Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انتظار مت کرنا

*عشرت معین سیما ( برلن ۔ جرمنی ) *

وہ رات تھی ہی اتنی طویل کہ صبح پر سے میرا ایمان اُٹھتا چلا جارہا تھا۔ خدا خدا کرکے مسجد کے موذن نے آذان دیکر یہ نوید سنائی کہ صبح ہو گئی ہے۔ مگر مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ میری زندگی کی ایک اندھیری صبح ہے۔ بلو دودھ والے نے دروازے کا کنڈا زور زور سے کھٹکھٹانا شروع کر دیا۔’’ افوہ! آرہی ہوں‘‘۔۔۔اپنے تھکے ہارے جسم کو چارپائی پر سے اُٹھاتے ہوئے میں نے آواز لگائی اور آنکھیں ملتی ہوئی دروازے کی جانب بڑھی ،پاس رکھا اور دودھ کا برتن تھوڑا سا دروازہ کھول کر آگے بڑھا دیا۔ اچانک ایک ٹھنڈا یخ ہاتھ میرے ہاتھوں کی گرمی کو اپنے اندر سمونے لگا۔میں ڈر کر پیچھے ہٹ گئی۔مُنہ سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ توصیف ! آپ ۔۔۔؟؟ آپ اتنی صبح صبح کیوں آئے ہیں ؟؟۔۔کسی نے دیکھ لیا تو؟؟۔۔۔میں حیا اور خوف کے ملے جلے احساسات کے ساتھ اپنے ہونے والے رفیقِ حیات سے اور بھی کچھ کہنا چاہتی تھی مگر انہوں نے میرے مُنہ پر ہاتھ رکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ ’’ کیا بات ہے ؟ ‘‘۔۔۔ میرے مُنہ سے بے ساختہ نکلا اورساتھ ہی میرا دل دھک دھک کرنے لگا ، آنکھیں متجسس سوالی کی طرح اُن کے چہرے کا طواف کرنے لگیں۔ توصیف نے رُک رُک کر بولنا شروع کیا ۔۔۔۔’’ دیکھو شہر کے حالات بہت خراب ہیں ۔۔۔ آزاد سیاسی پارٹی اور حکومت کے چمچے یعنی پولیس والے ہم لوگوں۔۔۔میرا مطلب ہے کہ۔۔۔ حمایت اللہ گروپ کے لوگوں کو ختم کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔۔۔وہ ہمارے نوجوانوں کو گھروں سے اُٹھا رہے ہیں۔

جیلوں اور اذیت خانوں میں رکھ کر اتنی بے دردی سے پیٹتے ہیں کہ ۔۔۔‘‘ ’’ہاں ! ہاں ۔۔مجھے سب معلوم ہے‘‘۔۔۔ میں نے توصیف کی بات کاٹی اور پوچھا۔ ’’ آپ بتائیے آپ کے ساتھ کیا ہوا ہے؟‘‘ ۔۔۔۔وہ لوگ میری بھی تلاش میں ہیں ۔ میں کچھ دنوں کے لئے انڈر گرائونڈ ہو رہا ہوں اور اس کے بعد پتہ نہیں کیا ہوگا؟ میں اس ملک میں رہوں یا کہ نہیں کچھ خبر نہیں۔۔۔تم اپنا خیال رکھنا۔۔۔اور ۔۔اور میرا انتظار مت کرنا۔۔۔۔وہ لفظوں کی کلاشنکوف سے میری سماعت کو چھلنی کرتے ہوئے یکایک چلے گئے۔ مجھے نہیں معلوم کہاں اور کیسے گئے۔ اُن کی بوڑھی ماں بھی پولیس والوں کو ان سوالوں کے جواب نہ دے سکیں بس جھر جھر آنسو بہتے تھے اور وہ بھی اُس دن بند ہو گئے جس دن وہ زمین کا ایک کونا اوڑھ کر بڑی لمبی اور میٹھی نیند سو گئیں۔۔۔میرا انتظار مت کرنا!۔۔۔کہہ تو دیا تھا انہوں نے مگر پھر بھی میں اس انتظار کی آگ میں جل رہی تھی جس کا دھواں رفتہ رفتہ میری سانسوں میں زہر بن کر سرائیت کرتا جارہا تھا۔ مرے شوخ و چنچل روپ نے سادگی اور سنجیدگی اختیار کر لی تھی۔ اس سدا چلتی رہنے والی زبان پر اچانک تالے پڑ گئے تھے۔ ہر وقت کانوں میں ایک ہی جملہ گونجنے لگا تھا۔۔۔میرا انتظار مت کرنا۔۔۔ وقت کے ساتھ ساتھ ایک دن اِن انتظار کی لاشعوری اُمیدوں نے بھی دل کی دیواروں سے سر ٹکرا ٹکرا کر شاید دم توڑ دیا تھا۔ میں سمجھی تھی کہ شعیب احمد کی زندگی میں داخل ہونے کے بعد وہ طوفان گزر گیا ہے۔ یوں بھی جب سے میرے بیٹے محب نے میری زندگی میں اپنے ننھے ننھے قدم رکھے تو یادوں کے تالاب میں کنکر پھینکنے کی فُرصت ہی نہ رہی اور دوسرا بیوی اور ماں کا روپ دھار کر تو میں نے خود بہ خود ہی اپنے اندر کی عورت سے نباہ کر لی تھی۔ کبھی کبھی جب ماضی کا کوئی رنگین جھونکا کسی رات خیالوں کے در کھٹکھٹا تا تو میں کسی خوفزدہ خرگوش کی طرح اپنا چہرہ شعیب احمد کے سینے میں چھپا لیتی یا پھر محب کو بلا وجہ اپنے سینے سے لگا کربے اختیار و بے تحاشہ چومنے لگتی تو وہ جھونکا خود ہی کسی اور سمت چل پڑتا ۔۔۔۔میں نے یہ مان لیا تھا کہ گزرے لمحوں کی پرچھائیوں سے پیچھا چھڑانا مشکل ضرور ہے مگر نا ممکن نہیں۔۔۔۔۔لیکن آج پچیس سال گزرنے کے بعد مجھے اپنا یہ خیال جھٹلانا پڑ رہا ہے کیونکہ چند ماہ قبل محب اچانک بے وقت یونیورسٹی سے گھر چلا آیا اور جلدی جلدی اپنا ضروری سامان سمیٹنے لگا۔ میرا خیال تھا کہ دوستوں کے ساتھ کہیں تفریح کا ارادہ ہے تب ہی میں نے پوچھا ’’ کہاں ؟ جناب! کہاں کے ارادے ہیں؟؟ امی ا اور ابو کی اجازت تو درکنار ۔۔آپ تو ہمیں بتانے کی زحمت بھی نہیں کر رہے!!! ‘‘ محب نے اپنی وحشت بھری آنکھوں سے میری جانب دیکھا اور میرے شانوں کو اپنے دونوں ہاتھوں سے تھامتے ہوئے کہا کہ ’’ امی! ایک پرابلم ہو گئی ہے۔۔۔۔آپ کو تو معلوم ہے کہ ہماری اسٹوڈنٹ یونین آزاد سیاسی پارٹی کی ایک شاخ ہے۔۔۔جو گذشتہ کئی سالوں سے اس ملک میں اپوزیشن کے طور پر کام کر رہی ہے۔ہمارا مقصد آزادی ہے۔۔۔اِس جاگیردارانہ اور سرمایہ دار نظام سے آزادی۔۔۔یہ جاگیردارانہ اور سرمایہ کاروں کا خود ساختہ نظام ہمارے ملک کو دیمک کی طرح کھا رہا ہے ۔ اس حکومت کے کتے شہر میں پھر سے بھونکنے لگے ہیں۔۔۔حمایت اللہ پارٹی کے لوگ ہمارے لوگوں کو شہر سے اُٹھا رہے ہیں اور اپنے بنائے ہوئے اذیت خانوں میں اُن پر اتنا ظلم کرتے ہیں کہ زندہ بچ جانے پر بھی وہ مُردوں سے کم نہیں ہوتے۔ اس سے قبل کہ پولیس اور اُن کے آدمی مجھ تک پہنچیں مجھے انڈرگرائونڈ ہونے کا حکم آیا ہے۔ ہوسکتا ہے کی میں ملک سے باہر چلا جائوں۔۔۔یا۔۔۔پتہ نہیں کیا ہو؟ مگر میں آپ کو اپنی خیریت کی اطلاع کسی نہ کسی طرح پہونچواتا رہونگا۔۔۔آپ بالکل فکر نہ کیجیے گا۔۔۔اپنا دھیان رکھئے گا۔۔۔اور میرا انتظار مت کیجیے گا۔۔۔۔مجھے ایسا لگا کہ گذرا وقت پھر سے میرے سامنے تن کر کھڑا ہو گیا ہے۔

میری سماعت پر پھر سے ہتھوڑے برسنے لگے ہیں۔۔۔۔میرا انتظار مت کرنا۔۔۔۔میرا انتظار مت کرنا۔۔۔محب ! ۔۔۔محب!!! میں پکارتی رہ گئی اور وہ پچھلے دروازے سے نکل کر چلا گیا۔پولیس کی جرح، شعیب کے سوالات اور اپنے اندر کی عورت کی پکار سنتے سنتے میں چکرا کر گر پڑی۔۔۔۔اور پھر مجھے نہیں معلوم کہ کیاہوا ہے۔ میں پچھلے سات ماہ سے دماغی امراض کے اسپتال میں زیرِ علاج ہوں۔آج مکمل ہوش میں آئی ہوں ۔ نرس بتا رہی ہے کہ اس دوران زرا زرا سی دیر کے لئے ہوش آتا تھا تو عجیب بہکی بہکی باتیں کرتی تھی۔کبھی حمایت اللہ گروپ کے لوگوں کو بد دعائیں دیتی تھی اور کبھی آزاد سیاسی پارٹی کو گالیاں اور کوسنے دیتی تھی۔ درس گاہوں کے تقدس، درمیانی طبقہ کے نوجوانوں ، حکومت ، پولیس اور فوج کے متعلق پتہ نہیں کیا کیا حساب گنتی کی طرح انگلیوں پر لگاتی رہتی پھر اچانک رونے اور چلانے لگتی اور ساتھ ساتھ کہتی جاتی کہ ۔۔۔’’ میں نہیں کرونگی انتظار۔۔۔نہ ہی کسی آزاد سیاسی نظام کا ۔۔۔نہ کسی حمایت اللہ گروپ کے کسی معاشرے کا۔۔۔اور نہ ہی اپنی عمرِ رائگاں کے اُن حصوں کا ۔۔۔جو توصیف اور محب کے انتظار میں گزر گئے اور گزر رہے ہیں۔‘‘

شیئر: