Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہاکی پاکستان کا قومی کھیل جسے نظر لگ گئی

ہاکی کے میدان میں دنیا بھر کی ٹیموں کو نچانے کے بعد آج کھیل کی حالت زار یہ ہو گئی ہے کہ آنسو ضبط کرنے او رآہیں روکنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے
 
ندیم ذکاءآغا۔ جدہ
پاکستان نے مختلف کھیلوں کے حوالے سے دنیا بھر میں بے پناہ شہرت حاصل کی جس میں شہرہ آفاق کھیل ہاکی کو منفرد مقام حاصل رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب ہماری ٹیم کا ڈنکا دنیا کے ہرکونے میںسنائی دے رہا تھا۔ ہمارے اس قومی کھیل کو پروقار اور ہردلعزیزسمجھا جاتا ۔ پاکستان بھر کے چھوٹے بڑے شہروں حتیٰ کہ قصبوں میں اسکول، کالج و کلب کی سطح پر کھیلے جانیوالے اس کھیل نے خوب پذیرائی حاصل کی حالانکہ پاکستان نے کرکٹ ، اسکواش، بلیرڈ میں بھی عالمی شہرت حاصل کی اور ان تمام کھیلوں میں عالمی نمبر ون کے اعزازات اپنے سینے پرسجائے۔ دنیا کے نقشے پر ابھرنے کے بعد ہمارے ملک کے بدخواہوں نے جلد ہی سیاسی سازشوں کے جال بننا شروع کردیئے ۔ اس سازشی جال نے کھیلوں کو بھی اپنے نرغے میں لے لیا۔ یہی سازشی عناصر جدت کا کوئی نہ کوئی پخ لگا کر کھیلوں کے قوانین میں تبدیلیاں لے آتے۔ جب جب کسی میدان میں پاکستانی ٹیم حب الوطنی اور بھرپور محنت کے باعث فتح یاب ہوتی تو ملک بھر میں خوشی کی یادگار لہر دوڑ جاتی۔کئی ایک عالمی اعزازات حاصل کرنے کیلئے تو مخالف ٹیم کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں کو موسمی تبدیلیوں کا بھی سامنا رہتا لیکن اس کے باوجود ہمارے کھلاڑیوںکے جوش اور ولولے کے ساتھ جذبہ صادق آتا۔ آج ہم اپنی اس کھوئی ہوئی میراث کی یادوں سے دھول ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں جسے جدید زمانے کی نظر لگ گئی ہے۔
ہاکی کے کھلاڑی اسکولوں، کالج یا اپنے علاقے کی دیگر کلبوں کی وساطت سے کھیلتے ہوئے حکومتی سطح کے مختلف اداروں کی ٹیموں میں چنے جاتے۔ جیسا کہ پی آئی اے، کسٹمز، واپڈا، ریلوے، آرمی، پولیس و دیگر کئی ایک ادارے اور اس کے علاوہ صوبائی سطح کی ٹیمیں ہمہ وقت کسی نہ کسی شہر کے گرا¶نڈ میں ایک دوسرے سے نبرد آزما نظر آتیں۔ ملک کے چند اضلاع فیصل آباد، سیالکوٹ ، گوجرانوالہ،ملتان، راولپنڈی، پشاور،حیدرآباد اور کراچی کو ہاکی کے لئے زرخیز زمین سمجھا جاتا۔ہاکی کا کھیل پاکستان بھر میں بے حد پسند بھی کیا جاتا۔ان علاقوں کے جواںسپوتوں کا کوئی ثانی نہیں۔ ایسے ایسے کھلاڑی ابھر کر سامنے آئے جنہوں نے دنیا بھر میں ملک کے ساتھ ساتھ انفرادی شناخت بھی قائم کی۔ پاکستان کے وسطی و تاریخی شہرسیالکوٹ کی بنی ہوئی ہاکی اسٹک بھی پوری دنیا میں کوئی ثانی نہیں رکھتی تھی۔ زیادہ سے زیادہ 737گرام وزنی اور 90 تا95سنٹی میٹر قد کی یہ ہاکی اسٹک جذبے اور چاہت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہونے والے کاریگروں کے ہاتھ سے تیار کی جاتی تھی ۔ دنیابھر کے کھلاڑی سیالکوٹ کی بنی ہوئی ہاکی اسٹک سے کھیلنا اپنی شان اور اعزاز سمجھتے تھے کہ ہو نہ ہو اس اسٹک میں کوئی خاص مقناطیسی قوت ہے جس کے باعث پاکستان میں ہاکی کے کھلاڑی اتنی عمدہ ہاکی کھیلتے ہیں اسی لئے تو گیند انکی ہاکی سے اتنا زیادہ چپکا رہتا ہے لیکن یہ کوئی خاص تکنیک نہیں تھی جذبے اور حب الوطنی کی بہتات تھی۔
سبز رنگ کی قمیص جس کی جیب پر چمکتا ہوا ستارہ اور سفید نیکر میں ملبوس پاکستانی کھلاڑیوں نے اپنی بھرپور صلاحیتوںکا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کھیل میں لاتعداد جھنڈے گاڑے ہیں۔ 1956ءکے میلبورن اولمپکس ،1964ءکے ٹوکیو اولمپکس اور 1972ءکے میونخ اولمپکس میں پاکستان ہاکی ٹیم نے دوسری پوزیشن حاصل کی۔ ہمارے مایہ ناز کھلاڑیوں نے حب الوطنی اور یکجہتی کو اولین حیثیت دیتے ہوئے ٹیم ورک کی مدد سے 1960ءکے روم اولمپکس میں گولڈ میڈل جیت کر ہاکی کھیلنے والے تمام ممالک کو حیرت زدہ کردیا۔اس ٹیم میں شامل کھلاڑی پاکستان کے اصلی ہیروہیں جو ہاکی کی داستانوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ان میں شامل چوہدری غلام رسول، منیر ڈار،نصیر بندہ،نور عالم،منظور حسین عاطف، حبیب اللہ کڈی ، عبدالحمید اور بشیر احمد نمایاں ہیں۔ 1968ءکی بات کریں تومیکسیکو میں منعقدہ اولمپکس گیمز میں ڈاکٹر طارق عزیز کی عمدہ قیادت میںٹیم نے گولڈ میڈل جیت کر اولمپکس میں پاکستان کا چاند ستارے والا پرچم سربلند کیا ۔
یہ وہ دور تھا جب ائیرمارشل (ر) نورخان کے کاندھوں پر پاکستان ہاکی فیڈریشن کی صدارت کی ذمہ داری تھی۔نور خان نے جتنا ہاکی کے کھیل کو فروغ دیا شاید ہی اس قدر کوئی اور اس کھیل کی خدمت کر سکا۔ اس اولمپکس میں جیتنے والی ٹیم کے چند دیگر روشن ستاروں میں تنویر ڈار، خالد محمود، طارق نیازی، جہانگیر بٹ،سعید انور اور ذاکر حسین کے نام قابل ذکر ہیں جو آج بھی ہاکی کے پرستاروں کی زبان پر عام ہیں۔ 1970ءسے 1995ءکے زمانے کو پاکستان ہاکی کے سنہری دور کے طور پر یا دکیا جاتا ہے۔ 1984ءمیں لاس اینجلس اولمپکس میں پاکستان نے ایک بار پھر سونے کا تمغہ حاصل کیا اور اس گرا¶نڈ میں پاکستان کا پرچم سربلند ہوتے اور قومی ترانہ کی دھن بہت سے ذہنوں میں ابھی تک محفوظ ہے۔ یہ وہ دور تھا جب ٹیم میںحسن سردار، خالد حمید، حنیف خان، کلیم اللہ، سمیع اللہ ،منظور الحسن،رشید الحسن ، ناصر علی ، توقیر ڈار، شاہد علی خان، سلیم شیروانی جیسے گوہر نایاب موجودتھے۔ ان تمام ناموں کو اگر ہم ترتیب دینے لگیں تو اول دوم پر نہ رکھ پائیں گے اس لئے سب ناموں کو ایک ہی لائن میں لکھنے میں اکتفا کرنا ضروری ہے۔
ہاکی ورلڈ کپ 1975ءکوالالمپور اور 1990ءلاہور میں تو پاکستان ٹیم نے چاندی کے تمغے پہننے پر اکتفا کر لیا لیکن بارسلونا میں منعقدہ ورلڈ کپ1971ءمیں سونے کا تمغہ جیت کر دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈالے رکھا۔1978ءمیں بیونس آئرس میں کھیلے گئے ورلڈ کپ میں بھی پاکستان نے سب کو پچھاڑ دیا۔ اسی کا تسلسل جاری رکھتے ہوئے 1982ءمیں ہندوستان کے شہر ممبئی میں منعقدہ ہاکی ورلڈ کپ میں بھی پاکستان نے اپنے اعزاز کا دفاع کیا اور ورلڈ کپ کے اعزاز کی جانب کسی مخالف ٹیم کو دیکھنے تک نہ دیا۔ 1994ءمیں سڈنی
 میں کھیلے گئے ہاکی ورلڈ کپ میں بھی پاکستانی ٹیم نے اپنی صلاحیتو ں کا لوہا اسی عزم اور ولولے سے منواتے ہوئے ورلڈ کپ اپنے نام کیا۔
اب آتے ہیں ہر سال تواتر سے ہونے والی ہاکی چیمپیئنز ٹرافی کی جانب جس کا تعارف ہی پاکستان ہاکی فیڈریشن کی جانب سے کرایا گیا۔ لاہور میں کھیلی جانیوالی 1978ءکی چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستان نے اپنا سکہ منوایا جبکہ 1980ءمیں کراچی میں کھیلی جانیوالی چیمپیئنز ٹرافی میں بھی پاکستان نے یہ اعزاز کہیں اور نہ جانے دیا۔ 1994ءمیں بھی اس ٹرافی کیلئے میدان لاہور میں ہی سجایا گیا جہاں پاکستان نے اپنے ہاں آنے والی تمام دیگر ٹیموں کو وکٹری اسٹینڈ کی پہلی پوزیشن پر کھڑے نہ ہونے دیا۔ایشین ہاکی فیڈریشن کی جانب سے 1982ءمیں ایشین ممالک کے مابین ایشیا کپ کے نام سے ایک نئے ٹورنامنٹ کا اجراءکیاگیا۔ اس ٹورنامنٹ کا انعقاد کراچی میں ہوا۔ پہلا ا یشین کپ جیتنے کا سہرا بھی پاکستان کے سر رہا ، دوسرا ایشیا کپ 1985ءمیں ڈھاکا میں کھیلا گیا۔ اس میں بھی ہماری ٹیم نے اپنے اعزاز کا دفاع کیا۔ تیسرا ایشیا کپ 1989ءمیں ہندوستان کے شہر نئی دہلی میں کھیلا گیا۔ پاکستان کی ٹیم نے اپنی بھرپور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے لگاتار تیسری بار ایشیا کپ جیت کراس ٹورنامنٹ میں کامیابی کی ہیٹ ٹرک کی۔ 
برادر اور دوست ملک ملائیشیا کے سلطان اذلان شاہ جو خود بھی ہاکی کے بہترین کھلاڑی رہے ہیں اس کھیل سے محبت میں انہوں نے 1983ءسے کوالالمپور میں سلطان اذلان شاہ انٹرنیشنل ہاکی کپ کے نام سے ایک سالانہ ٹورنامنٹ کا آغاز کرایا۔سلطان اذلان شاہ کپ بھی 1998ءمیں پاکستان نے اپنے نام کیا۔ دوسری بار 2000ءمیں بھی پاکستان ٹیم نے کسی او رٹیم کو اس پر حق نہیں جمانے دیا۔ تیسری بار 2003ءمیں بھی یہ ٹائٹل جیت لیا جبکہ 7بار پاکستان ہاکی ٹیم نے اس ٹورنامنٹ میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ایشین گیمز میں ملائیشیا، ہندوستان ، جنوبی کوریا، بنگلہ دیش، عمان، ہانگ کانگ،جاپان اور چین کی ٹیموں سے سامنا رہتا ہے۔1958ءسے جاری اب تک ہونے والی 15ایشین گیمز میں پاکستان نے 8بارطلائی تمغہ جبکہ 3بار چاندی اور 3بار کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ 
ماضی کے سنہری لمحات اور لا تعداد اعزازا ت کا ذکر کرنے کے بعد آج جب ہم اپنے اس خوبصورت اسٹک ورک اور ٹیم ورک کے کھیل کی جانب دیکھتے ہیں تو آنسو ضبط کرنے اور آہیں روکنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ہمارے گرا¶نڈ جہاں کمنٹیٹرز کی انگلش اور اردومیں رننگ کمنٹری نہ صرف کھلاڑیوں بلکہ تماشائیوں کے بھی خون گرما دیا کرتی تھی جس سے اس کھیل میں جوش و ولولہ دگنا ہو جا تا تھا ، کھیلوں کے خلاف سازشوں پر روک لگانے اور اس کھیل کو دوبارہ زندہ کرنے کیلئے آج ہمیں اسی جذبے اور حب الوطنی کی اشد ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ 
٭٭٭٭٭٭

شیئر: