Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کھلواڑ

انسانیت کے قاتل کو کوئی بھی بات کرنے کا حق کیوں دیا جائے؟ جس شخص کی زندگی کا مقصد ہی دوسروں کو موت کی نیند سلانا ہو اُسے تو بغیر کسی مقدمے کے موت دی جائے
- - - - - - - - -  -
 جاوید اقبال
 -- -  - - - - - - -
سوال بڑا آسان ہے۔ کوئی بھی مغربی یورپی باشندہ یا رہنما فوراً اس کا جواب دے گا۔ سوال یہ ہے کہ اگر دوسری عالمی جنگ کے اختتام سے پہلے جرمنی کا آمر ریڈولف ہٹلر خودکشی نہ کرتا اور اسکے زیر زمین بنکر میں سب سے پہلے رسائی حاصل کرنیوالے روسی سپاہی اسے زندہ گرفتار کرلیتے اور پھر اسے ہتھکڑیوں میں نیورمبرگ کی عدالت میں پیش کیا جاتا جو اس پر فرد جرم عائد کرتی تو کیا اس لاکھوں انسانوں کے قاتل کو اپنے دفاع کا حق دیا جاتا؟ سوال بڑا آسان ہے ۔
اس کے جواب میں کوئی بھی مغربی یورپی باشندہ یا رہنما غصے سے لرزتے ہوئے جواب دے گا، ہرگز نہیں! انسانیت کے قاتل کو کوئی بھی بات کرنے کا حق کیوں دیا جائے؟ جس شخص کی زندگی کا مقصد ہی دوسروں کو موت کی نیند سلانا ہو اُسے تو بغیر کسی مقدمے کے موت دی جائے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر ایڈولف ہٹلر اور اسکی محبوبہ ریوا براؤن کی لاشیں ان کا ڈرائیور نذر آتش نہ کرتا اور وہ دونوں زندہ گرفتار ہوتے تو پھر اسٹالن بغیر کوئی مقدمہ قائم کئے انکی تقدیر کا فیصلہ کرتا اور کریملن کے چوراہے پر انہیں گولی سے اڑا دیتا۔ یہ سعادت حاصل کرنے کیلئے چرچل اور آئزن ہاور چیختے رہتے لیکن ماسکو پر حملہ آو ر ہوکر لاکھوں روسیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والے ہٹلر پر گولیوں کی بوچھاڑ ہوتے دیکھنے کی مسرت اور سعادت سے روسی رہنما کیسے محروم ہونا پسند کرتا؟ ہیروشیما اور ناگاساکی میں راکھ ہوجانے والے لاکھوں جاپانیوں کا خون بھی تو ہٹلر کے سر پر ہے؟ بین الاقوامی عدالت انصاف کے 11 منصفوں نے متفقہ فیصلہ سنا دیا ہے۔ اسکے مطابق پاکستان اس بات کو یقینی بنائیگا کہ مقدمہ کے حتمی فیصلے تک ہندوستانی جاسوس کلبھوشن یادو کو پھانسی نہ لگے۔ اس فیصلے میں پاکستان سے کہا گیا ہے کہ وہ کلبھوشن یادوکو قانونی مدد فراہم ہونے میں رکاوٹ نہ ڈالے اور اس تک سفارتی رسائی دے۔
بین الاقوامی عدالت انصاف نے پاکستان کا یہ دعویٰ بھی مسترد کردیا کہ یہ عدالت اس مقدمہ کی شنوائی نہیں کرسکتی۔ ایک نظر ماضی پر بھی ڈال لیتے ہیں۔ سی پیک منصوبے نے ہمارے اڑوس پڑوس میں بہت مروڑ اٹھا دیئے ہیں چنانچہ اس میں رکاوٹیں ڈالنے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا جارہا ہے۔ بلوچستان میں 3 مارچ 2016 ء کو کلبھوشن یادو نامی ایک ہندوستانی کو گرفتار کیاگیا۔ ایران سے پاکستان میں داخل ہوا تھا۔ جب تحقیقات آگے بڑھیں تو عقدہ کھلا کہ وہ ہندوستان کی خفیہ ایجنسی’’ را‘‘ کیلئے کام کررہا تھا۔ بلوچستان میں شورش پھیلا رہا تھا۔ دہشت گردی کے اکثر واقعات میں اس کا ہاتھ تھا ۔بلوچی نوجوانو کو منحرف کرنا اسکے اہداف میں سے ایک تھا جبکہ کراچی میں بھی وطن دشمن تحریک پیدا کرنے کیلئے کام کررہا تھا۔ 25 مارچ کو ذرائع ابلاغ پر اسکی گرفتاری کا اعلان کیاگیا اور ساتھ ہی اسکے اعترافی بیان پر مشتمل ایک وڈیو دکھائی گئی۔ اس میں کلبھوشن نے تسلیم کیا کہ وہ ہندوستانی بحریہ کا ایک افسر ہے اور پاکستان میں دہشتگردی پھیلانے کے خصوصی مشن پر ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ وہ ایرانی بندرگاہ چاہ بہار سے بلوچستان آیا تھا۔ اس نے انکشاف کیا کہ دہشتگردی کے مرتکب بیشتر افراد سے وہ رابطے میں تھا۔ اس اعترافی بیان کے بعد ستمبر میں کلبھوشن یادو پر مقدمہ قائم کیا گیا۔ شنوائی ہوئی اور 10 فروری 2017 ء کو اسے فوجی عدالت نے سزائے موت سنا دی۔ اس کا اعلان پاکستان کے کمانڈر انچیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کیا ۔
ہندوستان میں کھلبلی مچ گئی۔ سب سے پہلا قدم یہ اٹھایا گیا کہ اگلے دن 12 پاکستانی شہری ہندوستانی جیلوں میں اپنی سزائے قید کی مدت کی تکمیل کے بعد واہگہ سے واپس اپنے وطن آنے والے تھے، ہندوستان نے انکی روانگی ملتوی کی اور انہیں دوبارہ جیل بھیج دیا۔ اگلے دن لوک سبھا میں مودی حکومت کیخلاف ہنگامہ کھڑا ہوگیا چنانچہ ہندوستانی وزیر خارجہ سشما سوراج نے جذبات سرد کرنے کیلئے اعلان کیا کہ کلبھوشن یادو ہندوستان کا بیٹا ہے اُسے ہر قیمت پر بچایا جائیگا۔ 8 مئی کو ہندوستان نے بین الاقوامی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ شنوائی کیلئے 15 مئی کی تاریخ مقرر ہوئی۔ دونوں ممالک کے وکلاء نے اپنے اپنے دلائل دیئے۔ پاکستان کا بنیادی موقف یہ تھا کہ بین الاقوامی عدالت انصاف ایسے مقدمات کی شنوائی کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ 3 دن کے بعد 18 تاریخ کو ایک عارضی فیصلہ صادر کیاگیا کہ پاکستان کلبھوشن یادو کی سزائے موت پر عمل کرنے سے احتراز کرے گا، قیدی کو قانونی اور سیاسی مدد حاصل کرنے سے نہیں روکے گا اور یہ کہ عدالت یہ مقدمہ سننے کی بھی اہل ہے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف کے اس فیصلے نے قانونی ماہرین کو ششدر کردیا ہے۔ اس عدالت کا دائرہ اختیار کہاں تک ہے واضح نہیں ہورہا۔ 1999 ء میں پاکستانی بحریہ کا ایک ہوائی جہاز ہندوستان نے گرایا تھا۔ اس میں 16 افسروں اور جوانوں کی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ ہندوستان کا یہ دہشتگردانہ اقدام دیدہ دانستہ تھا۔
پاکستان مقدمہ بین الاقوامی عدالت انصاف میں لے گیا۔ وہاں سے یہ مایوس کن جواب ملا کہ عدالت ایسے مقدمات سننے کی مجاز نہیں تھی ۔ یہ دہشت گردی کا واقعہ تھا اور جنگی جرائم کے زمرے میں آتا تھا لیکن مدعی کو مایوس خالی ہاتھ بھیج دیاگیا۔ ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں قائم بین الاقوامی عدالت انصاف اقوام متحدہ کا ہی ایک ذیلی ادارہ ہے۔ اگر یہ عدالت سلامتی کونسل کی منظور کردہ قراردادوں پر ہی ایک نظر ڈال لے تو خجل ہوجائے۔ یہاں چند ایک کا ذکر کرنا مناسب ہوگا۔ 20 جنوی 1948 ء کو قرارداد نمبر 39 منظور کی گئی۔ 21 اپریل 1948 ء کو قرارداد نمبر 47 منظور ہوئی۔ اسی برس 13 اگست کے دن قرارداد نمبر 48 کی اقوام عالم نے متفقہ منظوری دی،پھر 24 جنوری 1957 ء کو منظور کی جانے والی قرارداد کو 122 نمبر کہا گیا۔ اُسی برس21 فروری کو ایک قرارداد نمبر 123 پر اقوام عالم متفق ہوئیں جبکہ اس برس کے آخر میں 2 دسمبر کو قرارداد نمبر 126 کو منظور کیاگیا۔ اگر یہ نصف درجن کے قریب دستاویزات بین الاقوامی عدالت انصاف کے چوہدریوں کی سمجھ میں نہ آئیں تو پھر میری تجویز ہے کہ سارے 11کے11 ایک پرواز لے کر ہمالیہ کی اترائیوں میں ہندوستانی جبر و ستم سے کراہتی، چیختی ریاست جموں و کشمیر پر سے گزریں۔ نیچے آزادی کے متوالے شہداء کی قبریں، اعضا بریدہ اور نابینا بچے او ر بچیاں ، بیوائیں ہوں گی۔ سلامتی کونسل کی قرادادوں کے رد کئے گئے اوراق میں لپٹی انسانیت آہستہ آہستہ ذبح کی جارہی ہے۔ ایڈولف ہٹلر! …کلبھوشن یادو! کشمیری مسلمانوں کو دست و پا بریدہ کرنے والے ہندوستانی فوجی! بین الاقوامی عدالتِ انصاف کیوں کھلواڑ کرتی ہے؟

شیئر: