Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئی پوچھنے والا نہیں ؟

 
محمد عتیق الرحمن ۔ فیصل آباد
 
ہند تیزی سے انتہاپسندی کی جانب گامزن ہے ۔حالیہ انتخابات میں ہندوستانی مسلمانوں کو ایک طرح سے غائب کردیاگیا ہے۔ 20کروڑ سے زائد والی آبادی میں مسلمانوں کے پاس صرف 10 سیٹیں ہیں اور یوپی میں مسلمانوں والے اکثریت علاقوں میں یہ پمفلٹ تقسیم ہوچکے ہیں کہ اب یو پی میں مسلمانوں کے لئے کوئی جگہ نہیں رہی، بہتر ہوگا کہ وہ کہیں اور آرام سے بسیرا کرلیں ۔دوسری طرف عالمی شہرت یافتہ مبلغ اسلام ڈاکٹر ذاکر نائیک کیخلاف فرقہ وارانہ جذبات بھڑکانے اور غیرقانونی سرگرمیوں کے مختلف دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی ۔ بنگلہ دیش میں گزشتہ سال ہونیو الے دہشت گردانہ حملے کے بعد سے ڈاکٹر ذاکر نائیک پر اس طرح کی کارروائیاں کی جارہی ہیں اور اب اسلامک ریسرچ فائونڈیشن ودیگر ادارے کی 18.37کروڑ کی املاک ہند ضبط کرچکا ہے ۔ایک طرح سے ہند میں ہندوکارڈ بڑی کامیابی سے کھیلا جارہاہے جہاں مسلمانوں کو مجبور کرکے علاقوں سے نکالاجارہاہے وہیں عام ہندوئوں کو مسلمانوں کے خلاف کرنے اور اپنے حق میں استعمال کرنے کی روایت عروج پر پہنچتی نظر آرہی ہے ۔
 
سن1527ء میں مغل بادشاہ کے دور میں تعمیر ہونے والی بابری مسجد کو1949ء میں بندکردیا گیا تھا جس کے بعد 1992ء میں انتہاپسندہندوئوں کی سازشوں سے3 لاکھ سے زائد ہتھوڑوں، ڈنڈوں اور تلواروں سے مسلح جنونی ہندو 16 ویں صدی کی تاریخی عبادت گاہ بابری مسجد پر پل پڑے اور صرف 4 گھنٹے میں مسجد کو مکمل شہید کر دیا۔ہندوئوں کے چوٹی کے لیڈر وہاں نہ صرف موجودتھے بلکہ ’’رام چندر جی کی جے ‘‘نے نعرے لگارہے تھے ۔اس کے بعد ہندومسلم فسادات ہوئے جن میں مسلمانوں کو چن چن کر شہید کیا گیا ۔بلاشبہ مسلمانوں کو ہزاروں کی تعداد میں تہہ تیغ کیا گیا ، املاک کو نقصان پہنچایا گیا اور مسلمانوں کیخلاف عرصہ حیات تنگ کیا گیا۔ یوگی آدتیہ ناتھ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ بن چکے ہیں جو کہ رام مندرتحریک سے جڑے ہوئے اور ہندوتوا کے کٹر حامی ہیں۔ حکومت اور انتہاپسندوں کے سامنے عدالتی نظام مجبور ہوچکاہے ۔سپریم کورٹ نے فریقین کو بابری مسجد تنازعہ کو عدالت سے باہر حل کرنے کا مشورہ دیاہے ۔3رکنی بنچ کے سربراہ اور چیف جسٹس سپریم کورٹ جے ایس کھیہر کا کہنا تھا کہ ایسے حساس معاملے میں بہتر ہوگا کہ فریقین آپس میں گفت و شنید کے ذریعے اس تنازعے کو ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے خود حل کریں۔ انہوں نے تجویز دی کہ فریقین تیار ہوں تو ان کی باہمی رضامندی سے سپریم کورٹ کے کسی بھی جج کو اس معاملے میں ثالث مقرر کیا جاسکتا ہے یعنی کہ جس زمین پر ایک لمبے عرصے سے مسلمانوں کی عبادت گاہ ہو، پہلے اس عبادت گاہ کو ختم کرو ، پھر عبادت کرنے والوں کو مارواور پھر ایک لمبے عرصے بعد عدالت عظمیٰ بیان دے کہ ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ معاملہ حل کیا جائے ۔ہند میں ہندو ایک لمبے عرصے سے جہاں مسلمانوں کو تنگ کئے ہوئے ہیں، وہیں دیگر اقلیتیوں کو بھی نشانے پر رکھا ہوا ہے ۔ حکومت بغیر کسی شک وشبہ کے ’’ہندوستان صرف ہندوئوں کا ‘‘ پر عمل ہوچکی ہے ۔
 
ماضی کی انہی غلطیوںکو سامنے رکھتے ہوئے اگر ہم ہندوستانی مسلمانوں کی جدوجہد کو دیکھتے ہیں جو وہ جاری رکھے ہوئے ہیں تو وہ حق پر نظر آتے ہیں ۔جہاں عبادت گاہیں محفوظ نہ ہوں ، جہاں ما ل محفوظ نہ ہو، جہاں عزتیں محفوظ نہ ہوں ، جہاں مائیں اپنی بیٹیوں کے جنم پر خوشی کی بجائے ایک انجانے خوف میں مبتلارہیں اور جہاں نامی گرامی مسلم اداکاروں کو انتہاپسندی کا سامنا کرنا پڑے ، جہاں گھر واپسی جیسی تحریکوں کی صورت میں غیر ہندوئوں کو ہندوبننے پر مجبور کیاجائے ۔ لو جہاد کے نام پر مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جائے اور جن کے بھائی کشمیر میں مظالم سے لڑ رہے ہوں ،عدالتیں حکومتی پالیسیوں کی ببانگ دہل حمایتی ہوں ،وہاں اقلیتیں کیا کریں گی ؟ہندوستانی مسلمان مضطرب ہیں اورسوال کناں ہیں کہ ان مسائل کو حل کرنے میں دیگر اسلامی ممالک حکومت پر دبائوکیوں نہیں ڈالتے ۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں