Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سردہوا مجھے اپنے وجود کے زہر کا تریاق محسوس ہو رہی تھی

میں تمہاری کائنات کا رنگ ہوں، مجھے اپنا بنائے رکھنا تاکہ میرے وجود سے بہار کبھی رخصت نہ ہو
- - - -  - - - - - -
 شہزاد اعظم۔ جدہ
- - - - --- - - - - -  -
آج1995ء کے ماہ دسمبر کی 5تاریخ ہے۔مناہل اسکول سے آتے ہی سو گئی۔ وہ اپنی توتلی زبان میں مجھے بتا رہی تھی کہ ’’مما! مجھے مِچھ نے پپا تیا تھا۔‘‘میں بستر پرمناہل کے سرہانے بیٹھی اس کے چہرے پر نظریں جمائے رات کی سیاہی پھیلنے کا انتظار کر رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ وہی شہروز جیسے کمان ابرو،گھنی پلکیں اورستواں ناک،مناہل نے اپنے باپ کی تمام وجاہت سمیٹ لی تھی۔ میں اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر دیکھنے لگی کہ کتنی مماثلت ہے اس کی اور میری انگلیوں میں، لمبی اور نازک انگلیاں، یہ خیال آتے ہی میرے کانوں میں شہروز کی آواز گونجی ’’ثمرہ! تمہاری انگلیاں اتنی حسین ہیں کہ ان پر شاعری کرنے کو دل چاہتا ہے۔پتا ہے، تمہاری شکل تو بعد میں دیکھی تھی، میں نے تمہارے حسین ہاتھوں کو دیکھتے ہی شادی کاپختہ ارادہ کر لیا تھا۔میں انہی خیالات میں ڈوبی تھی کہ اچانک کمرے کی کھڑکی کھلی اور سرد ہوا کا تیز جھونکا یوں داخل ہوا جیسے بعض اوقات نہ چاہتے ہوئے بھی کوئی خیال ذہن و دل میں در اندازی کر بیٹھتا ہے ۔ میں مناہل کی وجہ سے کھڑکی بند کرنے کے لئے اٹھی مگر نجانے کیوںمجھے ٹھنڈ نہیں لگی بلکہ سردہوا مجھے اپنے وجود کے زہر کا تریاق محسوس ہو رہی تھی۔
میں نے کھڑکی کا ددوسرا پَٹ بھی کھول دیا اور آنکھیں بند کر لیں پھر اچانک ہی وہ منظر میری یادوں کے پردے پر اُبھر آیا جب شہروزنے ایسی ہی ایک سرد رات میں میرا ہاتھ تھام کر کہا تھا کہ مجھے تو سردی کا موسم اچھا لگتا ہے، آپ کو کون سا موسم پسند ہے؟ میں نے جواباًاپنے شریک زندگی کے سامنے دلی احساسات و جذبات کے تمام پرت کھو ل کر رکھ دیئے۔میں نے ان سے کہا کہ: ’’تمہیں پتا ہے، عورت تصویرِ کائنات کا رنگ ہے ۔ جس طرح اس کائنات کے 4موسم ہیں اسی طرح عورت کے وجود کی کائنات کے بھی چار موسم ہیں، گرمی، سردی، خزاں اور بہار۔ہر صنفِ نازک گرمی اور سردی توسہہ لیتی ہے، خزاں سے دامن بچاتی ہے اور بہارکی شرکتِ دوام چاہتی ہے۔میں بھی عورت ہوں،تمہاری کائنات کا رنگ ہوں، مجھے اپنا بنائے رکھنا تاکہ میرے وجود کی کائنات سے بہار کبھی رخصت نہ ہوسکے اور خزاں مجھے کبھی تلاش نہ کر پائے۔‘‘اسی دوران اچانک کسی نے میرا ہاتھ تھام لیا،میری یادوں کی دنیا میں ایک زور دار جھماکا ہوا، آنکھیں کھول کر دیکھا تو مناہل میرے پاس کھڑی تھی اور کہہ رہی تھی کہ مما! بھوک لگی ہے۔ بیٹی کی آواز سن کرمیرے ماضی کی یادوں نے مجھ سے منہ موڑلیا۔ میں حقیقت سے نبردآزما ہونے کے لئے مناہل کوساتھ لے کر باورچی خانے کی طرف گئی اور اس کے لئے پراٹھا پکایا، دودھ کا گلاس بھرا ا ور اپنے ہاتھوں سے اسے کھلانے لگی۔میں سوچ رہی تھی کہ کیا یونہی یادوں کے جھرمٹ میں زندگی گزر جائے گی؟کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ مطلقہ کی ازدواجی زندگی ’’ری وائنڈ‘‘ ہو جائے؟۔

شیئر: