Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جاگیردارانہ نظام سے تہذیب و تمدن کا نقشہ تبدیل

سیاست کے بااثرلوگوں نے عوام پر مسائل کے پہاڑ توڑے ، اب ان کی اولادیں اسمبلیو ں میں پہنچ چکی ہیں
- - -  - - - - - - -
عنبرین فیض احمد ۔ کراچی
- - -  - - - - - -
تیسری دنیا کے ممالک میں غریبوں کی زندگیاں عذاب سے کم نہیں۔ہمارے ملک میں مہنگائی کا جو عالم ہے اس میں غریب کیا کرے، خود پیٹ پالے یا اپنے اہل و عیال کو دیکھے ۔ایسے میں بے روز گاری ،گھریلو جھگڑے اورذہنی کوفت پریشان کئے رکھتی ہے اور زندگی امتحان بن کر رہ جاتی ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کیلئے بھی زندگی کسی آزمائش سے کم نہیں ہوتی۔ وہ بھی زندگی کی گاڑی گھسیٹ رہے ہیں، ایڑیاں رگڑرگڑ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کے بچے بھی زندگی کی بنیادی سہولتوں کو ترس رہے ہیں۔اس پر ہمارے وطن عزیز کے جاگیردارانہ نظام کے مہلک جراثیم ہمارے سماجی، معاشی اور سیاسی ڈھانچے میںیوں داخل ہوچکے ہیں کہ ان کے زہر سے ملکی معاشرت اور تہذیب و تمدن کا نقشہ ہی تبدیل ہوچکاہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے وطن میں غریبوں کے پاس سر چھپانے کیلئے کوئی چھت نہیں لہٰذا وہ مختلف جگہوں پر قبضہ کرلیتے ہیں یا پھر کھلے آسمان تلے زندگی بسر کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں جن میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو مزدور اور محنت کش ہوتے ہیں۔ ان کا تعلق ملک کے مختلف صوبوں سے ہوتا ہے۔ محنت مشقت اور رزق حلال کمانے کیلئے وہ بڑے شہر وں کا رخ کرتے ہیں۔ ان میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو سالہاسال سے وہاں مقیم ہیں اور بہت سے ایسے بھی ہیں جو چند برسوں میں اتنا کچھ کما لیتے ہیں کہ واپس جاکر اپنے کچے گھروں کو پختہ کرلیتے ہیں۔ ضروریات زندگی سے بھی اپنے گھر کو آراستہ کرلیتے ہیں تاکہ زندگی کچھ سہل ہوجائے۔ غریب لوگ گرمی، سردی، برسات، ہر موسم میں تکالیف اٹھاتے ہیں ۔اپنے ہی وطن میں رہتے ہوئے ہزاروں مصائب کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ یہ صورتحال کسی المیے سے کم نہیں۔ صاحب ثروت اور مخیر حضرات کو چاہئے کہ ان غریب لوگوں کیلئے جو جھگیوں میں رہنے یاچا ر پائیاں ڈال کر کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ان کی مدد کریں اور ان کے رہنے کیلئے چھوٹے کوارٹر نما مکانات تعمیر کروائیں تاکہ وہ موسموں کی شدت سے بچ سکیں اور ان کے جان و مال بھی محفوظ رہیں۔ غریب عوام بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں ۔ یہ تو ہماری حکومت اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ان کو بنیادی سہولتیں فراہم کرے۔ ایک سروے کے مطابق یہ بات سامنے آئی ہے کہ وطن عزیز کے 6 کروڑ عوام غربت کی لیکر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
افسوس اس بات کا ہے کہ اس تعداد میں روزبروز اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے جو حکومت کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج دکھائی دے رہا ہے۔ ہمارے ہاں نوجوانوں کیلئے تعلیم حاصل کرنا محال ہوتا جارہاہے ۔ایک جانب مہنگی تعلیم اور دوسرے اس کی بڑھتی ہوئی فیسوںجیسے خوفناک مسائل کا عوام کو سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ صحت کی کوئی سہولت میسرنہیں یہاں تک کہ پینے کا صاف پانی بھی دستیاب نہیں۔ صاحبان اختیار کو اس بات کا احساس ہی نہیں۔ ہمارے ہاں مختلف ادارے عوام پر ٹیکس عائد کر کے غریبوں کی رگوں سے خون نچوڑنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ جاگیردارانہ نظام کے پروردہ لوگوں کی اشرافیہ میں اکثریت ہے۔سیاست میں ایسے وڈیرے اور بااثر افرادموجود ہیں جنہوں نے عرصہ ہائے دراز تک پہلے خود عوام پر مسائل کے پہاڑ توڑے اور اب ان کی اولادیں بھی اپنے آباء کے نقشِ قدم پر چلنے کے لئے اسمبلیو ں میں پہنچ چکی ہیں ۔اس طرح آج بھی وہاں ان کی اجارہ داری ہے۔ہمارے وطن عزیز کا شمار دنیا کے 8 غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر آنے والا دن لاکھوں لوگوں کیلئے نئی مشکلات لے کر آتا ہے۔
اسی ملک میں اکثر لوگ بہت آرام دہ زندگی بسر کررہے ہیں۔ انہیں زندگی کی تمام سہولتیں و آسائشیں میسر ہیں ۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جسے دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ معاشرے کا المیہ ہے کہ غریب انتہائی غریب اور امیر انتہائی امیر ہوتا جارہا ہے۔ دھنک کے صفحے پر جو تصویر شائع کی گئی ہے اس میں نہ صرف یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ عوام بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے پریشان ہیں بلکہ یہ بھی بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وطن عزیز میں لوگ سرکاری اراضی پر کس طرح غیر قانونی طور پر قابض ہوجاتے ہیں۔تصویر میں دکھائی گئی خواتین اور بچے بھی ریلوے کی سرکاری اراضی پر براجمان ہیں ا ور آرام سے بلاخوف و خطرریلوے لائن پر چارپائی بچھا کر زندگی کے دن گزارنے میں مصروف ہیں لیکن یہ صورتحال ریلوے کی سیکیورٹی کیلئے مسئلہ بن سکتی ہے۔یہ مناظر صرف ریلوے کی اراضی پر ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں جا بجا دکھائی دیتے ہیں ۔غریب لوگ نہ صرف ریلوے لائنوں کے قریب بلکہ بسا اوقات گندے نالوں کے کنارے بھی اپنی جھگی ڈال لیتے ہیں۔
الغرض جہاں پر بھی ان کو جگہ نظر آتی ہے، وہاں وہ اپنے رہنے کا بندوبست کرنے لگتے ہیں کیونکہ غریب بے چارہ غربت کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے۔ وہ اپنا سر چھپانے کیلئے جگہ بنا ہی لیتا ہے۔
یہ درست ہے کہ ملک میں سرکاری اراضی پر براجمان ہونا یا اس پر قبضہ کرلینا غیر قانونی ہے بلکہ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ سرکاری زمین پر لوگ کاروبار جما لیتے ہیں یا پھر پکے مکانات تک تعمیر کر لیتے ہیں۔ اگر مغربی ممالک کی طرف نگاہ ڈالیں تو وہاں ایسے غیر قانونی کاموں کی اجازت سرے سے نہیں دی جاتی۔ ہمارے ہاں ایسی صورتحال ہے کہ غریب مجبور ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ لوگ ’’زمینوں پر قبضہ‘‘ نہ کریں تو سر چھپانے کے لئے کہاں جائیں؟ غریب شخص اپنے اہل و عیال کو چھت کہاں سے فراہم کرے ۔ اپنے بچوں کو تعلیم کیسے دلائے؟ ان تمام سوالوں کا ایک ہی جواب ہے کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو چھت مہیا کرے،غریبوں کو سستے گھر تعمیر کرا کر دے۔ ریاست کی بنیادی ذمہ داری تو یہی ہے کہ اپنے عوام کو مکمل تحفظ دے ، انہیں روزگار فراہم کرے، صحت اور تعلیم کی سہولتیں مہیا کرے ۔ ایسا نہیں کہ عوام کو گھسٹنے کے لئے بے یار و مددگار چھوڑ دے۔ دوسری جانب عوام کو بھی چاہئے کہ وہ غربت کی ’’آڑ‘‘ میں قانون کی دھجیاں اڑانے سے گریز کریں اور حکومت و دیگر ہم وطنوں کے لئے مسائل و مشکلات پیدا نہ کریں۔

شیئر: