پہنچانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اترپردیش کا مسلمان خوف کی نفسیات میں مبتلا نظر آتا ہے۔ پوری ریاست میں گوشت کے تاجروں اور دکان داروںکے خلاف کارروائیاں عروج پر ہیںکیونکہ بی جے پی صدر امت شاہ نے انتخابی مہم کے دوران یہ اعلان کیا تھا کہ بی جے پی اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلے مذبح خانوں کو بند کرے گی۔ 
 
یوگی آدتیہ ناتھ نے ماضی میں جو بیان بازی کی ہے اس کی ایک ہلکی سی جھلک ہم آپ کو یہاں دکھانا چاہتے ہیں۔ یوٹیوب پر دستیاب 2014کی ایک تقریر میں انہوں نے اعلان کیاہے کہ’’ اگر ایک ہندو لڑکی کسی مسلمان سے شادی کرتی ہے تو بدلے میں ہم 100مسلم لڑکیاں لیں گے۔ اگر وہ (مسلمان) ایک ہندو کو قتل کرتے ہیں تو ہم 100مسلمانوں کو قتل کریں گے۔ ‘‘ انہوں نے کھلے عام دھمکی دیتے ہوئے کہاتھا کہ’’ اگر اقلیتیں امن سے نہیں رہتیں تو ہم انہیں سکھائیں گے کہ امن سے کیسے رہتے ہیں اور اس زبان میں سمجھائیں گے جو انہیں سمجھ میں آتی ہے۔ ‘‘ ظاہر ہے یہ کسی ریاست کے وزیراعلیٰ کی زبان ہرگز نہیں ہوسکتی ۔ بات صرف یوگی آدتیہ ناتھ کے بیانات تک محدود نہیں ہیں بلکہ 2002میں انہوںنے ہندو یواواہنی قائم کی جوکہ سنگھ پریوار کی متعدد تنظیموں میں سے ایک ہے۔ اس تنظیم کے ارکان نے تشدد ، جارحانہ ، گئورکشا اور لو جہاد کے خلاف گھرواپسی جیسی مہم میں مہارت حاصل کرکے اچھی خاصی شہرت حاصل کرلی ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ اگر دومختلف مذاہب کے نوجوان عوامی طورپر ایک دوسرے سے پیار کرتے ہوئے نظرآتے ہیں تو یوگی نے دھمکی دی تھی کہ انہیں عوامی طورپر پھانسی پر لٹکادیا جائے گا۔ ‘‘یوگی آدتیہ ناتھ کی ہندویواواہنی نے کشی نگر ضلع میں کئی مسلم لڑکیوں کو زبردستی ہندودھرم قبول کرایا ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف دائر کئی مجرمانہ معاملوں میں اقدام قتل ، مذہبی عبادت گاہوں کو خراب کرنا ، خطرناک ہتھیاروں کے ساتھ فساد کرنے اور مجرمانہ طورپر دھمکیاں دینے کے معاملے شامل ہیں۔ ظاہر ہے کہ اب نئی حکومت اپنے وزیراعلیٰ کے خلاف یہ سارے معاملے واپس لے لے گی اور یوگی پوری طرح صاف ستھرے ہوجائیں گے۔ 
 
یوپی کی باگ ڈور یوگی آدتیہ ناتھ کو سونپے جانے کے بعد سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ اب ایودھیا تنازع کا کیا حشر ہوگا۔ کیونکہ یوپی اسمبلی کے انتخابی نتائج آنے کے بعد آر ایس ایس کے سینئر لیڈر ویدیہ نے کہاتھا کہ’’ اب بی جے پی کو یوپی میں اقتدار حاصل ہوگیا ہے لہٰذا وہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کرائے۔ اگر دیگر طریقوں سے ممکن نہ ہوتو اس کام کے لئے پارلیمنٹ سے باقاعدہ قانون پاس کرایا جائے۔‘‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ آر ایس ایس کی اس ہدایت پر مودی سرکار کیا پیش قدمی کرتی ہے۔ اس دوران سپریم کورٹ نے ایودھیا تنازع کا حل باہمی رضامندی سے نکالنے کا مشورہ دے کر بی جے پی کو ایک نیا ہتھیار دے دیا ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا کی بینچ نے کہاہے کہ یہ ایک حساس اور مذہبی جذبات سے متعلق معاملہ ہے اس لئے بہتر ہوگا کہ اس معاملے سے وابستہ تمام فریق اس کو باہمی رضامندی سے حل کرلیں اور اگر ضرورت پڑے تو سپریم کورٹ اس معاملے میں ثالثی کے لئے بھی تیار ہے۔ سپریم کورٹ کی اس تجویز کو اس تنازع کے دونوں فریقوں نے یہ کہتے ہوئے تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے کہ یہ معاملہ کافی آگے بڑھ گیا ہے اس لئے عدالت سے ہی حل ہوسکتا ہے۔ یوپی میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رامندر بنانے کی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں۔
 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں