Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’پاکستان اور علامہ اقبال لازم و ملزوم ہیں‘‘

’’ مجلسِ اقبال‘‘ کی نشست،پاکستان کے پریس قونصل ارشد منیر نے صدارت کی
ادب ڈیسک ۔ جدہ
سعودی عرب میں عالمی اُردو مرکز علمی و ادبی اور قومی حوالوں کا ایک ایسا ہمہ جہت ادارہ ہے جو وطنِ عزیز پاکستان اور پاکستانیت کے فروغ کے بھرپور جذبوں کے ساتھ اُردو زبان و ادب کی خدمت و ترویج میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے اور بانیٗ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح اور مفکرِ پاکستان علامہ اقبال کے افکارو نظریات کو بھی معیاری تقریبات کے انعقاد کے ذریعے بھرپور انداز سے اُجاگر کر رہا ہے۔ جدہ کے مقامی ریستوران میں عالمی اردو مرکز کے ذیلی ادارے ’’ مجلسِ اقبال‘‘ کے زیرِ اہتمام یادگارتقریب مجلس اقبال کے چیئرمین عامر خورشید رضوی کی سرپرستی میں منعقد کی گئی۔ عالمی اُردو مرکز، جدہ کے صدر اطہر نفیس عباسی نے اسٹیج پر مہمانوں کا استقبال کیا ۔ تقریب کی صدارات پاکستان قونصلیٹ، جدہ کے پریس قونصل ارشد منیر نے کی۔ مہمانِ خصوصی پروفیسر نوید الرحمن تھے جبکہ مہمانِ خصوصی سابق وفاقی وزیر چوہدری شہباز تھے۔ نظامت مجلسِ اقبال کے چیئرمین عامر خورشید رضوی نے کی۔
شعرائے کرام میں محمد مجاہد سید ، سینیئر شاعرمحسن علوی ، فیصل طفیل اور زمردخان سیفی شامل تھے جبکہ خالد کتھوریا نے اپنا مقالہ پیش کیا۔ دیگر شرکاء میں معروف دانشور فضا الرحمن ہاشمی ، ڈاکٹر منورحسین بودلہ ، آغا محمد اکرم ، فرید حسن، شاعر نوشاد عثمان ، ڈاکٹر سعید کریم بیبانی ، کالم نگار محمد امانت اللہ خان اور جدہ کی معروف شخصیات شامل تھیں۔ ناظم تقریب نے شرکائے تقریب کو خوش آمدیدکہتے ہوئے کہا کہ گزشتہ اڑھائی برس سے تواتر کے ساتھ مجلسِ اقبال کی تقریبات کے انعقاد کا سلسلہ انتہائی کامیابی سے جاری ہے اور عنقریب اقبال کے نظریۂ فن کے موضوع پر باہمی مباحثے کے پینل کا انعقاد کیا جائے گا اور علامہ اقبال کی فکر وفن کی ترویج کے لئے اقدامات کئے جائیں گے جس کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ علامہ اقبال اپنی زندگی کے آخری ایام میں کئی امراض میں مبتلا ہوگئے تھے اس کے باوجود اُن کی شاعری میں کہیں بھی یاس ، حرماں اور نااُمیدی کا سایہ نظر نہیں آتا بلکہ سراسر رجائیت ہے۔ اُنہوں نے علامہ اقبال کی مغفرت اور درجات کی بلندی کی دُعا کے بعد کہا کہ علامہ اقبال کا احسان بھلایا نہیں جائے گا۔
تلاوتِ کلام پاک اور آیات کریمہ کا ترجمہ پیش کرنے کی سعادت پاکستان ریڈیو اور ٹیلیوژن کے معروف قاری، قاری محمد آصف نے حاصل کی۔ معروف نعت خواں، نعت گو صبیح رحمانی کی لکھی ہوئی نعتِ طیبہ احمدبن زبیر نے پیش کی:
کوئی مثل مصطفیٰ کا کبھی تھا ، نہ ہے ، نہ ہو گا
کسی اور کا یہ رتبہ کبھی تھا ، نہ ہے ، نہ ہو گا
  زمردخان سیفی نے چند اشعار پیش کئے:
افکار بدل ڈالے تفسیر بدل ڈالی
*اقبال کے خوابوں کی تعبیر بدل ڈالی عالمی اُردو مرکز کے اہم اور اساسی رکن دانشور خالد کتھوریا نے اپنا مقالہ ’’ہم اور ہمارے اقبال ‘‘ کے عنوان سے پیش کرتے ہوئے کہا کہ بالعموم مسلم اُمہ اور بالخصوص پاکستان اور علامہ اقبال لازم و ملزوم ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ علامہ اقبال سے ہمارا تعارف نیا نہیں بلکہ نصف صدی قبل اسکو لوں میں جب طلباء کی حیثیت سے ترتیب سے کسی ہال یا میدان میں جمع ہوئے تو تلاوتِ کلامِ پاک کے بعد علامہ اقبال کی ایک نظم ’’ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری ‘‘ پڑھی گئی۔
تب سے تاحال علامہ اقبال سے ہمارا تعلق مسلسل استوار ہوتا چلا گیا۔اس کے بعد اسکول اور کالج میں علامہ کی نظمیں ، قطعات ، رُباعیات اور دیگر اقتباسات پڑھتے رہے اور پھر اخبارات اور رسائل کے توسط سے علامہ کی سادہ مگر جدوجہد سے بھرپور زندگی سے واقف ہوئے۔ یوں اُن کی ہمہ جہت شخصیت کے پہلو وا ہوتے گئے اور ان کی قدآورشخصیت ہمارے دلوں میں چھاتی رہی۔اُنہوں نے کہا کہ علامہ کی قدرو منزلت اس حد تک بڑھ گئی کہ مقامِ حیرت میں جاپہنچے کہ قدرت کی جانب سے ایک ہی شخص کو لاتعداد صلاحیتوں سے نوازا گیا اور اس عزت و توقیر کا سلسلہ بعد از مرگ بھی جاری ہے۔اُنہوں نے کہا کہ یہ بات طے ہے کہ علامہ کی شاعری، ان کے حکیمانہ اقوال ، فلسفیانہ بیانات اور دینی جذبات ہماری معاشرتی زندگی کا اثاثہ بن چکے ہیں۔ اس کے بعد اُنہوں نے مجلسِ اقبال کے حوالے سے اپنی چند تجاویز بھی پیش کیں۔ انتہائی خوبصورت لب و لہجے کے نوجوان شاعر فیصل طفیل نے علامہ اقبال کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے چند اشعار پیش کئے: *کب وقت بدلنے سے تعزیر بدلتی ہے
ہر جشنِ رہائی پر زنجیر بدلتی ہے
چل ڈھونڈ ذرا فیصل اس مردِ مجاہد کو
*وہ جس کی نگاہوں سے تقدیر بدلتی ہے معروف نعت خواں محمد نواز جنجوعہ نے علامہ اقبال کے مجموعۂ کلام بانگِ درا سے اُن کا کلام ’’ تصویر درد ‘‘ پیش کیا:
نہیں منت کشِ تابِ شنیدن داستا ںمیری
 خموشی گفتگو ہے، بے زبانی ہے زباں میری
یہ دستورِ زبان بندی ہے کیسا تیر ی محفل میں
 یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے
زباں میری کئی کتابوں کے مصنف ،معروف شاعر انجینیئر محسن علوی نے اپنا کلام بعنوان ’’ اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے ‘ ‘ پیش کیا۔ معروف شاعر اور سینیئر صحافی محمد مجاہد سیدنے عالمی اُردو مرکز اور مجلسِ اقبال کو اپنے تعاون کی پیشکش کی اور علامہ اقبال کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ مہمان خصوصی پروفیسر نوید الرحمن نے مجلسِ اقبال کی کاوشوں کو سراہا ۔ انہوں نے اپنے پرجوش خطاب میں علامہ اقبال کے اُردو اور فارسی اشعار پیش کرتے ہوئے کہا کہ حسن و بہارکے علمبردار ، صاحبِ گفتار و کردار ،فکرِ فردا کے شاہکار ، سچائیوں کے آئینہ دار ، ذی وقار، سراپائے خلوص و وقار، ملک الشعراء ، نبی کے عاشق، شاعرِ آفاق ، صاحب ِکمال یعنی حضرتِ اقبال ایک ایسی درخشاں ، دانشمند اور خصوصی شخصیت ہیں جنہوں نے اسلامی معاشرے میں اسلام کی تہذیب و تمدن کو پیش کیا ۔اُنہوں نے کہا کہ جو چیز اقبال کو منفرد کرتی ہے وہ خودی کا نظریہ ہے، وہ ولولہ اور جذبہ ہے جو اقبال عام لوگوں کے اندر پیدا کرتے ہیں۔ وہ روح ہے جو وہ سوئی ہوئی قوم کے اندر بیدار کرتے ہیں۔اُنہوں نے کہا کہ اقبال کی شاعری کا محور قرانِ پاک ہے۔ اقبال اُمت میں اسلام کے فرزند ہیں۔ و ہ فلسفی بھی ہیں ، سیاستدان بھی ہیں، مجاہد کا تاج ہیں ،محقق کی بینائی بھی ہیں، عالم بھی ہیں اور شاہد بھی ہیں، تہذیب و تمدن کے پاسدار بھی ہیں۔
تقریب کے مہمانِ خاص معروف سماجی و فلاحی شخصیت، پاکستان کے سابق وفاقی وزیر چوہدری شہباز حسین نے عالمی اُردو مرکز اور مجلس اقبال کی ادب دوستی کو سراہااور کہا کہ ہم اگر چہ احمد ندیم قاسمی ،احمد فراز ، عطاء الحق قاسمی ، امجد اسلام امجد ، پروفیسر پیر زادہ قاسم اور دیگر نامور شعراء کو یہاں بلوا چکے ہیں لیکن آج کی یہ نشست اپنی طرز کی ایک خوبصورت ، یادگار اور منفرد نشست ہے۔ اُنہوں نے اپنے خطاب میںکہا کہ میں عرصہ ٔ دراز سے پاکستانیوں کے ایک خادم کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہا ہوں جس کی بدولت روح کو بالیدگی ملتی ہے۔ تقریب کے صدر، پاکستان قونصلیٹ جدہ کے پریس قونصل ارشد منیر نے مجلسِ اقبال کو ایک شاندار اور یادگار تقریب کے انعقاد پر مبارکباد پیش کی اور اور کہا کہ علامہ اقبال کا اُردو اور فارسی کلام بلاشک و شبہ علم و ادب کا عظیم سرمایہ ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ اُن کی انگریزی کتا ب ’’ری کنسٹرکشن آف رلیجیئس تھاٹ ان اسلام‘‘ کا مطالعہ بھی ضروری ہے جس کا اُردو ترجمہ منظرِ عام پر آچکا ہے۔ اُ نہوں نے عالمی اُردو مرکز کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے اپنے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا اور تجویز پیش کی کہ ایسی نشستوں میں نوجوان نسل کومدعو کیا جائے اور اُنہیں کچھ پیش کرنے کا موقع بھی فراہم کیا جائے۔ عالمی اُردو مرکز جدہ کے صدر اطہر نفیس عباسی نے مقررین اور شعراء کو سراہا اور اپنے خطاب میں کہا کہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہمیں پاکستان قونصلیٹ جدہ کی سرپرستی اور چوہدری شہبازحسین اور دیگر اہم شخصیات کا بھرپور تعاون حاصل ہے ۔اُنہوں نے کہا کہ عالمی اُردو مرکز کو ہمیشہ سے تعداد کی بجائے معیار عزیز ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجلسِ اقبال کی سابقہ نشستوں کو کتابی شکل میں لایا جائے گا۔ اُنہوں نے کہا کہ ہم دنیائے عرب میں پیام ِاقبال کی تجدید کے طور پر بھی کام کرنا چاہتے ہیں ۔
اُردو نیوز کے ایڈیٹر انچیف طارق مشخص کا تعاون ہمیں حاصل ہے۔ اُنہوں نے پروفیسر نوید الرحمن سے تعارف کے حوالے سے ڈاکٹر سعید کریم بیبانی کا بھی شکریہ ادا کیا اور اپنی ایک نظم میں علامہ اقبال کو خراجِ عقیدت پیش کیا:
شاعری میں میرا رہبر ، میری منزل اقبال
میرے ہر لفظ کی دھڑکن میں ہیں شامل اقبال
 جب کبھی ہم کسی طوفان میں گھر جاتے ہیں
 تب نظر آتا ہے ہم کو لب ِ ساحل اقبال
فلسفہ تیرا وہ تصویر دکھاتا ہے ہمیں
 جس میں انسان نظر آتا ہے کامل اقبال
ہم قدم ہو گیا اطہر اُسی خورشید کے ساتھ
ہر مہینے جو سجائے تیری محفل اقبال

شیئر: