Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کا اسلام آباد نہ جانے مگر اسمبلیوں سے نکلنے کا اعلان

پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے لاہور سے لانگ مارچ کی شکل میں شروع ہونے والا احتجاج ختم کرنے اور تمام صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔
سنیچر کی رات راولپنڈی میں ایک طویل خطاب کے اختتام پر عمران خان نے صوبائی حکومتوں سے باہر نکلنے کی تاریخ تو نہیں دی لیکن کہا کہ وہ تمام وزرائے اعلیٰ اور پارلیمانی پارٹیوں سے مشاورت شروع کر رہے ہیں اور جلد ہی اسمبلیوں سے نکلنے کا حتمی اعلان کریں گے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین نے کہا کہ وہ چاہتے تو آج اپنے کارکنوں کو اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کا کہہ سکتے تھے لیکن ملک کی خاطر ایسا نہیں کر رہے۔
انہوں نے کہا کہ احتجاجی تحریک ختم نہیں ہوئی بلکہ چلتی رہے گی۔
قبل ازیں سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ’جن تین افراد نے مجھے قتل کرنے کی سازش کی وہ ابھی بھی عہدوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔‘
انہوں نے خود پر حملے کے حوالے سے کہا کہ ’مجھے پتہ تھا کہ مجھے تین لوگوں نے مارنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ مجھے ایجنسیوں کے اندر سے خبریں آئیں کہ پہلے یہ پروپیگنڈہ کریں گے کہ عمران نے توہین مذہب کی اور اس کے بعد یہ کہیں گے کہ مذہبی انتہا پسند نے اسے قتل کر دیا۔‘

عمران خان لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ کے دوران جب تین نومبر کو وزیر آباد پہنچے تو ان پر فائرنگ کی گئی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’وزیر آباد میں تین شوٹر موجود تھے‘

پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین نے دعویٰ کیا کہ ’ان پر وزیر آباد میں حملے میں دو نہیں بلکہ تین شوٹر ملوث تھے۔‘
عمران خان لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ کے دوران جب تین نومبر کو وزیر آباد پہنچے تو ان پر فائرنگ کی گئی جس میں ان سمیت متعدد افراد زخمی ہو گئے تھے۔ حملے میں ایک شخص معظم ہلاک ہو گیا تھا۔
انہوں نے معظم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ حملہ آور کو پکڑنے کی کوشش کر رہے تھے جب دوسرے شوٹرز کی گولی انہیں لگی۔‘
سابق وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو گولی مروا کر ان کے قاتل کو کسی دوسرے کے ذریعے مروایا گیا۔
’اسی طرح انہوں نے میرے ساتھ بھی کیا۔ وزیر آباد کے اجتماع میں تین شوٹر موجود تھے اور میرے اوپر گولی چلانے والے کو ادھر ہی قتل کرنے کا انتظام کیا گیا تھا۔‘
عمران خان نے ان کی مرضی کی ایف آئی آر درج نہ ہونے کے حوالے سے کہا کہ ’پنجاب میں ہماری حکومت ہوتے ہوئے ملک کا سابق وزیراعظم سب سے بڑی جماعت کا سربراہ میں اپنی ایف آئی آر نہیں کٹوا سکا۔ پولیس والا کہتا مجھے ہٹا کر کسی اور کو بٹھا دیں میں نہیں دستخط کر سکتا۔‘
انہوں نے شریف اور بھٹو خاندان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’یہ بھی جب آتے تھے تو بجائے کہ اداروں کو مضبوط کرتے، قانون کی حکمرانی لے کر لاتے، اِنہوں نے بھی اداروں کو کمزور کیا کیونکہ کرپشن نہیں ہو سکتی تھی جب تک ادارے کمزور نہ ہوں۔‘

عمران خان نے کہا کہ ’نیب والے مجھے کہتے تھے کہ کیس سارے تیار ہیں لیکن حکم نہیں آ رہا۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’نیب میرے نہیں اسٹیبلشمنٹ کے نیچے تھی‘

انہوں نے کہا کہ مجھے اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں سب سے زیادہ شرمندگی تب ہوتی تھی جب ہمیں جا کر ’ملک کے لیے پیسے مانگنے پڑتے تھے۔‘
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میں آج سوال پوچھتا ہوں کہ ’ہم نے کیا جرم کیا تھا؟ کہ بیرونی سازش کرنے والوں کے ساتھ مل کر ہماری حکومت گرائی۔‘
’میں ساڑھے تین سال میں ایک جگہ فیل ہوا ہوں۔ میں طاقتور کو قانون کے نیچے نہیں لا سکا۔ جن لوگوں نے اس ملک کو لوٹا تھا جن پر کرپشن کے کیسز تھے۔ میں نے بڑی کوشش کی لیکن نیب میرے نیچے نہیں تھی وہ اسٹیبلشمنٹ کے نیچے تھی۔‘
عمران خان نے اس حوالے سے مزید کہا کہ ’نیب والے مجھے کہتے تھے کہ کیس سارے تیار ہیں لیکن حکم نہیں آ رہا۔ جن کے پاس کنٹرول تھا وہ حکم نہیں دے رہے تھے۔ وہ ان چوروں کو بجائے جیلوں میں ڈالنے کے، ڈیلیں کر رہے تھے۔‘
’میں نے ہر میٹنگ میں یہ بات کی کہ جناب جب تک آپ طاقتور کو قانون کے نیچے نہیں لائیں گے، بڑے بڑے ڈاکوؤں کا احتساب نہیں کریں گے یہاں کرپشن ختم نہیں ہونے لگی۔ تو مجھے بار بار جواب آتا تھا کہ عمران صاحب آپ معیشت پر توجہ دیں احتساب کو بھول جائیں۔  مجھے کئی دفعہ کہا گیا کہ ان کو چھوڑیں این آر او دے دیں، نیب کے قوانین بدل دیں۔ جن کے پاس طاقت تھی وہ کرپشن کو بُرا نہیں سمجھتے تھے۔‘
چیئرمین پی ٹی آئی نے اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے کہا کہ ’انہوں نے سارے چوروں کا ٹولہ اوپر بِٹھا دیا۔ اگر سازش نہیں بھی کی تھی تو ان کا راستہ نہیں روکا، ان کو آنے دیا۔ وہ لوگ جو باہر بھاگے ہوئے تھے، اربوں اربوں روپے کے جو کرپشن کے کیسز تھے، باری باری ان کو این آر او دیا گیا۔‘

عمران خان نے مشرقی پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں جو ہوا تھا انہیں یاد ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’مشرقی پاکستان میں ہم نے انصاف نہیں کیا‘

انہوں نے کہا کہ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ادارے کیوں نہیں ’پرانی غلطیوں سے سیکھتے؟‘ ایک ملک، ایک انسان، ایک ادارہ تب ترقی کرتا ہے جب اپنی غلطیوں سے سیکھے۔
عمران خان نے مشرقی پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں جو ہوا تھا انہیں یاد ہے۔ ’ہم نے وہاں انصاف نہیں کیا۔ پاکستان کی سب سے بڑی جماعت سے انصاف نہیں کیا۔ ہم نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اپنی من مانی کی اور ملک ٹوٹ گیا۔‘
’اور ہم نے سیکھا نہیں اور جو آج پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے اس پر یہ حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔‘
سابق وزیراعظم کا مزید کہنا تھا ’وہ جس نے اپنے اثاثوں میں اضافہ کیا، پاکستان میں انسانی حقوق کو اپنے پیروں کے نیچے روندا، تاریخ اسے بھی دیکھ رہی ہے۔ تاریخ لکھ رہی ہے کہ اس نے ملک کے ساتھ کیا کِیا۔ کیا اس نے ملک کا فائدہ کروایا یا نقصان کروایا یہ سارا تاریخ لکھ رہی ہے۔‘

شیئر: