Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماں اک درسگاہ، نصاب میں انسانیت کا مضمون لازمی ہے

آج میں اپنی عظیم ماں کو یاد کر رہا ہوں، انہوں نے غم کی گہرائی سے طاقت کی گیرائی کشید کی
- - - -  - - - - - - -
ڈاکٹر خالد عباس۔ مدینہ منورہ
 - - - -  - - - - - - - -
ماں کاشیریں لفظ اپنی تکوین و تجسیم کے دامن میں اقوام عالم کے بیکراں معانی و تفاہم سمیٹتے ہوئے ہیں۔ حقیقت کی آنکھ سے دیکھا جائے تو یہ کہنا بے جا نہیں کہ ’’ماں‘‘ اہل زمیں کیلئے رب کریم کا تحفہ ہے۔ یہ درد مندی کا گرانقدر نسخۂ کیمیا اور ناامیدی کے اندھیروں میں روشن چراغ ہے۔ ماں کی ممتا جہان احساسات کا لطیف ترین جذبہ ہے ۔ ماں کسی بھی رنگ و نسل سے ہو اس کی چھاؤں اولاد کیلئے گھنا سایہ اور سرمایہ ہے۔ معلم انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں کے مقام کو جس انداز میں بیان فرمایا ہے اس سے ماں کے نام کے معانی کی عظمت پر مہر ثبت ہوگئی۔ آج ماؤں کا دن ہے۔ ٹھنڈی چھاؤں کا دن ہے ، کروڑوں بچے آج اپنی ماؤں کو یاد کررہے ہیں۔ ماں کی محبت خالص ترین جذبہ ہے جس میں نہ ہی لالچ کی ملاوٹ ہے ، نہ دکھاوے کی سجاوٹ ۔ ہر ماں کی طرح میری ماں بھی عظیم تھیں ۔
ماں صرف ماں ہی نہیں ایک عظیم درس گاہ اور فقید المثال تربیت گاہ بھی ہے۔ ایسی درس گاہ جس کے نصاب کی کتابوں میں انسانیت کا مضمون اختیاری نہیں بلکہ لازمی ہے۔ اس درس گاہ کی معلمہ’’ ماں‘‘ طلبہ کو بولنے سے لے کر تمام تر اداب سکھاتی ہے۔ ممتا میں یکتا اس درس گاہ سے ایسے ایسے نابغۂ روزگار لوگ فارغ التحصیل ہوئے جنہوں نے تاریخ کا دھارا بدل دیا، سینۂ زمین پر نئے جغرافیے تشکیل دیئے۔ آدم خاکی کو تمدن کا شعور اور تہذیب کا انسانی نور دیا۔ آداب فرزندی کے سلیقے اسی مدرسۂ مادر نے ازبر کرائے: یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی آج میں بھی اپنی عظیم ماں کو یاد کررہا ہوں۔ ان کی شفقتوں کو یاد کرتا ہوں تو میری آنکھیں اشکوں کی بوچھار کر دیتی ہیں۔ وہ پیکر ِایثار تھیں۔ ان کی زندگی قربانیوں سے عبارت تھی۔ قیام پاکستان کے وقت وہ دکھوں کی گٹھڑی اٹھائے جالندھر کے مسلم اکثریتی گاؤں طلبن سے ہجرت کرکے آئیں اور مہاجروں کے کیمپ میں خیمہ زن ہوئیں۔ انہوں نے غم کی گہرائی سے طاقت کی گیرائی کشید کی۔ زندگی سے مصالحت کے بجائے مزاحمت و محنت کا راستہ اپنایا پھر دکھوں کے میلے میں خوشی ان کا مقدر ہوئی۔
مسلسل دعاؤں کے بعد ان کے آنگن میں میری صورت گلاب کھلا، وہ مجھے ہر حال میں ڈاکٹر بنانا چاہتی تھیں۔ میں ان کے قدموں کے چراغوں کی روشنی میں ان دیکھے مستقبل کی صورت گری کرنے لگا۔ میرے ہاتھ میں کدال کی بجائے قندیلِ علم تھما دی گئی۔ میری کامیابیاں ماں کے حوصلے کی کنجیاں بن گئیں۔ پردیس میں جب بھی ممتا سے معطر خط آیا ، لفظوں کی خوشبو کا ایک ہی سوال ہوتا ، بیٹا کب آؤ گے۔کہتیں کہ میں نے پانچ سال کا روزہ رکھا ہوا ہے، میں اداس ہوجاتا اور پھر اداسی کی کیفیت کو ایک وعدے کی عبارت میں یوں بدلتا، ماں! میں جب برسرروزگار ہونگا تو میرا پہلا فریضہ آپ کو حج پر بلانا ہوگا۔ میں اپنے وعدے کو خط کے حوالے کردیتا۔ پھر میرے خواب کی زمین کو مہکتے گلاب کی تعبیر مل گئی۔ والدہ حج پر آئیں، طواف مکمل ہوا۔ ماں سے کہا کہ میں آپ جیسی نیک ماں کا گنہگار بیٹا ہوں، انہوں نے اپنی چادر کے پلو سے میرے آنسوپونچھے اور پھر ممتا نے سائبان کرم کھول دیا۔ آخری ایام میں والدہ عمرہ کی تیاری کررہی تھیں۔ محلے کی ہر عورت کو بتاتی تھیں کہ میں پھر مدینہ منورہ جارہی ہوں ، اپنے بیٹے کے پاس عمرہ کرنے کیلئے اور حرمین شریفین کی حاضری کیلئے مگر رب کریم کو کچھ اورہی منظور تھا۔ میں عمرہ کررہا تھا ، میرا دل اچانک بیٹھنے لگا ۔
یہی لمحہ تھا، ماں کی رحلت کا۔ میری دنیا اجڑ گئی۔ جنازے میں شریک نہ ہوسکا۔ یہی دعا کرتا تھا کہ مالک! میری ماں کو جنت الفردوس عطا فرمائیے۔ یتیمی کی خاک چہرے پر ملے جب میں گھر پہنچا تو دہلیز پر انتظار کرنے والی بوڑھی ماں نظر نہ آئی۔ دعائیں دینے والی ماں کی چارپائی خالی تھی۔ در و دیوار کی اداسیاں میرے گلے لگ کر رونے لگیں۔ ماں کی یادیں اور باتیں مجھے پرسہ دینے لگیں۔ صبح ہوئی مگر ایسے جیسے اس نے کبھی سورج نہیں دیکھا تھا۔ اسی اثناء میری ماں کی منہ بولی بیٹی داخل ہوئی، کہنے لگی بھائی جان جس دن ماں جی، اللہ کریم کو پیاری ہوئیں، میں ان کے ساتھ تھی ۔ میں بچے کی دیکھ بھال کیلئے گھر آئی تو اونگھ آگئی، خواب میں دیکھتی ہوں کہ ماں جی ایک خوبصورت گھر میں دوسری عورتوں کے ساتھ سفید لباس پہننے خوش و خرم بیٹھی ہیں۔ میری آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ میں نے روتے ہوئے کہا کہ میری ماں نے ساری زندگی مجھ پر سایہ کئے رکھا ،ایسا لگتا ہے کہ آج بھی آپ کا سایہ ، آپ کی دعائوں کی شکل میں میرے سر پر ہے ، یہی میرا سرمایہ ہے، اللہ کریم آپ کو اپنی رحمت کے سائے میں رکھے۔ ماں آپ عظیم ہیں۔

شیئر: