Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پردیس کی عید

نماز پڑھ کر آیا تو خالی گھر دیکھ کر قدم بھاری ہوتے چلے گئے، ایسا لگا عید گاہ سے کمرے تک کا سفر کئی ہزار کلو میٹر تک کا ہوگیا ہے

مصطفی حبیب صدیقی

پردیس میں یہ میری پہلی عید الاضحی تھی۔عید پر تو میرے خسر صاحب ساتھ تھے تو کچھ نا کچھ تنہائی کم ہوگئی تھی مگر اس مرتبہ وہ پاکستان چھٹیوں پر گئے ہوئے تھے۔میں اکثر دوسروں کی کہانی کی تلاش میں رہتا ہوں ،مگرکیا بتائوں کہ میں تو خود ایک کہانی بن گیا ۔ عید کی نماز پڑھ کر عید گاہ سے باہر نکلا ۔ہر چہرے پر نظر ڈالتا ،اکا دکا محلے کے جاننے والے ملے ۔جنہوںنے گلے لگایا۔خیر خیریت پوچھی اور پھر چل دیئے۔دفتر کے ساتھیوںنے کہا کہ بھائی بڑی نیند آرہی ہے ۔دن میں ملیں گے اور چلتے بنے۔عید گاہ سے اپنے کمرے تک آنے کا سفر گویا کئی ہزار کلومیٹر تک کا ہوگیا۔قدم بھاری ہوتے چلے گئے۔کمرہ جس قدر قریب آتا دل اس قدر ہولنے لگتا۔کمرے میں 3دیگر لوگوں کے ہونے کے باوجود کمرے کی تنہائی سے ڈر لگ رہا تھا۔عجیب سا خوف تھا کہ نجانے جب کمرے کا دروازہ کھولوں گا اور سامنے امی ،بھائی ،بہن اور بیوی بچے نہیں ہونگے تو کہیں مجھے ہارٹ اٹیک ہی نہ ہوجائے۔

اسی خوف کے عالم میںعمار ت کی سیڑھیاں چڑھتا چلاگیا۔کسی نا کسی طرح دروازہ کھولا اور کمرے میں داخل ہوا۔سامنے ہند کے ثقافتی وادبی شہر لکھنو سے تعلق رکھنے والے حیدرعلی بھائی کھڑے مسکرارہے تھے۔ ’’آئیے آئیے مصطفی بھائی ۔عید مبارک ،چلیں میٹھا کھائیں‘‘حیدر بھائی نے نہایت محبت سے گلے لگایا اور سویاں پیش کیں۔میں نے بھی مسکراکر ان کو عید مبارک کہا اور پھر کچھ دیر بعد کمرے میں طویل خاموشی کا راج تھا۔حیدر بھائی نے لایٹیں بند کیں او ر سونے لیٹ گئے۔ مجھے ایسا لگا جیسے کمرے سے ہول آرہا ہو۔خوف محسوس ہورہا تھا ،دل اس قدر تیزی سے دھڑک رہا تھا کہ اگر کوئی ایک بازو کے فاصلے پر بھی ہوتا تو دھڑکن سن سکتا تھا۔پاکستان فون کیا کہ بیگم بچوں سے اسکائپ پر بات کرلوں مگر انٹرنیٹ کا کوئی مسئلہ درپیش تھا۔آخر کار گھبرا کر باہرنکل گیا۔ وہ عید میں نے ریاض میں چیمبر آف کامرس کے سامنے حارہ کی چورنگی پر بیٹھ کر گزاری۔ہر جاننے والے کو فون کیا۔عید پر ریاض شہر کا حال ویسا ہے ہوتا ہے جیسا پاکستان میں اسلام آباد کا ہوتا ہے۔یعنی قریبی شہروںسے آنے والے واپس چلے جاتے ہیں جبکہ اکثر خارجی مکہ مدینہ میں عید منانے نکل جاتے ہیں۔میں نے اس طرح کا کوئی پروگرام نہیں بنایا تھا۔ چورنگی پر بیٹھے بیٹھے گاڑیاں گنتا رہا۔ہر ایک گاڑی کے بعد دوسری گاڑی کے گزرنے کا وقت 3 سے 4منٹ تھا۔ہوکا عالم تھا۔دل چاہ رہاتھا کوئی ملے اور میں اس سے لپٹ جائوں ۔خوب روئوں،دل کا غبار نکال دوں،ایک دل کہتا بس چل چھوڑ سب کچھ اور واپس چل مگر پھر اپنے ساتھ جڑے نصیب فیصلہ نہیں کرنے دیتے۔ذمہ داریاں اتنی تیزی سے دماغ کے گرد گردش کرتیں کہ یہ تنہائی معمولی لگنے لگتی۔ اسی تنہائی کے عالم میں بیٹھے بیٹھے نجانے کب ظہر کی اذان ہوئی تو دل کو سکون ملا کہ چلو مسجد میں رب سے ملاقات کے ساتھ رب کے بندوں کا بھی دیدار ہوجائے گا۔مسجد پہنچنے پر معلوم ہوا کہ میرے جاننے والے تو تقریباً سب ہی یا تو قربانی کے بعد تھک ہار کر سوگئے یا پھر دوسرے شہروں میں نکل گئے۔

چند ایک سے علیک سلیک ہوئی۔اور پھر وہی تنہائی۔ وہ دن شاید کبھی نہ بھلا سکوں۔کمرے میں آنے کے بجائے یوں ہی سڑک پر مٹر گشت کرتا رہا۔اسی طرح مغرب ہوگئی ،جس کے بعد صر ف وقت کاٹنے کیلئے ہوٹل کا رخ کیا۔حارہ میں بنگالی اور پاکستانیوں سمیت کیرالہ کے اچھے ہوٹل ہیں تاہم اس دن وہ بھی چند ایک ہی کھلے ملے۔ایک ہوٹل میں جابیٹھا اور سوچنے لگا کہ کیا کھائوں کہ اسی اثنا ء میں کانوں میں سسکیوں کی آواز محسوس ہوئی۔کچھ غور کیا تو 50،60 سال کے لگ بھگ شخص نظریں موبائل پر گاڑھے خود کو رونے سے روکنے کی ہرممکن کوشش کررہا تھا۔ ’’السلام علیکم!میرا نام مصطفی حبیب ہے ،میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں‘‘ حسب روایت میں نے اپنی تنہائی دور کرتے ہوئے خود ہی اپنا تعارف کرادیا۔ وعلیکم والسلام بیٹا!وہ صاحب سلام کا جواب دے کر ایسے نظریں چرانے لگے کہ جیسے شرمند ہ ہوں کہ ان کی سسکیوںکی آواز میںنے نہ سن لی ہو۔

’’انکل !کوئی بات نہیں ،صبح سے میں بھی یہی کررہا ہوں،ایک ہی درد ہے ،پریشان نہ ہوں‘‘ میں نے بلاجھجھک پوری بات کہہ دی۔وہ کچھ بہتر ہوئے ۔پھر گپ شپ شروع ہوئی۔ ’’بس بیٹا کئی برس ہوگئے تنہا عیدیں گزارتے ،اب تو یہ دیکھو میری نواسی کی تصویر بھیجی ہے ،کتنی پیاری ہے ،ابھی پیدا ہوئی ہے ،بس دل چاہ رہا ہے کہ اٹھا کر چوم لوں ،دل سے لگالوں،میری جگر کا ٹکڑا ہو جیسے مگر کیا کروں بس اس لئے آنسو نکل پڑے‘‘۔رزاق صاحب ایک ہی سانس میں وضاحت سمیت وجہ بیان کرنے لگے۔میں نے رزاق صاحب کے مزید قریب ہوتے کہا کہ ’’مت روئیں اور فیصلہ کریں ،ورنہ موت تک ہر عید پر ایسے ہی روتے رہیں گے‘‘۔ رزاق صاحب کو شاید مجھ سے اتنی براہ راست ایسی بات کی توقع نہیں تھی۔چونک کر اور حیرت کیساتھ میری طرف دیکھنے لگے۔ ’’بیٹا کہنا بہت آسان ہے ،مگر جس پر بیتتی ہے وہی جانتا ہے،تم تو ابھی نوجوان ہو ،میں تو بوڑھا ہورہا ہے ،کیا کرونگا جاکر ،تم جانتے ہو پاکستان میں کیا رکھا ہے ،نہ پانی،نہ بجلی نہ ہی امن ،ابھی 2اور بیٹیاں بھی ہیں کیسے چلا جائوں‘‘۔ رزاق صاحب سے اور بھی بہت سے باتیں ہوئی مگر حقیقت یہ ہے کہ پردیس میں رہنے والوں کا دل ’’چوہے‘‘ کا ہوجاتا ہے۔ہم سب کا یہی حال ہے ۔بس رزاق صاحب کا کیا قصور۔۔۔۔۔۔۔۔ہماری ذمہ داریاں ہمیں جانے نہیں دیتیں اور بعض اوقات جب جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔وہی لوگ زندگی بھر باہر گزارنے کا طعنہ دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بڑا مجبور ہوتا ہے پردیسی ۔غریب الدیار ہوتا ہے پردیسی۔۔

شیئر: