Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فیشن کی دلدادہ بہو، ساس کیلئے درد سر

مارننگ شوز گھر بیٹھی غریب اور متوسط گھرانے کی لڑکیوں کی نفسیات متاثر کرتے ہیں
 - - - - - - -  - - -
عنبرین فیض احمد ۔ کراچی
 - - - -  - - - - - -
سعیدہ بیگم کا تعلق متوسط گھرانے سے تھا۔وہ بہت ہی کم عمری میں بیوہ ہوگئیں۔اس کے باوجود انہوںنے محنت اور لگن سے اپنے دونوں بچوں کو اچھی تعلیم و تربیت کے ساتھ پروان چڑھایا ۔اب مشکل یہ تھی کہ انہیں اپنی بہو کی تربیت بھی کرنی پڑ رہی تھی۔ وہ تعلیم یافتہ تو تھی مگر بات یہ تھی کہ اسے سسرال کے طور طریقے اور رسم و رواج سمجھنے اور سیکھنے میں وقت درکارتھا چونکہ ان کی بہو کو بھی آج کل کی لڑکیوں کی طرح صرف فیشن اورکپڑے، جوتے کا ہی شوق تھاجوشادی کے بعد بھی برقرار رہا ۔سعیدہ بیگم کے لئے یہ مسئلہ درد سر بن گیا۔
ان کا خیال تھا کہ خواہ مخواہ کے فیشن سے فضول خرچی بہت ہوتی ہے ورنہ وہ لڑکیوں کے بناؤ سنگھار کے خلاف ہرگز نہیں تھیں۔ وہ ہر چیز میں اعتدال کی حامی تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ عورت اگر صبر و برداشت کے ساتھ اعتدال کو بھی زندگی میں شامل کرلے تو نہ صرف وہ خود ایک کامیاب عورت بن سکتی ہے بلکہ اپنے بچوں کو بھی کامیابی کی راہ دکھا سکتی ہے۔یہی وجہ تھی کہ آج کے ماحول میں ٹی وی شوز، خواتین کے فیشن، میک اپ اورلائف اسٹال میں مارننگ شوز کی ہوسٹ اور ڈراموں کی ہیروئن کی تقلید کرتی لڑکیاں سعیدہ بیگم کو ایک آنکھ نہیںبھاتی تھیں۔ ان کی بہو بھی اسی دوڑ میں شامل تھی چنانچہ وہ دن رات اسے سلیقہ شعاری اور بچت کی اہمیت پر لیکچر دیا کرتیں مگرفیشن کی دلدادہ بہو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیا کرتی تھی جس کی وجہ سے گھر کا ماحول مکدر رہتا اور بجٹ بھی متاثر ہوتا تھا۔
اس مہنگائی کے دور میں بچوں کی پڑھائی ، کچن اور دوسرے اخراجات کے بعد اگر کچھ بچت ہوجائے تو کیا برا ہے۔ اوپر سے بہو بیگم کی جانب سے آئے دن نت نئے جوڑوں کی فرمائش اور فیشیل جیسے نخروں پر رقم خرچ ہوجاتی اورسعیدہ بیگم کا پارہ آسمان پر پہنچ جاتا۔ان کا خیال تھا کہ اگر ہر ماہ کچھ رقم بچالی جائے تو یقینا برے وقت میں کام آسکتی ہے۔ انکاکہنا تھا کہ ٹی وی کے مارننگ شوز پر دکھائے جانے والے فیشن اور میک اپ گھر بیٹھی غریب اور متوسط گھرانے کی لڑکیوں کی نفسیات متاثر کرتے ہیں۔ سادہ لوح خواتین یہ سب دیکھ کر دل مسوس کر رہ جاتی ہیں یا پھر اپنے شوہر کو قرض اور رشوت جیسی لعنتوں کی ترغیب دیتی ہیں۔ سعیدہ بیگم وضع دار اور پرانے خیالات کی سلیقہ شعار خاتون تھیں اس لئے وہ چاہتی تھیں کہ ان کی بہو بھی ان کے نقش قدم پر چلے لیکن ان کی کوششوں کے باوجود ایسا نہ ہوسکا۔
ان کے شوہر سرکاری ملازم تھے اسی میں انہوں نے اپنے دونوں بچوں کو پڑھایا، لکھایا اور پھر گھریلو اخراجات سے بچت کرکے کمیٹیاں ڈال ڈال کر اپنا گھر بھی بنوالیا جس کی و جہ سے آج وہ ایک عدد مکان کی مالکن بھی تھیں لہٰذا وہ اپنی بہو کو بھی سلیقہ شعاری سے چلنے اور فضول خرچیوں سے بچنے کی تلقین کیا کرتی تھیں مگر وہ ہر روز یہ دیکھ کر پریشان ہوجاتی تھیں کہ ان کی بہو پر ان کی نصیحتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ وہ اس کی شاہ خرچیوں سے بہت پریشان رہتی تھیں۔ خواتین کو سمجھداری سے کام لینا چاہئے۔ اگر وہ خود سلائی سیکھ کر اپنے کپڑے گھر پر خودہی ڈیزائن کرلیں تو درزی کو دی جانے والی اچھی خاصی رقم بچائی جا سکتی ہے۔

شیئر: