Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عربی سیکھنے کیلئےآسان اسباق پر مشتمل سلسلہ اردو داں طبقے کیلئےمعاون ہوگا

جس طرح انسانوں، جانوروں اور جمادات اور نباتات کی طرف اشارہ کرنے کیلئے عربی میںمخصوص الفاظ ہیں ، اسی طرح جگہوں کی طرف اشارہ کرنے کیلئے بھی مخصوص الفاظ ہیں۔
اگر وہ جگہ جس کو عربی میں مکان کہتے ہیں قریب ہوتو اس کی طرف اشارہ کرنے کے لئے مخصوص الفاظ ھنا یا ھاھنا ہیں ۔ ھنا سادہ اسم اشارہ ہے اور ھاھنا میں ’’ھا‘‘ تنبیہ کے لئے ہے۔
قرآن پاک میں آیا ہے کہ جب موسیٰ علیہ الصلاۃ السلام نے اپنی قوم بنو اسرائیل کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ مقدس سرزمین شام میں داخل ہوں جو اللہ نے ان کے لئے لکھ دی تھی اور جس کا ایک علاقہ فلسطین ہے جو اس زمانے میں’’ کنعان‘‘کہلاتا تھا تو انہوں نے اپنے رسول علیہ الصلاۃ السلام کو جواب دیتے ہوئے کہا تھا وہاں تو بڑے جابر اور زبردست لوگ ہیں ’’ إنا ھاھنا قاعدون‘‘ درحقیقت ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے۔
دور کی جگہ یامکان بعید کی طرف اشارہ کرنے کیلئے ھناک ہے جس میں ’’ک‘‘ کے ساتھ بطور تاکید ’’ل‘‘ کا اضافہ بھی کردیا جاتا ہے یعنی ’’ھنالک‘‘ قرآن پاک میں ھنالک ہی آیا ہے۔
زکریا علیہ الصلاۃ السلام کے بارے میں آیا ہے : ’’ھنالک دعا زکریاربہ‘‘ وہیں زکریا نے اپنے رب کو پکارا ، اپنے رب سے دعا کی۔
مکان بعید کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ثَمَّ بھی آتا ہے جس کے آخر میں تائے مربوطہ بڑھا کر ثَمۃَ بھی کہا جاتا ہے اور تا کا لفظ ’’ہا‘‘ کیا جاتا ہے،’’ ثَمَّۃْ ‘‘قرآن پاک میں ہے :’’وَأزلفنا ثَمَّ الآخرین ‘‘ اور وہیں ہم دوسروں کو قریب لے آئے۔
اسم اشارہ ’’ذا‘‘ کے آخر میں مخاطب کا کاف بڑھا دیتے ہیں تو وہ کسی دور کے شخص یا چیز کی طرف اشارہ کرنے کیلئے خاص ہوجاتا ہے جیسے ’’ذاک‘‘ اور کاف کے ساتھ لام بھی لایا جاتا ہے اور نہیں بھی لایا جاتا دونوں درست ہے ۔
قرآن پاک میں ’’ذالک‘‘ ہی آیا ہے ، لام کے ساتھ۔ ذاک اور ذالک میں جو کاف ہے یہ مخاطب کا کاف ہے اور ضمیر مخاطب ہے اور ضمیروں کی تین قسمیں ہیں؟ واحد، تثنیہ اور جمع ،
فصیح عربی زبان میں مخاطب کی تعداد کے اعتبار سے یہ ضمیر بدلتی رہتی ہے اگر مخاطب ایک یا واحد ہو تو ذالک کہیں گے، اگر مثنیٰ ہوتو ذالکما اور جمع ہوتو ذالکم۔
قرآن پاک میں ہے ، ذٰلکما مما عَلَّمَنِیْ ربی ‘‘ یہ ان باتوں میں سے ہے جن کا علم میرے رب نے مجھے دیا ہے‘‘۔ (سورۃ یوسف37)
یہ بات یوسف علیہ الصلاۃ السلام نے اپنے دونوں قیدی ساتھیوں سے کہی تھی اور ان کی تعداد کا لحاظ کرتے ہوئے ذالکما کہا تھا جسمیں ’’کُما ‘‘مثنی مخاطب کی ضمیر ہے ۔ مخاطب کی ضمیر جمع ’’کم‘‘ ہے اس کی رعایت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ذٰلکم اللہ رَبکم‘‘ وہی اللہ تمہارا رب ہے ۔
متعدد آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور صفتوں کا بیان ہورہا تھا۔ اس لئے اسم اشارہ بعید استعمال کیا گیا ہے اور چونکہ مخاطب ایک پوری جماعت تھی اس لئے ضمیر جمع مخاطب ذالکم استعمال کی گئی ہے ۔
عربی میں گنتی کو عدد اور جو چیز گنی جائے یا جس کی تعداد بیان کی جائے اس کو معدود کہتے ہیں۔ عربی زبان میں عدد کا استعمال بڑا مشکل سمجھا جاتا ہے اور ہے بھی مشکل ، عدد اگر ایک اور واحد ہو یا دو اور مثنیٰ تو وہ معدود کی صفت بن کر آتا ہے۔ جیسے کتاب واحدٌ ایک کتاب ، کتابان إثنان دو کتابیں ان مثالوں میں پہلی مثال میں واحد کتاب کی اور دوسری مثال میں إثنان کتابان کی صفت ہے۔
کتابان تثنیہ کا صیغہ ہے جس میں خود ہی دوکا معنی پایا جاتا ہے اس لئے اثنان صفت کے ساتھ کتابان کی تاکید ہے ۔
یاد رہے کہ صفت اعراب ، تعریف، تنکیر اور تذکیر و تانیث میں موصوف کے مطابق ہوتی ہے اور عربی میں موصوف پہلے اوراس کی صفت بعد میں آتی ہے جبکہ فارسی ، اردو اور انگریزی وغیرہ میں صفت پہلے آتی ہے اور موصوف بعد میں۔ تین سے دس یا ثلاث سے عَشْرٌ تک کے اعداد اپنے معدود کی طرف مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں اور ہر عدد کا معدود جمع ہوگا اور مضاف الیہ ہونے کی وجہ سے مجرور ہوگا اور تذکیر اور تانیث میں دونوں مختلف ہوں گے۔
یعنی تین سے دس یا ثلاث سے عَشْرٌ تک کے اعداد کا معدود اگر مذکر ہوگا تو عدد مؤنث لایا جائیگا اور اگر معدود مؤنث ہوگا تو عدد مذکر لایا جائیگا۔ مثلاً کتابٌ مذکر ہے اب اگر ہم تین کتابیں کہنا چاہیں تو کہیں گے ثلاثہُ کتبٍ اس مثال میں ثلاثۃ ثلاث کی تانیث ہے جس کی علامت تائے مربوطہ ہے اور کتب کتابٌ کی جمع ہے اور مذکر ہے اور ثلاثَہُ کی تاء پر تنوین کے بجائے صرف ایک ضمہ پیش ہے اس لئے کہ وہ مضاف ہے اور مضاف پر دوفتحہ ،یا دو کسرہ یا دو ضمہ نہیں آتا جس کو تنوین کہتے ہیں اور کتبٍ مجرور ہے جس کی علامت باء پر دو کسرہ یعنی زیر ہے اس لئے کہ وہ مضاف الیہ ہے اور مضاف الیہ ہمیشہ مجرور ہوتا ہے۔
تین سے دس تک کے اعداد کی مرکب مزید مثالیں پڑھ کر یاد کرلیجئے: أربعۃُ بیوتٍ چار گھر ، خمسۃُ اقلامٍ پانچ قلم، ستۃ طلابٍ چھ طلباء، سبعۃ ابوابٍ سات دروازے، ثمانیہُ رجال آٹھ مرد، تسعۃ أبناء نو بیٹے، عَشَرَۃ قمصانٍ دس قمیصیں۔
مذکورہ ساتوں مثالوں میں معدود مذکر تھے اس لئے اعداد مؤنث لائے گئے ہیں اب ہم مؤنث معدود کی مثالیں دیں گے۔ ثلاثُ بناتٍ تین بیٹیاں، أربع ساعاتٍ چار گھڑیاں، خمسُ أخواتٍ پانچ بہنیں ، ست غرفٍ چھ کمرے، سبع جامعاتٍ سات یونیورسٹیاں ثمانِی سور آٹھ سورتیں، تِسعُ قِصصٍ نو قصے، عَشْرُ قصائد، دس قصیدے، آپ نے غور کیا ہو تو ٹھیک ہے ورنہ یہ قاعدہ خوب اچھی طرح یاد کرلیں کہ عدد عَشَرَۃٌ میں عین شین اور راء سب پر فتحہ یعنی زبر آیا ہے لیکن اس لفظ کے مذکر کے صیغے عَشْرٌ میں شین ساکن ہے۔ اب انہی مثالوں کے مفید جملے بنائے : لی اخت واحدۃ میری ایک بہن ہے۔ لی أخوان إثنان میرے دو بھائی ہیں۔
عندی ساعتان اثنتان میرے پاس دو گھڑیاں ہیں۔ وعندہ ساعۃ واحدۃ اور اس کے پاس ایک گھڑی ہے عندی ثلاثہ کتب میرے پاس 3کتابیں ہیں فی سورۃ الفاتحہ سبع آیات سورۃ فاتحہ میں 7آیتیں ہیں عند أحمد أربعۃ أقلام احمد کے پاس چار قلم ہیں۔ فی ھٰذا البیت خمس غرف اس گھر میں پانچ کمرے ہیں۔ فی ھٰذا الفصل ثمانیہ طلاب اس کلاس میں آٹھ طلبہ ہیں۔ فی ھٰذا المستوصف سبع طبیبات ، اس پولی کلینک میں سات لیڈی ڈاکٹر ہیں فی کلیۃ الشریعۃ تسعۃ مدرسین شریعۃ کالج میں 9معلمین ہیں فی ھٰذہ المحکمۃِ خمسۃُ قضاۃٍ اس عدالت میں پانچ قاضی یا جج ہیں۔ ولسمیر أربۃُ إخوۃ سمیر کے چار بھائی ہیں۔
فی الأسبوعِ سبعۃ أیام ، ہفتہ میں سات دن ہیں یا ہوتے ہیں۔ فی ھٰذہ الکلیۃ تسعۃ فصولٍ ، اس کالج میں 9کلاسیں ہیں۔ لمدیر المدرسۃ سبعۃ أولاد ہیڈ ماسٹر کے سات بچے ہیں۔ فی مستشفیٰ الولادۃ تسع طبیبات، زچہ خانے میں 9لیڈی ڈاکٹر ہیں۔
آج کا سبق اسی پر تمام ہوتا ہے۔

شیئر: