Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئی رشتہ سگا نہیں،سب کچھ پیسہ ہوتا ہے

ابو سعودی عرب سے کما کما کر بھیجتے رہے تایا خوب جائدادیں خریدتے رہے، واپس پہنچے تو دینے سے انکار کردیا، ہماری زندگی وہیں سے شروع ہوئی ہے جب ہمارے پاس کچھ نہ تھا
* * * * مصطفی حبیب صدیقی* * * * *
زین سے میری ملاقات مکہ سے جدہ واپسی پر اس وقت ہوئی جب میں باب مکہ پر گاڑی سے اترا،زین بڑے تمیز سے میرے قریب آیا اور بولا ’’سر کہاںجائیں گے‘‘ میں نے بتایا’’ عزیزیہ‘‘’’چلیں میری ٹیکسی میں آجائیں ‘‘معاملہ 10ریال میں طے پایا ۔بڑی عزت سے ٹیکسی میں بٹھا کر وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔پہلی ہی نظر میں باوقار اور صاف ستھرے کپڑے زیب تن کئے وہ نوجوان مجھے کہیں سے ٹیکسی ڈرائیور نہیں لگا۔مجھ سے رہا نہ گیا پوچھ ہی لیا ! ’’یا ر !تم واقعی ٹیکسی چلاتے ہو؟‘‘ ہنستے ہوئے سوال پر سوال کردیا’’کیوں میں ٹیکسی ڈرائیور نہیں لگتا‘‘ میں نے کہاکہ ’’ہاں نہیں لگتے اسی لئے تو پوچھا ہے ‘‘ ’’خوب سر !کیا کرتے ہیں آپ ،بڑی گہری نظر ہے‘‘ زین نے پھر سوال کیا۔
’’میں ایک صحافی ہوں،اردونیوز میں ہوتا ہوں ،میں اردونیوز میں پردیس میں بسنے والوں کی کہانیاں بھی لکھ رہا ہوں ‘‘ میں نے فوری اپنا مکمل تعارف کرادیاتھا کیونکہ ایک صحافتی نظر سے اپنی ’’اسٹوری‘‘ بھانپ چکا تھا۔ ’’اچھا آپ صحافی ہیں تو آپ میرے ابو کی کہانی بھی چھاپیںنا‘‘زین نے میری خواہش کو عملی جامہ پہنادیا۔پھر میرے ایک سوال پر ہی پوری کہانی کچھ یوں سنادی۔ میری 4بہنیں ہیں میں اکلوتا ہوں۔پاکستان میں سرگودھا سے تعلق ہے۔آج سے تقریباً32سال پہلے میرے ابو یہاں سعودی عرب آئے۔بہنیں بہت چھوٹی تھیں ،میں تو پیدا بھی نہیں ہوا تھا،ابوسال سال بعد پاکستان جاتے ۔
یہاں آرامکو میں ملازم تھے۔اچھی تنخواہ تھی۔بہنیں چھوٹی تھیں اور کوئی بڑا بیٹا تھا نہیں تھا ۔ابو نے اپنے بڑے بھائی پر بھروسہ کیا بس یہی غلط ثابت ہوا۔ ابو یہاں سے کما کماکر ہمیں پاکستان بھیجتے رہے۔بڑے بھا ئی کو پوری اتھارٹی دی اوروہ ابوکے پیسوں سے خوب جائیدادیں خریدتے رہے۔ابو نے ان سے کہا کہ تم اپنے نام سے لے لو ۔میں جب واپس آئوں گا تو اپنے نام کرالونگا۔وقت تیز ی سے گزرتا چلاگیا۔ابو ہر سال آتے اور اپنی دکانوں کو دیکھتے لیکن کبھی بھی خیال نہ آیا کہ اپنے نام کرالیں یہی سوچتے کون سا کسی غیر کے پا س ہیں جب ملازمت ختم کرکے جائونگا تو اکھٹے ہی اپنے نام کے بجائے بچیوں اور بیٹے کے نام کردونگا۔اس دوران میری پیدائش ہوئی۔میں انجینئرنگ کررہا تھا۔ابو 25سال بعد واپس پاکستان پہنچے۔اس وقت ہماری10دکانیں،فلیٹس اور زمینیں ہوچکی تھیں۔ابو کو اطمینان تھا کہ اب بیٹھ کر کھائیں گے اور محنت نہیں کرنی ہوگی۔لیکن۔۔ ’’لیکن کیا؟پھر کیا ہوا؟اس کا لیکن جب طویل ہوا تو میں نے سوال کیا۔زین آہ بھر کے دوبارہ بولتے بولتے رک گیا ۔پھر میری تھپکی پر گویا ہوا۔ میرے تایانے ابو کو یہ کہہ کر دکانیں اور زمینیں دینے سے انکار کردیا کہ سب کچھ تو میں نے کیا ہے ۔دیکھ بھال کی ہے۔
خریدا ہے تمہیں کیسے دے دوں۔میری 3بہنوں کی شادیاںہوچکی ہیں۔چوتھی بہن ابھی نویں میں ہے۔ابو کے پاس کوئی ثبوت نہ تھا کہ وہ عدالت بھی جاتے۔ہم ایک مرتبہ پھر 25سال پہلے والے دور میں آگئے جب ابو کے پاس کچھ نہ تھا اور وہ سعودی عرب آئے تھے۔ابو کو بڑا دھچکا لگا مگر ابو بہت ہمت والے ہیں۔انہوں نے کچھ جمع پونجی سے ایک دکان کی او ر اس کو چلارہے ہیں۔اب مجھے یہاں میرے ماموں نے بلالیا ہے۔مجھے لگتا ہے کہ اب مجھے ایک مرتبہ پھر 25سال کی تنہا زندگی گزارنے ہوگی۔میری تعلیم ادھوری رہ گئی جس کا افسوس ہے۔ میرے ابو نے بہت کٹھن زندگی گزاری ہوگی ۔
تنہا کوئی زندگی نہیں ہوتی۔ہم بھی وہاں ابو کیلئے تڑپتے رہے۔اب میں مجبوراً تنہا زندگی گزارنے آیا ہوں مگر میرا فیصلہ ہے کہ شادی کے بعد تنہا نہیں رہونگا۔یہ کوئی زندگی نہیں ہوتی۔ مگرمیں آپ کو بتائوں جب میں انجینئرنگ کالج میں داخل ہوا تو خاندان کے بہت سے لوگ جو ابو کے کنگال ہونے پر ہم سے دور ہوگئے تھے اپنی بیٹیوں کے رشتے کیلئے میرے گھر کے چکر لگانے لگے میں نے اپنے امی ابو کو کہہ دیا کہ اب اس خاندان سے ہمیں نہیں ملنا۔اب میں کہیں باہر ہی شادی کرونگا۔ بھائی!میں نے آپ کو یہ کہانی اس لئے سنائی ہے کہ آپ اسے شائع کردیں ،تاکہ لوگوں کو سبق ملے۔کوئی سگا نہیں ہوتا ۔
سب کچھ پیسہ ہوتا ہے۔میرے ابو تو بہت ہمت والے ہیں جو انہوںنے گرنے کے بجائے اس حادثے کے بعد دوبارہ کھڑے ہوکر مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔ایک مرتبہ پھر زندگی شروع کی مگر میں اب چاہتا ہوںکہ کوئی اور ایسا شکار نہ ہو۔ تو تم کیا تعلیم پوری نہیں کروگے؟میں نے سوال کیا کیونکہ مجھے اس نوجوان کی تعلیم ادھوری رہ جانے کا بہت افسوس ہورہا تھا ۔ ’’شاید نہیں کرسکوں،اب مجھے دوبارہ سے ابو کو اتنا کما کر دینا ہے جتنا انہوںنے25سال میں کماکر اتنا کچھ بنایا تھا۔میں ابو کا سہارا بنناچاہتا ہوں،میرے ابو کے ساتھ بڑا ظلم ہوگیا ہے‘‘۔زین کی گفتگو میں عزم اور ہمت دونوں نمایاں تھی میں اسے سمجھانا چاہتا تھا مگر یہ سوچ کر کچھ نہیں کہا کہ وہ بہت با ہمت نوجوان ہے اسے مجھ جیسوں کی نصیحت کی ضرورت نہیں بلکہ ہمت کی ضرورت ہے۔میں نے اسے حوصلہ دیا اور ٹیکسی سے اتر گیا۔

شیئر: