Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈرامے کے درمیان اشتہار، رونے وا لے، قہقہے مارنے لگتے ہیں

بیٹی کہہ رہی تھی ،ماں میں تمہارے بغیر کس کے سہارے چلو ں گی، اسی دوران آواز آئی ’’ہماری بیٹری چلے دیر تک‘‘

* * * * * *مسززاہدہ قمر ۔ جدہ* * * *

ایک صاحب نے مشہور برانڈ کی سگریٹ کے اشتہار میں دیکھا کہ ایک شکاری سگریٹ پی کر شیر کو شکار کرنے گیا اور2 تین تھپڑوں میں ہی شیر کو گرا لیا ،بندوق استعمال کرنے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ پیچھے سے آواز آئی کہ یہ پُر جوش لوگوں کی پسند شیر مار کہ سگریٹ۔ وہ صاحب اشتہار دیکھ کر بڑے متاثر ہوئے اور چونکہ شکار کے شوقین بھی تھے لہٰذا شیر مارکہ سگریٹ پی کر شیر کے شکار کو روانہ ہوئے۔ دوستوں کو بتا گئے کہ دیکھنا آج کس طرح شیر کو کان سے پکڑ کر لائوں گا۔ تمام دوست احباب انتظار میں بیٹھ گئے ۔کچھ دیرکے بعد وہ صاحب ہائے ہائے کرتے جنگل سے برآمد ہوئے ،سارا جسم لہو لہان تھا،کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ بڑی خستہ حالت تھی۔ لوگو ں نے حیران ہو کر پوچھا یہ حالت کیسے ہوئی ؟ ’’شیر نے مارا ہے‘‘ انہوں نے گلوگیر آواز میں بتایا۔ مگر کیوں ؟ تم تو سگریٹ پی کر شیر کو مارنے گئے تھے پھر کیسے پٹ کر آگئے َ؟ لوگ حیران ہوئے۔ میں نے تو ایک سگریٹ پیا تھا، شیر پوری ڈبی پئے بیٹھا تھا۔ انہوں نے اپنے زخمی ہونے کی وجہ بتائی۔

صاحبو! ہے یہ صرف ایک لطیفہ ہے مگر آج کل جس جانب دیکھو اشتہارات کا دور دورہ ہے۔ سوئی سے لے کر ہوائی جہاز تک ،کوئی چیز ایسی نہیں جس کا اشتہار ٹی وی، نیٹ اور سائن بورڈز پر نہ ہو۔ کسی زمانے میں ٹی وی ڈرامے اشتہارات کے تعاون سے پیش کئے جاتے تھے۔ اب ان اشتہارات کی اتنی بھر مار ہے کہ اشتہارات ٹی وی ڈراموں کے تعاون سے پیش ہو رہے ہیں ۔ صورتحال یہ ہے کہ چند سیکنڈ کا ڈرامہ اور اس کے بیچ میں بغیر کسی اطلاع کے اچانک اشتہار آجاتا ہے۔یوں ڈرامے کا تاثر ہی عجیب ہو جاتا ہے۔ ڈرامہ دیکھ کر 8،8آنسو رونے وا لے ناظرین قہقہے مارنے لگتے ہیں اور کبھی قہقہے مارتے مارتے غصے میں لا ل پیلے ہو جاتے ہیں۔ ذرا غور فرمائیے کہ کسی ڈرامے میں موت کا منظر ہوتا ہے۔

ڈرامے کی ہیروئن ماں کی موت پر پورا میک ا پ کئے اورتمام زیورات پہنے رو رہی ہے، آنسوؤں کی بجائے منہ بگاڑ بگاڑ کر دُکھ کا تاثر دے رہی ہے کیونکہ آنسوئوں سے اس کا فیس پاؤڈر اور فیس کی بیس خراب ہو سکتی ہے نیز آئی میک اپ کو بھی نقصان پُہنچ سکتا ہے۔ وہ فل والیوم میوزک میں قربانی کے بکرے کی طرح آواز نکال رہی ہے کہ ہائے ماں ! اب کیا ہو گا؟ میں تمہارے بغیر کیسے رہوں گی، اب میں کیسے جیوں گی، کس کے سہارے چلو ں گی؟ اسی دوران اچانک آواز آتی ہے ’’ہماری بیٹری سے ہر چیز روانی سے چلے دیر تک۔‘‘ اسی طرح کسی ڈرامے میں باپ اپنے بیٹے کا رزلٹ دیکھ کر اسے ڈانٹ رہا ہے کہ ارے نالائق !یہ نمبرلایا ہے، اتنا خراب رزلٹ ، تو نے ہماری ناک ہی نہیں بلکہ کان بھی کٹوا دیئے ۔

پورے سال تونے کچھ بھی نہیں پڑھا، یہ بتا تو نے سارا سال کیا کیا؟ اسی دوران ایک اشتہار چل نکلا اور آواز آئی ’’فلاں مشروب نہ پیا تو پھر کیا جیا۔‘‘ کچھ اشتہارات بہت عجیب و غریب بھی ہوتے ہیں جیسے ایک بلیڈ کمپنی نے اپنے تیار کردہ بلیڈوں کی تشہیر کے لئے یوں اشتہار دیا ’’اس ماہ شہر میں جتنے بھی نامی گرامی جیب کترے پکڑے گئے ،ان سب کے پاس سے ہماری ہی کمپنی کے تیار کردہ بلیڈ برآمد ہوئے ۔ اس سے آپ ہماری کمپنی کے تیار کئے ہوئے بلیڈوں کی اہمیت ، مقبولیت اور مہارت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ شیشے کے برتن بنانے والی ایک کمپنی نے اشتہار دیا کہ’’ ہماری کمپنی کے بنائے ہوئے شیشے کے برتن اگر آپ 22ویں منزل سے نیچے پھینکیں گے تو ہمارا دعویٰ ہے کہ21 ویں منزل تک وہ نہیں ٹوٹیں گے۔‘‘ ایک اور بات جو ان اشتہارات کے ضمن میں کافی عرصے سے قابل اعتراض کہی جا رہی ہے وہ یہ کہ ان اشتہاروں بلکہ تقریباً 99 فیصد اشتہارات میں خواتین کی موجودگی لازمی سمجھی جاتی ہے حالانکہ بہت سے اشتہارات ان کے بغیر بھی بن سکتے ہیں۔

خواتین کی اشتہارات میں غیر ضروری موجودگی اور نقل و حرکت کسی طرح بھی پسندیدہ نہیں حالانکہ ہمارا خیال یہ ہے کہ حرکت میںہی زندگی ہوتی ہے لہٰذا زندگی کے خلاف کچھ کہنا ہمیں بالکل پسند نہیں ۔ خواتین کے اشتہارات میں غیر ضروری داخلے پر ہم بہت کچھ کہنا اور لکھنا چاہتے ہیں اور لکھ بھی سکتے ہیں مثلاً موٹر سائیکل ، بلیڈ، کرکٹ، ڈیزل، بیٹری، پیٹرول وغیرہ کے اشتہارات میں خواتین ماڈلز کی موجودگی کیوں ضروری سمجھی گئی اور یہ کہ بہت سے اشتہارات میں خواتین کی موجودگی ناشائستگی لگتی ہے مگر صاحب ! ہمیں معلوم ہے کہ ادھر ہم خواتین اور اشتہارات کی تفصیل میں گئے اور اُدھر ایڈیٹرنے ہمارے مضمون کا فیوز اُڑایا، پھر کہا جائے گا کہ آپ کایوں عورتوں کے متعلق لکھنا ناشائستگی کے زمرے میں آتا ہے لہٰذا پورا کا پورا اقتباس ہی حذف کر دیا جائے گا لہٰذا پرانے بزرگوں کے بقول تھوڑے کو بہت جانو اور خط کو تار سمجھو اور آگے لکھنے سے ہمیں بے کار سمجھو۔ اشتہارات سے خواتین کے علاوہ جو طبقہ متاثر ہوتا ہے وہ بچوں کا ہے جنہیں بسکٹ، ببل گم اور ویفرز کے اشتہارات نے دیوانہ بنارکھا ہے۔ وہ کبھی ڈبے کا دودھ پی کر بڑے ہونے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ڈبے کا دودھ پی کر بچے بڑے نہیں ہوتے بلکہ بڑے بوڑھے دکھائی دینے لگتے ہیں۔کبھی بچے بسکٹ کھا کر چیتا بن جاتے ہیںحالانکہ بسکٹی چیتا کتنا جیتا، یہ کسی کو نہیں معلوم ۔والدین کی زندگی ان اشتہارات نے جہنم بنادی ہے ۔وہ اپنے بچوں سے اس طرح چھپتے ہیں گویا اشتہاری مجرم ہیں کیونکہ بچوں کو ہر چیز اشتہاری چاہئے ہوتی ہے اور وہ معصوم خواتین کی طرح اپنے دل کی بات دل میں ہی نہیں رکھتے بلکہ ببانگ دہل نہ صرف کہتے ہیں بلکہ اس پر عملدرآمد کے لئے کمر بھی کس لیتے ہیں۔

ہمارے آج کل کے بچوں کو اگر حکام بالا کے وعدوں اور دعووں کی تکمیل کے پیچھے لگا دیا جائے تویقین مانئے شاید ہی کوئی عہدیدار اپنی مدت ملازمت پوری کر پائے۔ بچے اس طرح پیچھے لگ جائیں گے کہ ہر افسرِ بالا یہ کہتا دکھائی دے گا کہ آج کے بچوں سے کیسے بچوں؟ بات کہاں سے چلی تھی اور کہاں پہنچ گئی۔آج کل صرف پراڈکٹ کے ہی اشتہارات نہیں دکھائی دیتے بلکہ گھروں، شادی ہالوں، پارلرز،اسکولز یہاں تک کہ اسپتالوں کے اشتہارات بھی دکھائے جاتے ہیں۔شادی ہال کے اشتہارات تو حال سے بے حال کرنے میں مہارت دکھانے کے لئے دیئے جاتے ہیں۔ پارلرز کے بار ے میں ہماری رائے یہ ہے کہ یہ خواتین کو حَسین بنانے سے زیادہ بے وقوف بنانے میں مہارت رکھتے ہیں ۔ باقی رہے اسکول اوراسپتال تو جناب ! واقعہ یہ ہے کہ اسکول میں پڑھو اور نہ صرف آپ بلکہ اپنی پوری فیملی سمیت اسکول کے اخراجات کی وجہ سے اسپتال میں جا پڑو۔ اشتہارات خواتین جیسی معصوم ہستیوں کو کس قدر متاثر کرتے ہیں اس کا اندازہ اس واقعے سے لگایئے کہ ایک صاحب کی بیگم نے شکایتی لہجے میں شوہر نامدار سے کہا کہ ’’دیکھئے ! اس اشتہارمیں شوہر اپنی بیوی کے فلانے مسالے میں پکائے ہوئے کھانوں کی کتنی تعریف کر رہا ہے ۔ میں بھی فلانے مسالے ہی استعمال کرتی ہوں ،آپ میری تعریف کیوں نہیں کرتے؟‘‘ شوہر نے بڑی شان بے نیازی سے جواب دیا ’’ اس شوہر کو اپنی بیگم کی تعریف کے پیسے ملتے ہیں اور مجھے کیا ملتا ہے صرف تمہار شکریہ۔‘‘

شیئر: