Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کانپتے ہاتھوں میں سہمے ہوئے ویزا فارم لیا-----

اونٹ کی طرح سست رفتار زندگی کو بلٹ پروف ٹرین کی طرح تیز رفتار ہوتے دیکھا ہے۔ قطر میں ترقیاتی کاموں نے اپنا جال بچھایا ہوا ہے۔
* * * *ممتاز شیریں۔ دوحہ ، قطر* * * *
ماضی کے دریچوں کے اس سلسلے میں اس ماہ ہم آپکی قطر میں کئی سال گزارنے والی خاتون ممتاز شیریں سے ملاقات کروا رہے ہیں۔ممتاز شیریں بہت اچھا لکھتی ہیں اور انہوں نے ماضی کے دریچوں کو بھی خوب کریدا ہے ۔یقینا قارئین کو ہمارا یہ سلسلہ پسند آئے گا۔ ہمیں آ پ کے فیڈ بیک سمیت آپ کے بھی داستان سننے کی تمنا ہے۔
* * * (مرتبـ:مصطفی حبیب صدیقی)* * *
ائیر ہوسٹس نے قطر آمد کی اناؤنسمنٹ کی اور جہاز قطر انٹر نیشنل ائیر پورٹ پر لینڈ کر گیا۔ یہ ائیر پورٹ سندر آنکھوں اور سہانے خوابوں کی طرح خوبصورت ہے ۔یہاں مختلف ائیر لائنز کے سینکڑوں جہاز اترتے ہیں اور اڑان بھرتے ہیں جس نے دنیا دیکھنی ہو وہ قطر کا جدید انٹر نیشنل ائیر پورٹ دیکھ لے۔ ایک جہان ہے اور اس جہان کے اندرکئی جہان آباد ہیں۔ مختلف ملکوں اور تہذیبوں کے لوگ،بھانت بھانت کی بولیاں ، افسانوی کرداروں کی طرح چلتے پھرتے مسافر، دریچوں میں رکھے ہوئے پھولوں کی طرح خوبصورت چہرے، درودیوار کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے خوبصورتی ان پر فریفتہ ہو گئی ہو چمتکار ہے اور اس چمتکار میں سب چمکدار ہے۔ چکنے فرش اور اس پر بڑے سلیقے سے سجے ڈیوٹی فری شاپس ،ان میں رکھی دلکش ڈیزائنر کی بوتلیں جن کے عکس دیکھنے والوں کی آنکھوں سے چھلکتے ہیں "نہ شب کو دن سے شکایت، نہ دن کو شب سے ہے" پردیسی آنکھیں جنہوں نے اپناوطن چھوڑتے وقت ماں باپ کے روتے چہروں کی جانب ایک بار دیکھا تھا یہاں ایک ایک نقش کو ہزار ہزار بار مڑ مڑ کر دیکھتے نہیں تھکتیں۔
وہ قدم جن کیلئے بیوی بچے کی محبت زنجیر نہ بن سکی یہاں بغیر زنجیر کے جیسے ساکن ہو گئے ہوں کہ جیسے چلنا بھول گئے ہوں ۔ہمارے دیہات سے تلاش روزگار میں آئے نوجوان پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس جہان رنگ و بو کو یوں دیکھتے ہیں جیسے میلے میں گم ہو گئے ہوں۔ سہمے سہمے ہوئے۔۔۔۔سمٹے سمٹے ہوئے، کانپتے ہاتھوں میں ویزہ فارم لئے۔۔ زندگی ہم تیرے بھروسے پر، اس طرح اس جہان میں آئے جیسے اندھا فقیر شام ڈھلے، جگمگاتی دکان پر آئے جیسے سہما ہوا کوئی لڑکا، کمرہ امتحان میں آئے تیسری دنیا کے نسل در نسل غلاموں نے یہاں آتے ہی ایک نئی غلامی بخوشی قبول کر لی ہے ۔پاکستان کی زرخیز مٹی قطر کی ریت اور بجری میں مل رہی ہے جس سے دیو قامت بلند و بالا اور فلک بوس عمارتیں سر اٹھا رہی ہیں جن کی شان وشوکت خوبصورتی اور بلندی پوری دنیا کیلئے توجہ کا مرکز بن رہی ہے مگر ان کو دیکھ کر کسی کو یہ خیال نہیں آتا ہے کہ ان کی خوبصورتی میں کس کس ملک کے انجینیئر زکا کمال ہے۔
کوئی ایک لمحے کو بھی نہیں سوچتا ہے کہ کن کن ملکوں کے مزدوروں کا پسینہ اس کی بنیادوں میں شامل ہے۔ "نام تو شیخ کا ہوگا" یہاں میرے وطن کے مزدوروں کیلئے حیات بوجھ اور زندگی وبال ہے۔ قطر اس بھٹہ مالک کی طرح ہے جو مزدوری تو زیادہ دیتا ہے لیکن مزدور سے قیامت خیز گرمی،، جھلساتی دھوپ اور آگ کے شعلوں کے درمیان کام لینے کا ہنر جانتا ہے۔ پاکستان میں رکشوں اور ٹرکوں کے پیچھے بڑے دلچسپ جملے لکھے ہوتے ہیں ایک رکشے کے پیچھے لکھا تھا! "فاصلہ رکھیں ورنہ پیار ہو جائے گا" قطر کی خوبصورت کشادہ سڑکیں، آسمان سے باتیں کرتی ہوئی عمارتیں، بلند و بالا شاپنگ مالز، بارونق بازار، خوبصورت گھر، لش پش کرتی گاڑیاں اور رومانوی داستانوں جیسی درسگاہیں ،خوابوں کا یہ شہر ہمارے اندر رچ بس جاتا ہے اور ہمیں سچ مچ اس سے "پیار" ہوجاتا ہے۔ یہ ملک اس بے نیاز صوفی کی طرح ہے جس کو اپنے ارد گرد بیٹھے لوگوں میں سے کسی کے آنے یا چلے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے اور اگر کوئی اس کے زیادہ قریب ہو کر کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ اسے ابتدا میں دکھ دیتا ہے ۔تکلیفیں دیتا ہے اسے کندن بنانے کیلئے مصیبتوں اور آلام کی بھٹی سے گزارتا ہے اس کی حتی المقدور کوشش ہوتی ہے کہ آنے والا بھاگ جائے مگر سخت جان اور صابر و شاکر کو وہ گلے سے لگا لیتا ہے اور اپنی نعمتوں کے سب دروازے اس پر کھول دیتا ہے۔ قطر بھی ایسے ہی مزاج کا ملک ہے۔
ثابت قدم رہنے والوں کیلئے زندگی کی آسائشوں کی بارش کرنے والا۔ قطر نے اپنی طرف اٹھنے والی امید بھری نظروں کو بہت کم مایوس کیا ہے ۔سپنے دیکھنے والی آنکھوں کو چوما ہے۔ انہیں سپنوں کی تعبیر پوری کرنے کے مواقع فراہم کئے ہیں۔ دستک دینے والے باہنر ہاتھوں کے لیے ان کی قسمت کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ قطر میں روزانہ ہزاروں لوگ اپنے بریف کیسوں میں خواہشوں کے کلر بکس بھر کر لاتے ہیں اور ان میں تکمیل کے رنگ بھر کر واپس لوٹ جاتے ہیں۔ جہاں میں رہتی ہوں وہاں صحرا اور سمندر گلے ملتے ہیں میری آدھی زندگی صحرا اور سمندر کے درمیان رہتے گزری ہے۔ آج سے 20سال قبل جب میں یہاں آئی تھی تو ایک کچی ٹوٹی پھوٹی سیدھی سڑک تھی جو شہر سے 100 کلو میٹر دور میری رہائشی کالونی تک جاتی تھی جس پر دوڑتی گاڑی میں بیٹھی میں سوچا کرتی تھی کہ ! " اونچے نیچے راستے اور منزل تیری دور" لیکن گذشتہ 10 سالوں کے اندر قطر میں سانپ کے’’ کینچلی ‘‘بدلنے کی مانند تبدیلی آئی ہے۔تضاد زندگی کا حسن ہے اور یہ حسن قطر میں مجھے بتدریج نظر آیا ہے یہاں کی بد صورتیوں کو اپنی آنکھوں سے خوبصورتیوں میں ڈھلتے دیکھا ہے اونٹ کی طرح سست رفتار زندگی کو بلٹ پروف ٹرین کی طرح تیز رفتار ہوتے دیکھا ہے۔ قطر میں ترقیاتی کاموں نے اپنا جال بچھایا ہوا ہے۔ جتنی کرینیں یہاں کام میں لگی ہوئی ہیں ہمیں ڈر ہے کہ کچھ عرصے میں لوگ کرینوں کو قطر کا قومی پرندہ نہ سمجھنے لگیں۔ یہ بات ہم سب کو بہرحال سمجھنا چاہئے کہ آخر چند برس قبل تک ماہی گیروں کی بستی سمجھا جانے والا پسماندہ ملک آج دنیا بھر کی توجہ کا مرکز کیسے بنا؟ ایک خوشحال، ترقی یافتہ معاشرہ قائم کرنے کی شرائط میں امن و سکون، استحکام، دیانت داری اور باصلاحیت قیادت لازم و ملزوم ہے۔ (باقی آئندہ)
* * * * *محترم قارئین !* * * * *
اردونیوز ویب سائٹ پر بیرون ملک مقیم پاکستانی،ہندوستانی اور بنگلہ دیشیوں کے انٹرویوز کا سلسلہ شروع کیاگیا ہے،اس کا مقصد بیرون ملک جاکر بسنے والے ہم وطنوں کے مسائل کے ساتھ ان کی اپنے ملک اور خاندان کیلئے قربانیوں کو اجاگر کرنا ہے،آپ اپنے تجربات ،حقائق،واقعات اور احساسات ہمیں بتائیں ،ہم دنیا کو بتائیں گے،ہم بتائیں گے کہ آپ نے کتنی قربانی دی ہے ،آپ کے تجربات سے کیوں نا دوسرے بھی فائدہ اٹھائیں۔۔تو آئیے اپنی ویب سائٹ اردو نیوز سے منسلک ہوجائیں۔۔ہمیں اپنے پیغامات بھیجیں ۔۔اگر آپ کو اردو کمپوزنگ آتی ہے جس کے لئے ایم ایس ورڈ اور ان پیج سوفٹ ویئر پر کام کیاجاسکتا ہے کمپوز کرکے بھیجیں ،یا پھر ہاتھ سے لکھے کاغذ کو اسکین کرکے ہمیں اس دیئے گئے ای میل پر بھیج دیں جبکہ اگر آپ چاہیں تو ہم آپ سے بذریعہ اسکائپ ،فیس بک (ویڈیو)،ایمو یا لائن پر بھی انٹرویو کرسکتے ہیں۔
ہم سے فون نمبر--- 0966122836200
---ext: ---3428۔آپ سے گفتگواردو نیوز کیلئے باعث افتخار ہوگی۔۔
ای میل:[email protected]- ----

شیئر: