Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سو بچوں کے قاتل جاوید اقبال پر بنی فلم کی نمائش کیوں روکی گئی؟

فلم میں اداکار یاسر حسین اور عائشہ عمر مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں (فائل فوٹو: عائشہ عمر انسٹاگرام)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی حکومت نے سو بچوں کے قاتل جاوید اقبال پر بنی فلم ’جاوید اقبال‘ کی نمائش آخری وقت میں روک دی ہے۔
فلم کو 28 جنوری کو پنجاب بھر کے سنیما گھروں میں ریلیز ہونا تھا تاہم آخری وقت میں پنجاب فلم سنسر بورڈ کی طرف سے ایک ہنگامی حکم نامے کے بعد فلم کی نمائش کو 26 نومبر کی رات گئے روک دیا گیا۔
پنجاب فلم سنسر بورڈ نے اس بات کی کوئی وجہ تو نہیں بتائی تاہم صرف سنیما مالکان کو یہ بتایا گیا کہ اس فلم کے خلاف عوام کی شکایات موصول ہوئی ہیں اس لیے اس کو عارضی طور پر نمائش کے لیے روکا گیا ہے۔ سنسر بورڈ اس فلم کا دوبارہ جائزہ لے گا۔
فلم کے رائٹر اور ڈائریکٹر ابو علیحہ نے اس حکومتی فیصلے کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کیا ہے۔
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’پنجاب فلم سنسر بورڈ کو جب یہ فلم دو ماہ قبل ریویو کے لیے پیش کی گئی تو انہوں نے فلم دیکھنے کے بعد اس کام کو سراہا اور سرٹیفیکیٹ جاری کیا، تاہم وہ سرٹیفیکیٹ اے فلم کا جاری کیا گیا جس کے مطابق یہ فلم بچوں کو دکھائے جانے کے قابل نہیں صرف بڑی عمر کے افراد ہی اس کو دیکھ سکتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ سرٹیفیکیٹ ملنے کے بعد 28 جنوری کی تاریخ رکھی گئی کہ پنجاب بھر کے سنیما گھروں میں اس کی نمائش کی جائے گی اس کا پریمیئر بھی ہوگا۔
خیال رہے کہ جاوید اقبال نامی یہ فلم سندھ میں ریلیز ہوچکی ہے اور کراچی میں اس کا پریمیئر گذشتہ ہفتے ہوا تھا۔ جاوید اقبال نامی کردار پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں سال 2000 میں سامنے آیا جب اس نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ اس نے 100 بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرکے انہیں قتل کیا ہے اور اس کے بعد ان کی نعشیں تیزاب کے ڈرموں میں جلا دی ہیں۔
اس کردار پر یہ  فلم 22 سال بعد بنائی گئی ہے جس میں ان تمام واقعات اور کرداروں کا احاطہ کیا گیا ہے جو کسی نہ کسی طریقے سے 100 بچوں کے قاتل کی اس کہانی سے جڑے ہوئے ہیں۔
فلم کے ہدایت کار ابو علیحہ کا کہنا ہے کہ ’پنجاب حکومت اس فلم پر پابندی عائد کرسکتی تھی لیکن فلم کو آخری وقت پر نمائش سے روکنے کا اختیار فلم سنسر بورڈ کے پاس نہیں ہے، یہ سراسر غیر قانونی حرکت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں۔‘

فلم میں اداکارہ عائشہ عمر پولیس افسر کا کردار ادا کر رہی ہیں (فائل فوٹو: عائشہ عمر انسٹاگرام)

انہوں نے کہا کہ پٹیشن تیار ہوچکی ہے جو کسی بھی وقت دائر کر دی جائے گی لیکن اس سے پہلے ہم انتظار کریں گے کہ حکومت اپنا یہ غیر قانونی فیصلہ واپس لے۔
انہوں نے بتایا کہ ’حکومت کے پاس اس بات کا اختیار نہیں کہ وہ فلم کو آخری وقت پر چلنے سے روک دے۔ یہ بات نہ صرف آزادی اظہار رائے کے خلاف ہے بلکہ ملک کے اپنے قوانین کے بھی خلاف ہے۔‘
ابو علیحہ نے بتایا کہ ’فلم سنسر بورڈ پہلے ہی مرحلے پر فلم کو نمائش کی اجازت نہ دیتا تو ہمارے پاس قانونی راستے تھے۔ ہم قانونی طریقے سے ہی اس فلم کی نمائش کا اعلان کرتے ہیں لیکن آخری وقت میں فلم کی نمائش روکنا سراسر زیادتی ہے۔‘
دوسری طرف فلم سنسر بورڈ نے فلم کی نمائش رکوانے کے حوالے سے کسی طرح کا کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے البتہ مختلف سنیما گھروں کے مالکان نے اردو نیوز کو بتایا کہ واٹس اپ گروپس کے اندر آخری وقت میں فلم کی نمائش روکنے کا حکم نامہ جاری کیا گیا جس میں صرف یہ تحریر درج ہے کہ بورڈ اس فلم کو ایک دفعہ دوبارہ ریویو کرے گا لہٰذا 28 جنوری کو اس کی نمائش نہ کی جائے۔
فلم کے مرکزی کردار یاسر حسین نے انسٹاگرام پر لکھا کہ فلم پر پابندی کی وجہ سمجھ سے باہر ہے۔
’فلم جاوید اقبال میں بولا گیا سچ ہضم نہیں ہوا یا کسی کو شو پر بلانا بھول گئے۔ کیا اس ملک کے سنیما میں صرف کرکٹ میچ اور ٹی وی ڈرامے چلیں گے؟ یا انڈیپینڈنٹ فلم میکرز کو بھی چانس ملے گا؟ جس ملک میں ڈالر قابو میں نہ آرہا ہو وہاں آرٹ کی کیا دھائی دیں، سیڈ ویری سیڈ۔‘
اداکارہ عائشہ عمر نے انسٹاگرام پر لکھا کہ فلم کو نہ دکھانا بہت افسوس ناک ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ’سچے واقعات پر مبنی فلمیں جو جاوید اقبال جیسے سیریل کلرز کی نفسیات کو بے نقاب کرتی ہیں جو بچوں کے اغوا، زیادتی اور قتل جیسے مسائل پر بات کرتی ہیں اور معاشرے کے تاریک پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہے، بہت اہم ہیں۔ انہیں بنانے اور دیکھنے کی ضرورت ہے۔‘
اردو نیوز نے اس حوالے سے پنجاب حکومت کے ترجمان حسان خاور سے بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کی اور انہیں اس فلم سے متعلق سوالات بھی پوچھے لیکن انہوں نے اس حوالے سے کوئی جواب نہیں دیا ہے۔

شیئر: