Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچے والدین کا پَرتَوہوتے ہیں، ڈاکٹر آسیہ احمر

کیا کرکٹ،کیا فٹبال اورکیا دوڑ کے مقابلے، لڑکوں والے ہر کھیل میں شامل رہتی تھی، ہوا کے دوش پر گفتگو
- - - - - - - - - --
زینت شکیل۔جدہ
 -- - - - - - - - - - - -
انسان ہوا، پانی، مٹی اور آگ کا مرکب ہے۔ جب صاف ہوا، شفاف پانی بہترین مٹی اور سورج کی حرارت انسان تک پہنچتی ہے تو اس سے ایک بچہ صحت و تندرستی کے ساتھ عمر کے مراحل آسانی سے طے کرپاتا ہے لیکن جب جنگلات کو کاٹا جائے، ان کی جگہ سیمنٹ کے گھر تعمیر کرکے لکڑی کے فرنیچر سے سجاکر دھوپ و روشنی کے بجائے مصنوعی ماحول ، گھر کے اندر پیدا کیا جائے، سمندر کے پانی میں زہریلے مادے شامل کرنا کوئی خاص بات نہ سمجھی جائے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ اورکاربن مونو آکسائیڈ دھویں کی صورت میں ہوا میں ضرورت سے زیادہ شامل ہوجائے ، اس کے ساتھ بچوں کو کھیل کے میدان کی بجائے گھر پر کمپیوٹر میں مشغول کردیا جائے، جنک فوڈ دیکر گھر کے کھانوں سے دور رکھا جائے اور جب بیماریاں حاوی ہوجائیں تو سیمینارز اور کانفرنسوں میں سرجوڑ کر بیٹھا جائے اورایک دوسرے سے استفسار کیا جائے کہ ہوا میں آلودگی کیسے ختم کی جائے گی، گلیشیئرپگھل کر کرۂ ارض میں تبدیلی کا باعث بن رہے ہیں، اسکے کتنے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں؟ نیوکلیئر تجربہ گاہ یا یورینیم سے نکلنے والے زہر یعنی ٹاکسک مادوں سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟ اسی سلسلے میں سید محمد احمر اور ان کی اہلیہ ڈاکٹر آسیہ احمر سے بات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ پہلے زمانے کے بچے تو ماحولیاتی تبدیلی سے ناواقف تھے ۔
اب توسردی، گرمی ، بارش اور طوفان ہر چیز روز مرہ کی بات چیت میں شامل ہوگئی ہے۔ فلاں ملک میں اتنی اونچی سمندری لہریں آئیں کہ وہ تقریباً 12 میٹر کی بلندی تک جاپہنچیں اور ساحل پر بنے پل اور اسکے بعد بلند عمارتوں میں یوں پانی پہنچ گیا کہ چند لمحوں میں ہی سیکڑوں انسان لقمۂ اجل بن گئے۔ سمندر میں بننے والے بھنور زیر آب ہونے کی وجہ سے نظر نہیں آتے لیکن طوفانی صورت میں زمین پر آجانے سے زبردست تباہی آتی ہے۔ ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے آسیہ احمر نے خوراک کی طرف توجہ دلائی کہ آج کا انسان اپنی مادی ترقی سے بہت خوش ہے ۔یہ جانے بغیر کہ فطرت سے مخالف سمت کا سفر کتنا نقصان دہ ہے۔ سادگی اور محنت سے دور رہنا اور جنک فوڈز ، کولڈ ڈرنکس کی صورت میں اپنے اندر شکر کی فیکٹری تیار کرنا کس قدر سنگین نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ جب صحت درست نہیں ہوگی تو زندگی کیسے خوشگوار بن سکے گی۔
صحت اور تندرستی کیلئے ضروری ہے کہ سادہ غذا استعمال کی جائے تاہم ہفتہ میں ایک یا دو مرتبہ باہر کا مرغن کھایا جاسکتا ہے لیکن روزانہ کی بنیادپر جنک فوڈ کھانا بیماریوں کو دعوت دینے کے مترادف ہے کیونکہ باہر کے کھانے سے چکنائی زیادہ جسم میں داخل ہوجاتی ہے۔ جو بالآخر مٹاپے کا باعث بنتی ہے اور آجکل مٹاپا خود ایک بیماری کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ مٹاپے سے سستی و کاہلی پیدا ہوتی ہے اور جسم چاق و چوبند نہیں رہتا۔ جب جسم ،قدو کاٹھ کی مناسبت سے وزن کا حامل ہو تو بہت سی بیماریوں سے بچا رہتا ہے۔ بچپن کاذکر آیا تو ڈاکٹر آسیہ نے بتایا کہ میں بہت شرارتی ہوا کرتی تھی۔ چھت پر ، درختوں پر اور کھیل کے میدانوں میںہر جگہ پہنچ جاتی تھی۔ مغرب کی اذان کے وقت امی پکارتی رہتی تھیں لیکن میں ’’جی آئی امی جان‘‘ کہتی اور آنے میں دیر کردیتی تھی۔ ایک دن انہوں نے غصے میں کہہ دیا کہ تم ابھی چھت پر ہو جبکہ اس وقت دیواروں کے ساتھ اور درختوں پر چڑیلیں موجود ہوتی ہیں جو تمہیں پکڑ لیں گی۔ یہ سنا تو میری حالت یہ ہوئی کہ میں نے سیڑھی کا استعمال یہ سوچ کر نہیں کیا کہ اس میں دیرہوجائے گی چنانچہ براہ راست چھت سے صحن میں چھلانگ لگا دی، کافی چوٹیں آئیں لیکن شکر ہے جان بچ گئی۔ اس کے بعد سے سوچ لیا کہ جب بھی امی آواز دیں گی، فوراً ان کی بات مانوں گی ۔ کھیل جتنا بھی دلچسپ موڑ پر کیوں نہ ہو، فوراً واپس آجایا کروں گی۔ اب جب خود پر ذمہ داری پڑی تو ادراک ہوا کہ بچے تو والدین کا پرتو ہوتے ہیں۔
والد صاحب کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ہمارے والد ہمیشہ حو صلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ہمیں پڑھائی کے ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا مشورہ دیتے تھے کہ اس سے طالب علمی کازمانہ بے حد یادگار بن جاتاہے۔ انکا کہنا تھا کہ جہاں تعلیمی مدارج طے کرنا اہم ہوتا ہے، وہیں بچوں کو ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی دلچسپی لینی چاہئے۔ میں لڑکوں والے ہر کھیل میں شامل رہتی تھی۔ کیا کرکٹ،کیا فٹبال اورکیا دوڑ کے مقابلے۔خود گاڑی ڈرائیو کرکے کالج جاتی تھی۔ کئی لڑکیوں کو پک اینڈ ڈراپ بھی کردیا کرتی تھی۔ اگر کسی وجہ سے مین روڈ پر رش کا سامنا ہوتا تو ٹریفک سے بچنے کے لئے ذیلی سڑکوں سے گاڑی نکال لیا کرتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ والدین جو تربیت کرتے ہیں اس میں سب سے اہم یہ بات ہوتی ہے کہ بچوں کی شخصیت پراعتماد بنائی جائے ۔اس طرح مستقبل میں اس حوصلہ افزائی کی وجہ سے انسان بہت آرام سے زندگی گزارتا ہے۔
والدہ نے بچپن میں کونسی ایسی بات سمجھائی جو آج بھی یاد رہتی ہے؟ اس بارے میں ڈاکٹر آسیہ احمر نے کہا کہ ہمیں ہمیشہ امی جان نے مل جل کر رہنے کی ہدایت کی اور اس طرح رہنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ گھر کی مضبوطی اسی طرح قائم رہتی ہے کہ ہر فرد ایک دوسرے سے قریب رہے۔ ہم سب بہنیں چھوٹی چھوٹی خوشیاں بھی بڑے اہتمام سے مناتی ہیں۔ سالگرہ، ہو یا کوئی بھی خاص موقع، ہم ضرور پروگرام بنالیتی ہیں۔ ہم چاروں بہنیں ایک ہی شہر میں رہتی ہیں تو ملنا اور آؤٹنگ پر جانا آسان ہے۔ پسندیدہ شعرائے کرام اور ادیبوں کے بارے میں بات ہوئی تو ڈاکٹر آسیہ نے بتایا کہ سائنس کے اسٹوڈنٹس کو تو وہی یاد رہتے ہیں جو گیارہویں جماعت تک پڑھتے ہیں۔ جب میڈیسن کورس شروع ہوجائے تو پھر کہاں موقع ملتا ہے۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ وارڈ کی ڈیوٹی تھکا دینے والی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر کی زندگی کافی ٹف ہوتی ہے۔
سیدمحمد احمر نے تعلیمی مراحل مکمل کئے اور بزنس کی طرف توجہ مرکوز کرلی۔ آجکل اپنے صاحبزادے محمد امین احمرکے ہمراہ زیادہ وقت گزارتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ انہیں ایک جیتا جاگتا کھلونا مل گیا ہے۔ سارے گھر کے پروگرام صاحبزادے امین احمرکیلئے ہی ترتیب دیئے جاتے ہیں ۔چاہے شام کی سیر ہو یا پلے گراؤنڈ وغیرہ۔ وہ بھی اپنے بابا جان کے ہمراہ خوب خوش رہتے ہیں۔ احمر نے کہا کہ بچپن کی باتیں تو ہمیشہ یاد رہتی ہیں لیکن بڑے ہوکر زندگی کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ مصروفیت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اپنی ا ہلیہ کیلئے انہوں نے کہا کہ آسیہ ہمیشہ وقت کی پابندی کرتی ہیں ۔
صاحبزادے کے ہمراہ روز کوئی پروگرام بن جاتا ہے اور اس طرح گھر اور باہر کی مصروفیات منظم طریقے پرانجام دیتی ہیں۔ آسیہ دراصل بہترین منتظم بھی ہیں۔ خاندان بھر سے ملنا جلنا رہتا ہے، پروگرام بنتے رہتے ہیں اور سب کے ہمراہ وقت اچھا گزرتا ہے۔ سب ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں ۔ خاندان کا مل جل کر رہنا آج کی دنیا میں بہت اہمیت رکھتا ہے جب دنیا گلوبل ولیج بن گئی ہے اور لوگ دور دور ہوگئے ہیں ۔ آسیہ دل کی بہت اچھی ہیں دوسروں کا خیال رکھنے والی ہیں۔ کشادہ دلی سے مہمانوں کی خاطر مدارت کرتی ہیں۔ لوگوں سے میل ملاقات انہیں اچھی لگتی ہے ۔
احمر صاحب کو غالب اور اقبال پسند ہیں کیونکہ انکے اشعار ہی یاد رہتے ہیں۔ ڈاکٹر آسیہ نے بتایا کہ سسرال میں سب نے بہت خیال رکھا ،ہر نئے رشتے نے پذیرائی کی اور نئی زندگی خوشگوار وقت کے ساتھ، الحمد للہ، جاری و ساری ہے۔ جہاں سب ایک دوسرے کا بھرپور خیال رکھتے ہیں ۔احمر صاحب ہمدرد طبیعت کے حامل ہیں ۔ اکثر باتوں کو درگزر کردیتے ہیں۔ و الدین کے فرمانبردار ہیں۔ خاندان بھر سے میل جول انہیں بے حد پسند ہے ۔ ڈاکٹر آسیہ احمرنے ادبی ذوق و شوق کا اظہار کرتے ہوئے اپنے پسندیدہ اشعارپیش کئے:
سکوتِ شام مٹاؤ بہت اندھیرا ہے
 سخن کی شمع جلاؤ بہت اندھیرا ہے
 دیارِ غم میں دلِ بے قرار چھوٹ گیا
 سنبھل کے ڈھونڈنے جاؤ، بہت اندھیرا ہے

شیئر: