Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رول بال اسکیٹنگ میں پاکستان کا نام روشن کرنے والی ہونہار بہنیں

ہمارے استاد نے بڑی محنت کی ہے اور ہمارے گھر والوں نے بہت ساتھ دیا ورنہ ہم اتنا کچھ نہیں کرسکتی تھیں
** * * * * انٹرویو :مصطفی حبیب صدیقی۔کراچی* * * * *
* * * * * * تصاویر:سندس صدیقی* * * * **
* * * *
نبی اکرم نے بیٹیوں کو رحمت قرارفرماتے ہوئے صحیح تربیت کرنے والے باپ کو جنت میں اپنے ساتھ ہونے کی بشارت عطا فرمائی ہے۔بیٹیاں گھر کی رونق ہوتی ہیں،ان کی چہکار،ہنسی اور قہقہے گھر میں زندگی کا پتہ دیتے ہیں مگر بعض اوقات یہی بیٹیاں صرف اپنے قہقہوں سے گھر کو ہی رونق نہیں بخشتیں بلکہ اپنی صلاحیتوں اور غیر معمولی کارکردگی سے اپنے ماں باپ اور پورے خاندان کا نام دنیا بھر میں روشن کردیتی ہیں ۔آج میں آپ کو ایسی ہی بیٹیوں سے ملوانے جارہا ہوں جنہوںنے رولر اسکیٹنگ میں پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔ کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں رہائش پذیر 17سالہ عریشہ نجیب صدیقی اور15سالہ ایمان نجیب صدیقی نے 2015ء میں ایک انٹرویو میں اس خواہش کاا ظہار کیاتھا کہ وہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کرنا چاہتی ہیں اور پھر اللہ کریم نے صرف ڈیڑھ سال میں ان کی یہ خواہش پوری کردی جس سے دونوں بہنوں کا اللہ تعالیٰ پر ایمان مزید پختہ ہوگیا۔
انٹرویوکے دوران دونوں بہنوں اور ان کے والد نجیب صدیقی سے ایک ساتھ ہی گفتگو چلتی رہی اس لئے آپ کو ایک ہی سوال میں تینوں کے جوابات نظر آئیں گے:
٭اردونیوز: ایمان پہلے آپ بتائیں کس عمر میں اسکیٹنگ شروع کی اور لڑکیوں کا کیا رحجان ہے ؟
٭٭ ایمان نجیب صدیقی :میں نے 4 سال پہلے اپنے علاقے کی ایک اکیڈمی افتخار اولمپکس میں داخلہ لیا اور اسکیٹنگ سیکھی۔ لڑکیاں تیزی سے اس کھیل کی جانب آرہی ہیں۔ہمارے سر صفدر اور سر حیدر نے ہماری بھرپور مدد کی ۔ان ہی کی وجہ سے ہم آج موجودہ مقام پر ہیں۔اکیڈمی میں متعدد لڑکیاں تھیں بلکہ میں آپ کو بتائوں کے اب تو اتنے ننھے بچے اسکیٹنگ کررہے ہیں کہ دیکھ کر پیار آجاتا ہے۔
٭اردونیوز: عریشہ نجیب صدیقی ،آپ کو بھی گفتگو میں شامل کرتے ہیں،آپ نے بہن کو دیکھ کر اسکیٹنگ شروع کی؟
٭٭عریشہ نجیب :میں نے ایمان کے ایک سال بعد اسکیٹنگ اکیڈمی میں داخلہ لیا۔میں نے رولر اسکیٹنگ میں بطورگول کیپر تربیت شروع کی ۔یہ بہت اچھا کھیل ہے اوراب تیزی سے معروف ہوتا جارہا ہے۔ اس کھیل میں جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ جوتوں میں پہئے ہوتے ہیں، انہیں پہن کر توازن قائم رکھنا ہی مہارت ہوتی ہے اور یہ بہت ہی بہترین کھیل ہے۔
٭اردونیوز:اس کھیل کیلئے آپ کیسے تربیت لیتی ہیں ؟کیا ورزش ضروری ہے ؟
٭٭عریشہ نجیب :ورزش تو ہر کھیل کیلئے ضروری ہے۔ہم رول بال کھیلتے ہیں۔اس کھیل کیلئے خاص طور پر ورزش کی بہت اہمیت ہے کیونکہ کھلاڑی کیلئے اسٹیمنابہت ضروری ہوتا ہے۔ اس کے بغیر رول بال کھیلا ہی نہیں جاسکتا ۔بہت بھاگنا ہوتا ہے اور گول کرنا ہوتا ہے۔پیروں میں لگے وہیل شوز سے بیلنس رکھنا ہوتا ہے۔
٭اردونیوز:آپ دونوں بہنیں کس طرح ورزش کرتی ہیں اور تعلیم پر کس طرح توجہ دیتی ہیں؟
٭٭ایمان:ہمارے استاد نے ہمارے ساتھ بہت محنت کی اور ہمارے گھر والوںنے بہت ساتھ دیا ورنہ ہم اتنا کچھ نہیں کرسکتی تھیں۔ہم روزانہ سوئمنگ کرتی ہیں،پھر اسکیٹنگ کی پریکٹس بھی کرنی ہوتی ہے۔ یہ کافی مشکل ہوتا ہے مگر ضروری ہے۔ اس کے بغیر ہم عالمی مقابلوں تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔
٭٭ عریشہ:میں یونیورسٹی سے 2،3بجے آتی ہوں پھر شام 6بجے اسکیٹنگ کی پریکٹس کیلئے جاتی ہیں۔ویسے بھی اسپورٹس مین اور وومین کو پریکٹس میں رہنا چاہئے۔ہم انہیں اوقات میں پڑھائی بھی کرتی ہیں۔یونیورسٹی میں اگر کوئی فری پیریڈ ملتا ہے تو اس میں بیٹھ کر پڑھ لیتی ہیں۔
٭٭ایمان:میں نے سوئمنگ کے سندھ مقابلوں میں بھی حصہ لیا تھا ۔ساتھ ہی بیڈ منٹن اور دیگر کھیلوں کی جانب بھی رحجان ہے۔ یہ تمام کھیل ہی جسمانی نشو ونما اور صحت کیلئے بہت اہم ہیں۔
٭اردونیوز:اچھا یہ کافی مشکل کام ہے ،پڑھنا بھی ہے گھر کے کام کاج بھی ہیں۔ اس کے باوجود اتنی چھوٹی عمر میں آپ دونوں بہنوںنے اتنا بڑا کام کرلیا ۔آپ ہمارے قارئین کو بتائیںگی کہ کیا معمولات ہوتے ہیں آپ کے؟
٭٭ ایمان :ہم لوگ صبح صبح ورزش کرنے کیلئے کلب جاتے پھر واپس آکر کے ناشتہ کرکے اسکول چلے جاتے ۔ دوپہر میں اسکول سے واپس آکر کچھ دیر سو جاتے تھے ۔4بجے سوئمنگ پر جاتے تھے ،پھر واپس آکر دوبارہ اسکیٹنگ کی تربیت کیلئے جاتے تھے۔پھر گھر آکر اسکول کا بھی کام کرتے تھے۔کافی سخت معمولات تھے مگر جب جنون کی حد تک شوق ہو تو سب کچھ ممکن ہوجاتا ہے۔
٭اردونیوز:تو گھر میں امی نہیں کہتیں کہ بھئی کھانا وانا بھی پکائو ،کیاپکانا آتا ہے آپ کو؟
٭٭عریشہ:(ہنستے ہوئے) ابھی توکچھ نہیں آتا ،وقت پر سب آہی جائیگا۔
٭اردونیوز:اچھا عریشہ ذرا آپ اپنے بارے میں بتائیں کہ آپ نے کیا کیاکامیابیاں حاصل کیں ؟
٭٭ عریشہ نجیب صدیقی:میں نے بہت کچھ حاصل کیا۔شروع میں اسپیڈ کا مقابلہ ہوتا تھاپھر فِگر اسکیٹنگ ہوتی تھی۔پھر رول بال مقابلے ہوتے تھے۔باسکٹ بال اور ساکر کے مقابلے بھی ہوتے تھے ۔میں نے ان تمام مقابلوں میں حصہ لیا۔پہلا مقابلہ میں نے افتخار اولمپیئن میں کیا اورتیسری پوزیشن حاصل کی جبکہ ہمارا سب سے بڑا میڈل ورلڈ کپ کا تھا جو بنگلہ دیش میں ہوا ۔
٭اردونیوز:اچھابنگلہ دیش میں ورلڈ کپ تک کس طرح پہنچیں؟ وہاں کتنی ٹیموں سے مقابلے ہوئے؟
٭٭ عریشہ نجیب صدیقی:بنگلہ دیش میں ورلڈ کپ تک پہنچنا بہت مشکل کام تھا۔بڑی محنت کے بعد ہم وہاں تک پہنچیں۔بنگلہ دیش رول بال اسکیٹنگ مقابلوںمیں 37لڑکوں کی اور27لڑکیوں کی ٹیمیں تھیں ۔لڑکوں کا لڑکوں سے اور لڑکیوں کا لڑکیوں سے مقابلہ ہوتا ہے۔ہمارا پہلا مقابلہ ایران کیساتھ ہوا ۔ایران بہت بہترین ٹیم ہے جبکہ ورلڈ کپ میں پہلے رنر اپ ہے ۔میں یہاں بتاتی چلوں کہ ہم لوگ یعنی پاکستان کی گرلز ٹیم جنوبی ایشیا چیمپیئن شپ کی گولڈمیڈلسٹ ہے۔پہلے میچ میں ایران نے 3گول کئے ،3گول ہم نے کئے۔میچ برابر ہوگیا ۔پھر ہمارا میچ تنزانیہ کے ساتھ ہوا اس میں ہمیں واک اوور مل گیاپھر چین سے کھیلا ،ہم نے 30گول کئے مگر چین کی کھلاڑی کوئی گول نہیں کرسکیں۔پھر ہمارا میچ لٹویا سے ہوا ۔یہ کوارٹر فائنل تھا جو ناک آئوٹ سسٹم کے تحت ہوا۔اس میں ہم نے6گول کئے اور انہوں نے بھی 6گول ماردیئے ۔میچ برابر ہوگیا تو10منٹس کا اضافی وقت دیاگیا ۔اس میں ہمارے 2گول ہوئے اور انہوں نے بھی 2گول کردئیے۔پھر گولڈن گول ملا تو انہوں نے گولڈ گول پر ہمیں شکست دیدی۔
٭اردونیوز:گولڈن گول سے کیا مراد ہے؟
٭٭ عریشہ نجیب:گولڈن گول سے مراد ہے کہ اس میں جو بھی ٹیم پہلے گول کردے گی وہ فاتح ہوگی ۔لٹویا کی لڑکیاں بہت لمبی لمبی ہوتی ہیں جبکہ ہماری لڑکیوں کے قدان سے کم تھے۔کوارٹر فائنل میں لٹویا کی کیپٹن نے ہماری کھلاڑی کے منہ پر بال ماردی جس سے اس کے منہ اور دانتوں سے خون نکلنے لگا۔ وہ ریفری کے پاس گئی تو ادھر سے انہوں نے گول ماردیا اور ریفری نے انہیں فاتح قرار دیدیا ۔
٭اردونیوز:تو یہ فاؤل نہیں ہوا؟
٭٭ایمان:جی تھا تو فائول مگر ریفری نے انہیں کامیاب قراردیدیا۔اس طرح ہمیں شکست ہوگئی مگرکسی نے اس جانب توجہ نہیں دی۔یہ فاؤل تھا ۔
٭اردونیوز:پاکستان حکومت کی جانب سے آپ لوگوں کیساتھ تعاون کیاگیا؟
٭٭ایمان نجیب/عریشہ نجیب:حکومت پاکستان نے تو کبھی ہمیں سپورٹ نہیں کیا۔ہم چاہتی ہیں کہ حکومت ہمیں اہمیت دے۔ہماری مدد کرے۔ہمیں بین الاقوامی طور پر متعارف کرائے تو ہم پاکستان کا نام روشن کرسکتی ہیں۔
٭اردونیوز:آپ کے والد نجیب صدیقی بھی ساتھ ہیں۔ ہم ان سے بھی بات کرتے ہیں، نجیب صاحب بچیوںکا شکوہ ہے کہ حکومت پاکستان نے ان سے تعاون نہیں کیا، آپ بھی یہی سمجھتے ہیں؟
٭٭نجیب صدیقی: یہ بالکل صحیح کہہ رہی ہیں ۔حکومت کی جانب سے کبھی کوئی مدد نہیں کی جاتی جبکہ ادارے بھی نہیں پوچھتے۔یہ تو والدین ہی ہوتے ہیں جو بچوں کوآگے بڑھانے ،بہتر نشو ونما اور دنیا ٰمیں اچھا مقام دلانے کیلئے کوششیں کرتے ہیں۔ان کی تربیت بھی کرتے ہیں اور مالی تعاون بھی فراہم کرتے ہیں جبکہ تعلیم بھی ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ یہ والدین کیلئے بہت زیادہ مالی بوجھ کا باعث ہوتا ہے ۔ بہتر معاشرے کیلئے کھیل اور کھلاڑی دونوںکو فروغ ملنا چاہئے۔حکومت کو تعاون کرنا چاہئے ۔یہ بچے پاکستان کا مثبت چہرہ دنیا کے سامنے لاتے ہیں ۔
٭اردونیوز:ان بچیوں نے بنگلہ دیش جاکر پاکستان کا نام روشن کیا۔وفاقی حکومت ہو یا سندھ حکومت ،بڑے دعوے کرتی ہیں کہ کھیلوں کے فروغ کیلئے بڑے بڑے فنڈز مختص ہیں ۔کبھی آپ سے کسی نے رابطہ کیا یا آپ نے کسی سے کوئی تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی؟
٭٭نجیب صدیقی:نہیں ،یہ صرف دعوے ہوتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے دیگر ترقیاتی کاموں کیلئے دعوے کئے جاتے ہیں۔کوئی امداد نہیں دی جاتی ،کوئی فنڈز نہیں ملتے۔یہ فنڈز مختص ہوتے ہیں مگر نجانے کہاں جاتے ہیں۔یہ بچیاں بنگلہ دیش گئیں ۔ہم نے خود ہی اخراجات برداشت کئے۔ٹکٹ سے لے کر سب کچھ ہم نے ان کی ایسوسی ایشن کو دیئے۔حکومت کو چاہئے کہ ان بچیوں کو اسٹار سمجھے۔ان کی مالی مدد کی جائے۔کم ازکم ان کو بیرون ملک آنے جانے اور مقابلے میں شرکت کے اخراجات ہی دیئے جائیں۔اگر کچھ نہیں تو انعام کی شکل میں ہی ان سے تعاون کیاجائے تا کہ دوسر ے لوگ بھی ہمت کرکے اپنی بچیوں کو آگے لائیں۔خلیجی ممالک میں بھی پاکستانی ایسوسی ایشنز ہیں دنیا بھر میں ایسوسی ایشنز اپنے ملک میں ایسے ہونہار بچوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔
٭اردونیوز:کیا کبھی آپ نے حکومت سے یا کسی سے کوشش کی کہ وہ آپ کی مدد کریں؟
٭٭نجیب صدیقی:نہیں بالکل نہیں۔دیکھیں ذاتی حیثیت میں کسی سے مدد مانگتا یہ بہت شرم کا مقام ہے۔ان کی ایسوسی ایشن نے بھی مجھے ایک خط دیا تھا کہ آپ اپنا کوئی فنانسر تلاش کرلیں مگر صرف اپنے بچوں کیلئے اس طرح رابطہ کرنا اچھا نہیں لگتا ۔میرا مطالبہ ہے کہ حکومت یا ادارے ایسوسی ایشنز کو فنڈز یا مالی امداد دیں تاکہ وہ ایسے بچوں پرجو ملک کا نام روشن کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں ،ان پر یہ فنڈ خرچ کریں۔
٭اردونیوز:چلیں واپس عریشہ اور ایمان کی طرف آتے ہیں،لوگوں کا رویہ کیسا ہوتا ہے؟ آپ لوگوں کو خاص اہمیت ملتی ہوگی؟
٭٭ایمان صدیقی:ـویسے خاص اہمیت تو نہیں مگر لوگ پھر بھی عزت دیتے ہیں۔کلاس میں بھی ٹیچرز زیادہ اہمیت دیتی ہیں، ہمیں خاص پروٹوکول ملتا ہے۔جب ہم تعلیم کے علاوہ کسی بھی شعبے میں کچھ خاص کرتے ہیں تو معاشرے میں ہمار ی قدر بڑھ جاتی ہے اور یہ ہمارے لئے بہت بڑا انعام ہے۔ بس ہم یہ کہیں گے کہ میڈیا ہمیں متعارف کرائے۔ابھی اسکیٹنگ اتنا زیادہ معروف کھیل نہیں جبکہ میڈیا اگر چاہے تو یہ بہت معروف ہوسکتاہے۔
٭اردونیوز:اچھا اگر کوئی لڑکی اسکیٹنگ میں آناچاہتی ہے تو وہ کس عمر تک آسکتی ہے؟
٭٭ایمان /عریشہ: اسکیٹنگ میں آنے کی کوئی خاص عمر نہیں۔ہماری اکیڈمی میں 3سال تک کے بچے اسکیٹنگ کرتے ہیں۔ بس آپ کا شوق ہونا چاہئے لیکن ہر کھیل کی طرح ا س کھیل میں بھی کوشش ہونی چاہئے کہ وزن نہ بڑھے ۔کھیل سے پہلے جوس یا پانی پینا منع ہے۔

شیئر: