Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رنگ تغزل

- - - - -  - ------------------------------------------------ -----------------------------------
 
بیاں کیا کیجئے سوزِ دروں کو داستانوں میں 
نکل کے تیر کب آتے ہیں واپس پھر کمانوں میں
ہماری سوچ کے بادل ہیں اڑ تے آسمانوں میں
کرے گی یاد یہ دنیا ہمیں آتے زمانوں میں
 سبھی مل کر بچھڑ جائیں اگر گمنام ہو جائیں
مکیں پھر کس لئے بستے ہیں ان اونچے مکانوں میں
رہے وحشت زدہ کے ساتھ تو وحشت ملی ہر دم
وہ ہی وحشت رہی من میں سبھی موسم سہانوں میں
چرا کے خواب وہ میرے چلا تو یہ خیال آیا
قلم کی نوک سے لکھ دوں الم یہ سب لسانوں میں
جو سچ کہتے ہیں وہ ہی جاوداں رہتے ہیں عالم میں
 چھپایا جا نہیں سکتا حقیقت کو فسانوں میں
زمیں سر سبز ہے فصلیں بھی کیسی لہلہاتی ہیں
امیرِ شہر نے خرمن جو بانٹا ہے کسانوں میں
 وفا کے نام پر ہرگز حنا خاموش مت رہنا
کبھی وہ لوٹ آئیں گے تمہاری داستانوں میں
- - - - - - - -
ڈاکٹر حناء عنبرین۔ریاض
 --  - - - - - - - - - -
 تم سے کہنا ہے،غم کی لذت کیا
ایک آفت ہے، یہ مصیبت کیا
ہجر کیا، وصل کیا، مقدر سب
 سر کھپانے کی کوئی حاجت کیا
جب بھی چا ہو مجھے بلا لینا
 اس سے بڑھ کر میری ضرورت کیا
گاؤں میں سچ کا بول بالا ہے
شہر والوں میں اس کی قیمت کیا
 ٹالنا روز، جھوٹے وعدوں پر
کوئی کہتا اِسے مروت کیا
کیا ملے گا تمہیں عداوت سے
اِن سے،اُن سے، ہر اک سے نفرت کیا
مر گیا کوئی، اس کی چاہت میں
عام سی بات، اس میں حیرت کیا
 آج ہے کل مگر نہیں ہوگی
ہے مسلسل، کوئی اَذیت کیا
 اجنبی بام و در ہیں اب مجھ سے
 اِس سے آگے ہے کوئی غربت کیا
 تم بھی آنا کہ لوگ آئیں گے
 یوں تکلف سے ایسی دعوت کیا
دیکھ کر مسکرا دیا اس نے
پیار میں اس سے بڑھ کے ہمت کیا
- - - - - - - -
 ڈاکٹر شفیق ندوی۔ریاض

شیئر: